پونے : تعلیم سے تربیت اور روزگار تک یاسمین کی جدوجہد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 17-11-2024
پونے : تعلیم سے تربیت اور روزگار تک یاسمین کی جدوجہد
پونے : تعلیم سے تربیت اور روزگار تک یاسمین کی جدوجہد

 

شاہ تاج خان:پونے

ہم سوشل ورک نہیں بلکہ سوشل اپلفٹ مینٹ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عزم ہے یاسمین جنید --ایک ٹیچر اور سوشل ورکر کا ۔ جو سپورٹ آف برادر ہوڈ اینڈ ہیومنٹی ٹرسٹ   یعنی سوبا ہ ٹرسٹ کے پرچم تلے اپنے مشن کو پورا کرنے میں جٹی ہیں ۔جن کا مقصد بچوں خاص طور پر لڑکیوں کو تعلیم دلانا اور با اختیار بنانے کی راہ پر گامزن کرنا ہے ۔ پونے میں ان کی جدوجہد  کو ہر کوئی سلام کرتا ہے ۔  ان کی کہانی حوصلہ اور جذبے کو بیان کرتی ہے جنہوں نے  ملازمت اور شادی کے بعد اس مشن کو شروع کیا کیونکہ انہیں لگ رہا تھا کہ سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود کچھ ایسا ہے جس کی کمی کھل رہی ہے ۔

اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ اس طویل عرصے تک نوکری کرنے کے بعد بھی یہ احساس ہوتا تھا کہ کچھ ہے جو گمشدہ ہے۔شادی کے بعد جب میں پونے آئی اورکچھ فرصت ملی تو اپنا شوق پورا کرنے کا خیال آیا۔میں بچپن سے ہی ٹیچر بننا چاہتی تھی۔مگر بے وقت والد صاحب کی موت کے سبب ضروریات پوری کرتے کرتے شوق کہیں پیچھے چھوٹ گئے ۔میں گھر میں سب سے بڑی تھی۔پڑھائی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کام کر کے کسی طرح تعلیم مکمل کی اور نوکری شروع کی۔یاسمین صاحبہ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پورے 16سال بعد دوبارہ کالج میں داخلہ لیا اور پھر بی ایڈ کرکے اپنے شوق کو پورا کرنے کی جانب قدم بڑھایا۔انگریزی اور جغرافیہ مضامین کے ساتھ میں بچوں کی تربیت پر خاص طور پر کام کرنا چاہتی تھی۔سب سے پہلے رام ٹیکڑی (سلم ایریا ) میں ڈبلیو آر خان صاحب کے اسکول میں پڑھانے کا موقع ملا۔پھر ایک کے بعد ایک کئی اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دیتی رہی۔ میں اس وقت جس اسکول سے منسلک ہوں وہاں باقاعدہ 2014 میں کام کرنا شروع کیا۔اس انگریزی میڈیم اسکول میں800سے زیادہ بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ اسکول میں زیادہ تعداد ایسے بچوں کی ہے جو غریب گھروں سے آتے ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ہم نے انگریزی نہیں پڑھی لیکن ہمارے بچے انگریزی میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔

ہمارے تو پڑھنے پڑھانے کے دن ہیں

                جب اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو پڑھانے کا موقع ملا تو میں نے سوچا کہ انھیں صرف پڑھانا نہیں ہے بلکہ بچے کے ہر مسئلے کو سمجھنا ہے جیسے بچہ پریشان کیوں ہے؟وہ کس طرح کے حالات سے دوچار ہے؟ وغیرہ۔ماں اور باپ دونوں ہی کام پر جاتے ہیں۔وہاں بچوں کو بہت مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ میں ان سے بات کرتی ہوں انھیں سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔یہی وجہ تھی کہ میں نے اسکول میں ایک لائبریری شروع کی تاکہ جن بچوں کو میں نہیں پڑھا رہی ہوں وہ بھی مجھ سے آکر ملیں اور بات کریں۔اسکول میں تفریح کے پیریڈ میں لائبریری کا کام شروع کیا۔کافی محنت کے بعد اب ہمارے پاس چودہ سو کتابوں کا ذخیرہ ہے ۔ہندی، مراٹھی، انگریزی اور اردو کی کتابیں بھی ہماری لائبریری میں موجود ہیں۔بہت سے بچے اپنی والدہ کے لیے اردو کی کتابیں لے کر جاتے ہیں ۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کی امّی کو صرف اردو آتی ہے۔لائبریری میں موجود کتابوں کے متعلق بات کرتے ہوئے یاسمین کہتی ہیں کہ ہم نے ردّی والوں سے بھی کتابیں خرید کر یہاں رکھی ہیں۔جہاں سے بھی مجھے کتابوں کے متعلق خبر ملتی ہے میں کتابیں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔بچے بہت دلچسپی سے کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔میں نے یہ تجویز اپنے اسکول کی پرنسپل کے سامنے رکھی ہے کہ ایک بچہ سال میں کم سے کم دو کتابیں پڑھے اور ایک کتاب پر تبصرہ لکھ کر سب کے سامنے پیش کرے۔اس سے کئی فائدے ہوں گے ایک تو یہ کہ بچہ کتاب کا بغور مطالعہ کرے گا دوسرے اس سے بچے میں لوگوں کے درمیان بولنے کا اعتماد پیدا ہوگا اور اس طرح وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بھی مہارت حاصل کر پائے گا۔بڑے بچوں سے ہم یہ پوچھیں گے کہ جو کچھ آپ نے پڑھا اسے اپنی عملی زندگی میں کیسے استعمال کرو گے؟جس پر اس سال سے کام کیا جائے گا۔

امید کو خوف،خوف کو کھا رہی ہے غفلت

                اے آئی کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یاسمین صاحبہ نے کہا کہ پڑھے لکھے لوگ بھی مصنوعی ذہانت کے پھیلتے دائرہ سے خوفزدہ ہیں۔میں اور میری ٹیم مختلف اسکولوں میں جاکر بچوں کی کاؤنسلنگ کرتے رہتے ہیں کہ اے آئی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سمجھنے سے ہی ہم اے آئی کا صحیح استعمال کر پائیں گے۔میں مانتی ہوں کہ تعلیم کا مقصد دماغ کی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ سوچ سکے ۔جبکہ ہم رٹنے رٹانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔فن کی تدریس کی بجائے کتاب کی تدریس تک خود کو محدود کر لیتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ بچے درسی کتابوں میں موجود معلومات اور مثالوں سے ہی واقف ہوتے ہیں۔جبکہ بچوں کو کسی نئے موضوع کے ساتھ چھوڑ دیا جائے تو وہ ہماری سوچ کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔مجھے کرافٹ کا بہت شوق ہے۔میں یہ مان کر چلتی ہوں کہ بچے بولنے اور سننے سے زیادہ دیکھنے سے سیکھتے ہیں۔انھیں ماڈل بنا کر دکھایا جائے تو بچے کے ذہن میں بات بیٹھ جاتی ہے۔اسی لیے ہمارے اسکول نے پچھلے سال اے آئی کے موضوع پرماڈل بنائے اور بچوں سے بھی بنوائے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ بچوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ٹرسٹ کے کلاس روم کا منظر


خدمات کا اعتراف


اک نئی صبح بھی ہے شام الم سے آگے

                یوں تو یاسمین جنید درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔یہ ان کا شوق بھی ہے اور جنون بھی۔درد مند اور حساس دل کی مالکہ یاسمین نے اپنے ٹرسٹ کے قیام کی غرض و غایت کی بابت گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں انفرادی طور پر کام کر رہی تھی۔اس دوران ایک میری دوست نے اسپتال سے فون کیا اور کسی خاتون کے لیے مدد کی درخواست کی۔ میں نے اپنی جانب سے مدد کی پوری کوشش کی۔ان کا ڈائلیسز ہو رہا تھا۔کچھ عرصے بعد ایک روز خاتون کے شوہر کا فون آیا کہ میری بیوی کا انتقال ہو گیا ہے اور اسپتال میری بیوی کو مجھے نہیں سونپ رہا ہے۔وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس کوئی بھی کاغذات نہیں تھے۔ بہت بھاگ دوڑ کے بعد میں اس شخص کی مدد کر سکی تب مجھے احساس ہوا کہ انفرادی طور پر کام کرنے کی بجائے مجھے ٹرسٹ بنانے پر غور کرنا چاہیے۔اب ‘ایس او بی اے ایچ’ کے قیام کے بعد سے ہم پہلے سے بہتر طریقے سے کام کر پا رہے ہیں۔واضح رہے کہ‘ سوباہ’ٹرسٹ تعلیم اور صحت سے متعلق کاموں کو ترجیح دیتا ہے۔یاسمین کا کہنا ہے کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ضرورت مند شخص کو سیدھے طور پر مدد کرنے والے فرد کے رابطے میں لائیں ۔تاکہ مدد دینے والے کو معلوم ہو کہ اس کا تعاون کسی شخص کی زندگی میں کتنا اہم رول ادا کر رہا ہے۔مثال کے طور پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی تعاون کرنے کی خواہش رکھتا ہے وہ کسی بچے کی تعلیم کی کم از کم دسویں تک ذمہ داری اٹھائے۔اس طرح ہم بھی مطمئن ہوکر دوسری جانب توجہ دے پاتے ہیں اور بچے کی تعلیم میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔ایسے کئی لوگ ہیں جو کئی کئی بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھا رہے ہیں۔سوباہ ٹرسٹ کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ ضرورت مند اور مدد کرنے والوں کے درمیان وہ ایک پل کا کام کرتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

جسے پڑھے یہ نئی نسل وہ کتاب تو دے

                 سلم بستیوں میں رہنے والے بچے دسویں بلکہ بارہویں تک بھی تعلیم حاصل کرلیتے ہیں۔مسئلہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ہر اسکول دسویں میں بچوں کی کیرئیر کاؤنسلنگ کا انتظام کرتا ہے ۔وہاں پر کاؤنسلنگ کے لیے آنے والی ٹیم یہ بتاتی ہے کہ اتنے نمبر آئیں تو یہ کر سکتے ہو کم آئیں تو آرٹس لے سکتے ہو ۔ زیادہ نمبر لانے کی صورت میں میڈیکل یا انجینئرنگ فیلڈمیں جانے کا ذہن بنا دیا جاتا ہے۔ جبکہ ایک بچے کی دلچسپی آرٹس میں ہے اس کا رائٹ سائڈ برین زیادہ متحرک ہے تو اس پر کیوں یہ دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر ہی بنے۔حالانکہ اس کی دلچسپی کہیں اور ہے۔یاسمین صاحبہ کا کہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ ان کے اسکول کے ٹیچر لمبے وقت تک جڑے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بچے کی دلچسپی کہاں ہیں مگر باہر والا آکر بتاتا ہے کہ بچے کو آگے کیا کرنا چاہئے۔ میں چاہتی ہوں کہ ٹیچر بتائے کہ بچہ کس فیلڈ میں اپنی صلاحیتوں کا بہتر مظاہرہ کر سکتا ہے۔میں مانتی ہوں کہ ہر بچے میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ہوتی ہے جسے دس بارہ سال تک دیکھنے والا ٹیچر بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے مگراس کے لیے پہلے اساتذہ کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔درس وتدریس سے منسلک افراد کی ذمہ داری دیگر شعبوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس بات کی ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔اساتذہ درس و تدریس کو پیشہ کی طرح تو ذمہ داری پوری کر نے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایک جذبے اور ایک پیشن کا یہ پیشہ متقاضی ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب سماج میں لوگ اجرت کے لیے نہیں بلکہ اجر کی نیت سے کام کیا کرتے تھے۔میں کہتی ہوں کہ ٹیچنگ صرف ایک پروفیشن نہیں بلکہ پیشن ہونا چاہئے۔شوق ہو تبھی اس پیشے میں آئیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ جو کچھ اور نہیں کر پاتے یا آرام کی نوکری چاہتے ہیں وہ اس جانب رخ کرتے ہیں ۔جو کہ سراسر غلط رجحان ہے۔

                یاسمیں اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم اساتذہ کے لیے خاص ٹریننگ کا انتظام کرتے ہیں ۔تاکہ بچے کے مسائل کو ٹیچر خود جان سکے اور اس کی مدد کر سکے ۔مثال کے طور پراسپیسیفک ڈس آرڈر جیسے کوئی بچہ ہائپر ایکٹو ہوتا ہے، کوئی بچہ ریاضی نہیں سمجھ پاتااسے ڈس کیلکلیا ہوتا ہے، کسی کو ڈس لیکسیا ہوتا ہے، کسی کو ڈس گرافیا ہوتا ہے، ایسے بہت سے مسائل سے بچے دوچار ہوتے ہیں۔انھیں سمجھنے کے لیے اگر ٹیچر کو ہی ٹریننگ دے دی جائے تو وہ خود بچے کی دقت کو سمجھ کر اس کی رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے میں نے اپنے اسکول کی نرسری سے لے کر دوسری کلاس تک کے ٹیچروں کے لیے چھٹیوں میں پروفیشنل لوگوں سے باقاعدہ ٹریننگ کا انتظام کیا ہے۔ جس کے لیے اسکول کے ساتھ مل کر ہمارا ٹرسٹ کام کر رہا ہے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ ابتدائی دور میں جب مٹی نرم ہے تبھی کام کرنے کی ضرورت ہے جب مٹی سخت ہو جائے گی تب کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ہمارا ٹرسٹ اب خاص طور پر اس کام پر توجہ دے رہا ہے کہ اسکولوں میں اسپیشل بچوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے کم سے کم سو بچوں پرایک ٹیچر موجود ہو۔چائلڈ سائیکولوجی سمجھنے والے اساتذہ کی ہر ایک اسکول میں شدید ضرورت ہے۔

سماجی خدمات کا سفر


ہم ہر لمحہ بدلتی ہوئی اس دنیا کے باسی ہیں

                سوبا ہ ٹرسٹ نے پہچان فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر ان بچوں کے لیے بھی مہم چلائی جنھوں نے کووڈ کے دوران پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ہم نے بچوں کے لیے مفت دسویں پاس کرنے کا انتظام کیا۔جس میں ان بچوں کو پڑھانے کے لیے کلاسز کا بھی باقاعدہ انتظام کیا گیا تھا۔جہاں سے دس بچوں نے ایس ایس سی امتحان پاس کیا اور اب وہ بچے اپنی پڑھائی کو جاری رکھتے ہوئے کالج تک پہنچ گئے ہیں۔ایسے بھی کئی بچے ہیں جو سائنس اور ریاضی مضمون میں کمزور ہیں ان کے لیے این آئی او ایس سے دسویں کا امتحان دینے کاانتظام کیاہے۔جس بچے کو جیسی ضرورت ہو ہم اس کی تعلیم کے لیے اسی طرح کی مدد پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ بچوں کی ہم آدھی فیس تو کچھ بچوں کے لیے مفت تعلیم کی بندوبست کرتے ہیں۔میں مانتی ہوں کہ ہر مسئلے کا حل تعلیم ہی ہے۔واضح رہے کہ سوبا ہ ٹرسٹ متعدد ہم خیال این جی او کی مدد سے غریب بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں کوشاں ہے۔

                یاسمین بتاتی ہیں کہ ایسے بھی کئی کیس ہمارے سامنے آئے جب بچوں کے والدین صاحبِ حیثیت تھے وہ اچھی فیس ادا کرسکتے تھے لیکن بچے پڑھنا نہیں چاہتے تھے۔کچھ ایسے بھی بچوں کے ساتھ ہم نے کام کیا جنھیں اسکول نے یہ کہہ کر نکال دیا تھا کہ وہ پڑھ نہیں سکتے۔والدین نے کاؤنسلنگ کی تو وہاں رپورٹ آئی کہ یہ بچہ یہ نہیں کر سکتا ،وہ نہیں کر سکتا۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ بچہ کیا کر سکتا ہے۔ہم نے وہی تلاش کیا اور بچوں کی مدد کرنے کی کوشش کی۔

                یاسمین جنید نے کچھ کتابیں بھی ترتیب دی ہیں۔تعلیمی میدان میں اپنے تجربات کی روشنی میں تیار کی گئی کتابیں بچوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ بچہ لکھ سکتا ہے لیکن وہ پڑھ نہیں پاتا ۔ہمیں اس جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے اور میں اس ضمن میں کام کر رہی ہوں۔ یاسمین اساتذہ سے کہنا چاہتی ہیں کہ بچوں کی صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ بچے کے اوور آل ڈیولپمینٹ پر توجہ دی جائے۔مجموعی ترقی میں بالخصوص شخصیت سازی پر دھیان دی جائے۔یاسمین جنید کی کوششیں لگاتار جاری ہیں ۔جس کے لیے وہ کبھی اسکولوں کا رخ کرتی ہیں تو کبھی گھر گھر جاکر لوگوں کو بیدار کرتی ہیں کہ تعلیم ہی ہر مشکل کو آسان کر سکتی ہے۔