شیرین بانو : سری نگر
دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر اور لداخ کے دو نئے مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی تشکیل کے بعد کشمیر میں حالات بہتر ہونے لگے ہیں۔ اس اہم اقدام کے بعد سے کئی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ اب مرکزی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں اور اس پہل سے وہاں کے لوگ اب اچھا بھی محسوس کر رہے ہیں۔
جموں و کشمیر میں اب لوگ تمام شعبوں میں اچھی پیش رفت کر رہے ہیں۔ عوامی، فلاحی تنظیمیں زیادہ آزادانہ طور پر بغیر کسی خوف کے کام کر رہی ہیں۔آج ہم آپ کو یہاں پر ایک ایسی تنظیم کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں،جو وادی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔
جامعہ اسلامیہ معہد المسلمات میں سفید اور سبز حجاب پہنے ہوئے لڑکیاں جوش وخروش سے قرآن پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وہ وہاں پر زیادہ سے زیادہ اسلامی تعلیمات اور اسلام میں خواتین کو دئے گئے حقوق کو سمجھنے کے لئے آتی ہیں۔۔ جامعہ اسلامیہ معہدالمسلمات کی چیئرپرسن ڈاکٹر مبینہ رمضان کے دفتر میں دیوار پر ''بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دیں '' چھپا ہوا تھا۔
ڈاکٹر مبینہ رمضان بتاتی ہیں کہ بیس سال پہلے جب کشمیر میں خواتین کو کوئی ادارہ چلانے کے بارے میں نہیں سنا جاتا تھا، اس وقت وہ لڑکیوں کو تعلیم دینے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے جامعہ اسلامیہ معہدالمسلمات کی چیئرپرسن بنیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ خودکو معاشرہ کے لئے وقف کردوں گی۔ لیکن کچھ لوگ تھے جو چاہتے تھے کہ میں یہ سب نہ کروں، اوراس کی جگہ پر مجھے دوسرے آپشنز فراہم کئے،لیکن میں انکار کر دیا۔ مبینہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ پہلی کشمیری خاتون ہیں اورمیر واعظم عمر فاروق کے بعد دوسری کشمیری ہیں، جنہیں رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر، ایک آزاد تحقیقی ادارہ کی طرف سے جاری کردہ مسلم دنیا کی 500 بااثر شخصیات میں شامل کیا گیا ہے۔
جامعہ اسلامیہ معہدالمسلمات بیس سال پہلے سوپور میں اس وقت قائم ہوا۔جب مبینہ نے اپنے پہلے پروجیکٹ کے لیے رقم جمع کرنے کے لیے سونے کی انگوٹھی فروخت کر دی۔ آخر کار انہوں نے سوپور میں زمین خریدی اور لڑکیوں کے رہنے کے لیے ایک عمارت تعمیر کی۔ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ ایسے تو ہم نے سری نگر میں انسٹی ٹیوٹ کا آغاز 8 سال پہلے کیا تھا لیکن ہم ابھی بھی عمارت کرائے پر لئے ہوئے تھے۔ مبینہ کہتی ہیں کہ اس تنظیم میں مزید خواتین کی شمولیت کی ضرورت ہے جو صرف خواتین کے ذریعہ چلائی جاتی ہے۔ فی الحال تنظیم کی تین شاخیں ہیں اور شہر اور دیہات میں کئی پارٹ ٹائم مدارس اس سے منسلک ہیں۔
وہ ایک تنظیم انصار النساء کے نام سے چلاتی ہیں۔ جامعہ اسلامیہ معہدالمسلمات لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرتی ہے اور انصار النساء کا مقصد ضرورت مند خواتین کی مدد کرنا ہے۔ مبینہ کہتی ہیں کہ فی الحال ہمارے پاس ہر بورڈنگ (سوپور اور سری نگر) میں 80 لڑکیاں ہیں، سبھی کی عمریں 17 سے کم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم انہیں اسلامی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم فراہم کرنے کرتے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ معہدالمسلمات کی پرنسپل ڈاکٹر منیبہ رمضان کے ساتھ دفتر میں بیٹھی ناظمہ اس بارے میں تفصیلات فراہم کرتی ہیں کہ وہ کس طرح لڑکیوں کو سائنس، ریاضی اور انگریزی کے علاوہ اسلام کی صحیح تعلیم کے ساتھ تربیت دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم انہیں نہ صرف پڑھاتے ہیں بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔ ہم بچوں کو تیار کرنے کے لیے کوئز اور مباحثے کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیت کو نکھار سکیں۔ ناظمہ کہتی ہیں یہ ادارہ لڑکیوں کو کٹنگ اور ڈیزائننگ کی تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔
ایک طالبہ بتاتی ہیں کہ ہم یہاں پر گھر کی طرح سے محسوس کرتے ہیں اور یہاں کی اساتذہ ہماری ماؤں سے کم نہیں ہیں۔ مجھے یہاں آنے کا اعزاز حاصل ہے اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں۔ ہم تفسیر (قرآن کی تفسیر)، سیرت (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری) اور فقہ (اسلامی فقہ) کا مطالعہ کرتے ہیں۔
طالبات اپنے اساتذہ کے ساتھ دیہاتوں اور قصبوں کا دورہ کرکے خواتین تک اسلامی تعلیمات پہنچاتی ہیں، اسلام میں خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتی ہیں اور محروموں کی مدد کرتی ہیں۔ ''بہت سے علماء ایسے ہیں جو اپنے دروازے ایسے افراد پر بند کر دیتے ہیں جنہیں مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم ان خواتین کو مشورہ دینے کے لیے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جن سے بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
ڈاکٹر مبینہ ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ سسرالیوں سے جھگڑے کے بعد ایک خاتون نے رات 12 بجے انہیں مدد کے لیے فون کیااور ہم نے اس خاتون کی مدد کی ایسے کام کرکے ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ایک دفعہ ایک لڑکی کو دوائیوں کے لیے پیسے چاہیے تھے۔
اس کے والد شراب پیتے تھے۔اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ڈاکٹر مبینہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ کس طرح بعض اوقات لڑکیوں کی ماؤں کو بھی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج دنیا میں خواتین کی حیثیت پر افسردہ ڈاکٹر مبینہ کا مقصد بہتر تعلیم کے ساتھ معاشرے میں خواتین کی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں اس میں مناسب کامیابی مل رہی ہے لیکن ہم اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے مزید کام کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔ اور میں چاہتی ہوں کہ مزید خواتین ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ خواتین کو اپنا مقام بلند کرنے اور سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ وہ ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتی ہیں جہاں تمام جدید مضامین اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ، مارشل آرٹس اور پیشہ ورانہ مہارتوں جیسے کٹنگ، ڈیزائننگ، تقریر وغیرہ کی تعلیم دی جائے۔تعلیم کے ذریعہ ہی خواتین کو باختیار بنایا جا سکتا ہے۔