غوث سیوانی،نئی دہلی
حب الوطنی کے موضوع پر جتنی بھی نظمیں لکھی گئی ہونگی،ان میں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘کا منفرد مقام ہے۔ یوں تو اقبال،اہل علم کے شاعر ہیں اور ان کے فلسفے کو سمجھنے کے لئے علم کی ضرورت ہےمگر ان کے جذبہ حب الوطنی کو سمجھنے کے لئے علم نہیں،دیش بھکتی کے جذبے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کا قومی ترانہ جس قدر مشہورہے،اس سے زیادہ اقبال کا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
شہرت رکھتا ہے۔ یہ نظم بچے بچے کی زبان پر ہے کیونکہ آسان اور عام فہم زبان میں اسے لکھاگیاہے۔بہرحال یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ آج نومبرکی ۹ تاریخ کواقبال کا یوم ولادت ہے اوراہل اردواس دن کو عالمی یوم اردو کے طور پر مناتے ہیں۔
شاعراورشاعری
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبحگاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
علامہ اقبالؔ،ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اردو غزل اور شاعری کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔ انھوں نے جو کچھ بھی لکھا وہ محض پرواز خیال نہ تھا بلکہ اس میں مقصدیت بھی تھی۔ میرؔوغالبؔ کا احترام اپنی جگہ پر مگر اس صنف میں اگر کوئی تیسرا نام جڑتا ہے تو وہ علامہ اقبالؔ کا ہے۔ غالبؔ کی طرح اقبالؔ بھی فارسی کے دلدادہ تھے اور انھوں نے اپنی بیشتر شعری تخلیقات فارسی میں کیں، مگر جو کچھ بھی انھوں نے اردو میں تحریر کیا اس کی بنیاد پروہ صف اول کے شاعر تسلیم کیے گئے۔
اقبالؔ نے اردو شاعری کے جسم میں نئی روح پھونک دی جس سے غالب کا عظیم تخیل دوبارہ وجود میں آگیا۔ یہ اردو کی خوش اقبالی تھی کہ اسے اقبالؔ جیسا شاعر ملا۔ اردو غزل کو نئی جہات، اقبال نے عطا کیں اور اقبال کے کلام کا سکہ ساری دنیا میں چلا۔ انھوں نے اگر چہ نظم کی طرف زیادہ توجہ دی مگر جوغزلیں کہیں وہ بھی کم نہیں۔
اقبالؔ علم وفن میں اسم بامسمّیٰ اقبال ثابت ہوئے وہ محض طبعِ موزوں کے سبب شاعر نہ تھے بلکہ علم و فن کے مدارج بھی طے کیے تھے۔ ان کی تعلیم کیمبرج میں ہوئی تھی اور پھر تحصیل علم کے لیے وہ جرمنی گئے۔ فلسفہ ایران پر انھوں نے ایک گرانقدر مقالہ تحریر کیا جس پر انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ہندوستان کی انگریز حکومت نے ان کے علمی مقام ومرتبے کو تسلیم کرتے ہوئے ’سر‘ کے خطاب سے نوازا۔
تحصیل علم کے سلسلے میں یورپ کے سفرنے ان کی فکر کے دریچوں کو کھولا۔ یورپ کے لوگوں کی زندگی ان کی نگاہوں کے سامنے تھی ان کے خیالات ونظریات سے اقبالؔ آگاہ تھے انہیں احساس ہوا کہ اگراہل یورپ کے نظریات میں کچھ اچھائیاں ہیں تو کچھ برائیاں بھی ہیں۔ اقبالؔ نے ہندوستان واپس آکر گورنمنٹ کالج میں پڑھانا شروع کیا، مگر تقریباً ڈھائی سال بعد استعفیٰ دے کر وکالت کرنے لگے۔
وکالت کا پیشہ اور علمی کام
وکالت بھی صرف پیشے کے طور پر کرتے تھے، مال و دولت کمانے کی ہوس میں نہیں۔اقبالؔ صرف اتنے ہی مقدمے لیتے تھے جن کی آمدنی سے خرچ چل جائے۔ ان کی دلچسپی کا اصل محور علمی موضوعات تھے۔
نہیں تیرانشیمن قصرسلطانی کی گنبد پر
توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
خاندانی پس منظر
اقبالؔ کا تعلق ایک کشمیری پنڈت خاندان سے تھا جس نے تقریباً ڈھائی سو سال قبل اسلام قبول کرلیاتھا۔ یہ خاندان سیالکوٹ میں رہائش پذیر تھا۔ان کے والد شیخ نور محمدانتہائی دیندار اور پارساانسان تھے۔
اقبالؔ کو اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شاعری سے گہرالگاؤ ہوگیاتھا۔ انہیں مولانا روم کے اشعار پسند تھے اور انہیں دنوں شاعری کی ابتدا بھی ہوگئی تھی۔ ۳۲/سال کی عمر میں ایک مشاعرے میں انہوں نے پڑھا:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
اس شعر نے اساتذہ شعرا کو بھی اپنی جانب مایل کرلیا۔ کالج کے ایام میں وہ عام طور پر مشاعروں میں شرکت کرتے تھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ لاہور کے بیشتر مشاعروں میں وہ دور طالب علمی میں شریک ہوا کرتے تھے، مگر بعد میں صرف انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ان کی شرکت رہتی تھی اور یہ مصروفیت کے سبب تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے ان کی شاعری کا آغاز ہوا اور عمر کے اخیر تک جاری رہا، مگر بیشتر اردو شاعری ابتدائی دور کی ہے۔ بعد کے دور میں ان کی زیادہ توجہ فارسی کی جانب رہی۔ اقبالؔ کے مزاج کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جب طبیعت شاعری کی طرف مایل ہوتی تب ہی وہ شعر کہتے تھے۔
میلان طبع کے بغیر شعر گوئی ان کے لیے ناممکن تھی۔ جب ذہن اس طرف مایل ہوتا تو غضب کی آمد ہوتی ایک ہی نشست میں بیشمار شعر ہوجایا کرتے تھے۔ ان کے احباب ان اشعار کو کاغذ پنسل لے کر لکھتے جاتے تھے اور موزوں اشعار کا دریا بہتا رہتا تھا۔اقبالؔ اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے اور ان پر رقت کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی۔ وہ خود وجد میں ہوتے اور سامعین پر بھی جذب کی کیفیت طاری ہوجاتی۔
اقبالؔ نے حافظہ غضب کا پایا تھا اس لیے جب اشعار کی آمد ہوتی تو وہ تحریر نہیں کرتے مگر بعد میں وہ اشعار ترتیب وارذہن میں محفوظ ہوتے۔ مسلسل نظموں کو بھی وہ اسی طرح بعد میں لکھا کرتے تھے۔
میرے اشعار اے اقبالؔ کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
میرے ٹوتے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
اقبالؔ جیسے عظیم لوگ بہت کم دنیا میں آتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف علمی خدمات انجام دیں بلکہ سیاسی اور ملی تحریکوں میں بھی پیش پیش رہے۔ 1873ء میں ان کی پیدائش ہوئی تھی تو صرف اہل خاندان اور اقارب ہی جانتے تھے، مگر جب 21/اپریل 1938ء کو انھوں نے اس دار فانی کو الوداع کہا تو ہر طرف صف ماتم بچھ گئی۔ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں ماتمی جلسے ہونے لگے۔ شعراء نے مرثیے لکھے اور تاریخ وفات کہی۔
جس کی آوازوں سے لذت گیر اب تک گوش ہے
وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
حلقہ صوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام، تو بھی رہا تشنہ کام
آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مال فقیر سلطنت روم و شام