علی گڑھ،: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق طالب علم زیاد مسرور خاں کو انگریزی کے باوقار ادبی ایوارڈ ”کراس ورڈ بُک ایوارڈ 2024“ سے نوازا گیا ہے۔ ان کی یاد داشتوں پر مبنی کتاب ”سٹی آن فائر: اے بوائے ہڈ اِن علی گڑھ“ کو نان فکشن زمرہ میں ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا۔ایوارڈ کی تقریب گزشتہ 8 دسمبر کو ممبئی میں منعقد ہوئی۔ کراس ورڈ بک ایوارڈکی ابتدا 1998 میں ہوئی تھی جس میں انگریزی تحریروں کے ہندوستانی مصنفین کو6مختلف زمروں - فکشن، نان فکشن، بچوں کی کتب، بزنس و مینجمنٹ، دماغ، جسم اور روح، اور تراجم میں ایوارڈ دئے جاتے ہیں۔ہر زمرہ کے فاتح مصنف کو پچاس ہزار روپے کا نقد انعام دیا گیا۔
نان فکشن زمرے میں ایوارڈ کے لئے منتخب کی گئی کتب میں سدھا بھردواج کی کتاب فرام پھانسی یارڈ، سوہنی چٹوپادھیائے کی دی ڈے آئی بیکیم اے رنر، زیاد مسرور خاں کی سٹی آن فائر: اے بوائے ہُڈ اِن علی گڑھ،یامنی نرائنن کی تصنیف مدر کاؤ مدر انڈیا اور ارتی کمار راؤ کی تصنیف مارجن لینڈس شامل تھیں۔ ان میں زیاد مسرور خاں کی یادداشت کو ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا۔
ٍ اس کتاب کے تجزیہ میں پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے لکھا ہے کہ ”اگرچہ علی گڑھ سے وابستگی رکھنے والے مصنفین کی لکھی ہوئی متعدد حالیہ یادداشتوں میں علی گڑھ کا ذکر ہے، جیسے کہ اے ایم یو کے سابق طالب علم اور فلم اداکار نصیر الدین شاہ نے”اینڈ دین ون ڈے“ (2014) میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ایک باب لکھا ہے، اسی طرح ان کے بھائی ضمیر الدین شاہ، سابق وائس چانسلر، اے ایم یو نے اے ایم یو کو اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی بنانے کی اپنی کوششوں اور اُس وقت کے کچھ سیاسی لیڈروں کے ساتھ ٹکراؤ کے بارے میں اپنی یادداشت ”دی سرکاری مسلمان“ (2018) میں ذکر کیا ہے اور معروف فلم ساز مظفر علی نے اپنی خود نوشت ”ذکر: اِن دی لائٹ اینڈ شیڈ آف ٹائم“ (2023) میں اے ایم یو کی شعری ثقافت کی اثر پذیری کا ذکر کیا، تاہم ان کتابوں میں علی گڑھ شہر نہیں نظر آتا۔
پروفیسر صدیقی کے بقول نوجوان مصنف زیاد مسرور خاں کی یاد داشت اس خلاء کو پُر کرتی ہے۔ اس میں علی گڑھ شہر کی زندگی کے سماجی، سیاسی و ثقافتی خدوخال پر روشنی ڈالی گئی ہے جس سے خاص طور پر مسلم علاقوں جیسے کہ اپر کوٹ، بھوج پورہ، نونیر گیٹ، بابری منڈی، میاں کی سرائے، ٹھاکر والی گلی، ہدی گودام، سرائے سلطانی اور شاہ جمال کے باشندوں کی روز مرہ کی زندگی اور ان کے بارے میں مختلف غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ مصنف پروفیسر شافع قدوائی نے مسٹر زیاد مسرور خان کو یہ باوقار ایوارڈ جیتنے پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہاکہ زیاد مسرور خان کی شاندار کامیابی دوسرے نوجوان لکھاریوں، خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نوجوان مصنفین کے لئے حوصلہ بخش ثابت ہوگی۔
شعبہ انگریزی کی سربراہ پروفیسر شاہینہ ترنم نے مسٹر خان کو باوقار ایوارڈ جیتنے پر مبارکباد پیش کی۔
قابل ذکر ہے کہ زیاد مسرور خان نے اے ایم یو سے بی اے انگریزی کی تعلیم مکمل کی۔ وہ ایک صحافی، مصنف اور دستاویزی فلم ساز ہیں۔
ایوارڈ کے ہر زمرے کی علاحدہ جیوری تھی اور نان فکشن کی جیوری میں ٹی سی اے راگھون، انورادھا سین گپتا، اور کاویری بامزئی شامل تھے