امتیاز احمد/ گوہاٹی
الیاس حسین انصاری ایک ایسا نام ہے جس نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایک نایاب کامیابی کی کہانی کے ساتھ میڈیا کی سرخیوں میں جگہ بنائی۔ مغربی آسام کے بونگائیگاؤں ضلع کے چکلا گاؤں کے نوجوان نے آسام میں اس مروجہ بیانیے کو پوری طرح جھوٹ ثابت کر دیا ہے کہ مدرسہ کی تعلیم اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم کے خوابوں کو پورا کرنے میں مدد نہیں کر سکتی، لندن کی ایک قانونی فرم کے ساتھ چند روز قبل پیرا لیگل افسر کے طور پر اپنی نئی ملازمت کا انصاری نےاعلان کیا۔
معاشی طور پر پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والے الیاس حسین انصاری نے اپنے تعلیمی کیرئیر کا آغاز ایک مدرسے کے طالب علم کی حیثیت سے ملحقہ بجالی ضلع کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں کیا تاکہ اپنا حفظ کورس مکمل کر سکیں۔ اس کے بعد انہوں نے ہوجائی میں اجمل فاؤنڈیشن کی سرپرستی میں جدید تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے گوہاٹی کے مضافات میں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔
ہونہار طالب علم نے تقریباً ہر امتحان میں غیر معمولی نمبر حاصل کرنے کی وجہ سے اپنی تمام تعلیم کے لئے سپانسر شپ حاصل کیا تھا۔ لیکن، انصاری کا اپنے اعلیٰ خوابوں کا تعاقب یہیں ختم نہیں ہوا، انہوں نے اپنے خوابوں کے شہر لندن میں قانونی خدمات حاصل کرنے کے لیے تمام امکانات کو تلاش کیا۔ لیکن، یہ کسی ایسے شخص کے لیے اتنا آسان نہیں تھا جو اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی گوہاٹی اور اس سے ملحقہ قصبہ رنگیا میں ہر سال رمضان کے دوران نماز تراویح کی امامت کرتا تھا تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے بلوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ اضافی پیسے کما سکے۔
وہ نہیں بھولتا جو مدرسہ میں سیکھا تھا۔ انصاری نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیشہ میرے خوابوں کی تعاقب میں میری رہنمائی کی ہے کیونکہ میں نے ہمیشہ اس کے احکام پر عمل کیا ہے جس طرح اس نے حکم دیا ہے۔ انصاری تقریباً دو سال قبل بین الاقوامی قانون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے تھے اور اس کے بعد سے وہ مقامی مساجد میں جمعہ اور دیگر نمازوں کی امامت کرتے ہوئے اور زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کر تے رہے ہیں۔
آخرکار وہ 23 جنوری کو لندن میں بیرسٹرس اینڈ سالیسیٹرز لیگل فرم اور اے اے ہومز اینڈ ہاؤسنگ لمیٹڈ میں ایک پیرا لیگل آفیسر کے طور پر اچھی تنخواہ پر شامل ہوئے ہیں جس کا ان کی عمر کے بہت سے لوگ ہندوستان میں صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ شمولیت کی تاریخ پر ان کی سالانہ اجرت تقریباً 37 لاکھ بھارتی روپے بنتی ہے۔ انصاری کہتے ہیں کہ میں بہت خوش ہوں کہ میری دعاؤں نے استجاب پایا۔
یہاں میرا کام بیرسٹروں اور وکیلوں اور دیگر بزرگوں کی مختلف قانونی معاملات بشمول امیگریشن، ویزہ اور بہت سی دوسری چیزوں کا مسودہ تیار کرنے اور ان کی پیروی کرنے میں مدد کرنا ہو گا۔مجھ جیسے کسی متوسط خاندان کے لیے انگلینڈ ہجرت کرنا اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ یہاں رہنے کی قیمت غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔ میں نے برطانیہ میں اپنے قیام کے لیے اسپانسر شپ حاصل کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جو کہ بہت ضروری ہے، اور آخر کار، مجھے خدا کے فضل سے مستقل کفالت مل گئی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کی ابتدائی مدرسہ تعلیم نے ان کے خواب کے تعاقب میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی ہے، انصاری نے کہا: ہرگز نہیں۔ کہیں،بھی نہیں۔ نہ میرے اپنے ملک ہندوستان میں، نہ بیرون ملک۔ میں مطالعاتی دوروں پر تقریباً 20 ممالک کا سفر کر چکا ہوں، اور مجھے کبھی ایسا کچھ نہیں ملا۔میں اپنے آئین کے بنانے والوں کا شکر گزار ہوں جہاں آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتوں کے لیے بھی اپنی پسند کی تعلیم کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔
یہاں لندن میں بھی مجھے دن میں پانچ بار نماز پڑھنے یا قرآن پاک کی تلاوت کرنے یا اپنے مذہبی احکام پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں جو دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عقیدے کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اس لحاظ سے جہاں تک پرامن بقائے باہمی کا تعلق ہے ہندوستان سب سے بڑا ملک ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بیانیہ پر یقین نہیں رکھتے کہ مدارس اور سنسکرت پاٹھ شالے بنیاد پرستی یاانتہا پسندی کی افزائش کی بنیاد ہیں۔ مذہبی تعلیمی ادارے جدید تعلیمی اداروں سے مختلف نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ دینی علوم میں چند اضافی مضامین ہوتے ہیں جو طلباء کی ہمہ گیر ترقی میں معاون ہوتے ہیں اور، کوئی بھی مذہب نفرت یا تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ مذہب ہمیشہ محبت اور ہمدردی کا درس دیتا ہے لہذا، میں اس طرح کے منفی بیانات پر یقین نہیں رکھتا۔
اس طرح کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنی زندگی کی جدوجہد کے بارے میں، انصاری نے کہا: میں بہت سے لوگوں کا شکر گزار ہوں، جن میں (اجمل فاؤنڈیشن کے چیئرمین بدرالدین) اجمل صاحب، (یوایس ٹی ایل چانسلر) محبوب الحق سر، ( ماہر تعلیم) بہار الاسلام سر اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ جن کا میں نام نہیں لے سکتا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ میں ان کا نام عوام کے سامنے رکھوں، لیکن انہوں نے میری بہت مدد کی ہے۔ ان کی مہربانیوں کے بغیر میرے لیے اتنا اونچا خواب دیکھنا ممکن نہ تھا۔ میں ہمیشہ ان سب کا مشکور ہوں جنہوں نے بے لوث میری مدد کی۔
اس کے علاوہ، میں نپولین بوناپارٹ اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جیسے عظیم لوگوں کے فلسفے پر یقین رکھتا ہوں کہ محنت اور ثابت قدمی سے سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، جس سے میری بہت مدد ہوئی۔ حالانکہ یہ انصاری کے خواب کا خاتمہ نہیں ہے۔ ان کے اور بھی بڑے خواب ہیں – ان لوگوں کی خدمت کرنا جن کے درمیان وہ پلےبڑھے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ہر کوئی مجھ سے ایک ہی سوال پوچھتا ہے۔ کیا آپ کبھی ہندوستان یا آسام واپس آئیں گے؟ یقینی طور پر، میں واپس آؤں گا اور میں گھر واپس اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کی امید رکھتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں تعلیم زیادہ سے زیادہ پھیلے۔ میں اپنے ملک کے ہر شہری کے لیے قابل رسائی اور سستے تعلیمی نظام قائم کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے ملک کے ہر شہر اور ضلع میں کالج اور یونیورسٹیاں چاہتا ہوں۔ میں یقینی طور پر واپس جاؤں گا اور اپنی زمین کے لوگوں کے لیے کام کروں گا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ نوجوان نسل کو اپنے جیسے مشکل خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟ انصاری نے کہاکامیابی کا واحد راستہ محنت اور آدھی رات کا تیل جلانا ہے۔ عظیم لوگوں کی سوانح عمری اور خود نوشت سوانح عمری پڑھیں، آپ تمام تر الہام حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے اپنے مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور دیگر سمیت تمام عظیم لوگوں نے ایسے عظیم لیڈر بننے کے لیے غیر معمولی محنت کی ہے۔ سب کچھ ممکن ہے اگر آپ اسے حاصل کرنے کے لیے ثابت قدم رہیں۔ توجہ مرکوز رکھیں۔