تیز رفتار زندگی میں جلد روبصحت ہونے کا راستہ ہے ایلوپیتھک:ڈاکٹر سید نثار احمد

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 20-10-2024
تیز رفتار زندگی میں جلد روبصحت ہونے کا راستہ ہے ایلوپیتھک:ڈاکٹر سید نثار احمد
تیز رفتار زندگی میں جلد روبصحت ہونے کا راستہ ہے ایلوپیتھک:ڈاکٹر سید نثار احمد

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

دنیا جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اسی طرح سے لوگوں کے رہنے سہنے، کھانے پینے اور زندگی جینے کا انداز بدل رہا ہے۔ آج ہر شخص جلدی میں ہے اور سب کچھ جلدی کر لینے کی ایک ہوڑ مچی ہے اس میں بیماریاں بھی ہیں۔ ہر مریض یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیماری فوری طور پر ٹھیک ہو اور اسے آرام مل سکے اس میں ایلوپیتھک طریقہ علاج سب سے موئثر ثابت ہوتا ہے اور مریض کو فوری طور پر راحت مل جاتی ہے۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے معروف ڈاکٹر اور مولانا سجاد میموریل ہوسپیٹل کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سید نثار احمد نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے کہ ایلوپیتھک طریقہ علاج کو سرجری نے پوری دنیا میں کافی مقبول کیا ہے اور مریض کے لیے سرجری بیحد ضروری چیز ہے اور یہ طریقہ نہ ہی ہومیوپیتھی، میں ہے اور نہ ہی آیورویدک اور طبی یونانی میں ہے۔

انسان کے لیے سب سے اہم ہے اس کا صحت

ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے ابن آدم کے لیے سب سے خاص چیز اس کا صحت ہے۔ ماضی میں کافی تجربہ کار حکیموں نے لوگوں کا کامیاب علاج کیا اس سے انکار نہیں ہے، ان کی تحقیق اور طریقہ علاج اپنی جگہ پر قائم ہے لیکن وہ نئے تقاضوں کے ساتھ اپنے آپ کو نہیں جوڑ سکے نتیجہ کے طور پر ان کی مقبولیت کم ہوگئ بلکہ اب وہ علاج پورانی صدی کی بات ہے لیکن ایلوپیتھک طریقے علاج نئے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ لگاتار ریسرچ ہو رہا ہے اور نئے نئے انکشافات کیے جا رہے ہیں، نئی دوائیں دریافت کی جارہی ہے اور مریض کو شفا ہو رہا ہے ایسے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کچھ ضمنی اثرات کے ساتھ ایلوپیتھ کے نظام پر لوگوں کا بھروسہ قائم ہے اور ایلوپیتھک طریقہ علاج نے مریضوں کو ٹھیک کرنے میں ایک انقلابی کام کیا ہے۔ ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے کہ آج ایسی بیماریاں موجود ہے جس کا علاج ایلوپیتھ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ایلوپیتھ میں مریض کو ملتا ہے فوری رزلٹ

ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے ہر بیماری میں ایلوپیتھک طریقہ علاج کا فوری نتیجہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے ضمنی اثرات ہیں۔ مختلف بیماریوں میں ضمنی اثرات کے باوجود ایلوپیتھک طریقہ علاج کافی معاون اور مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاص بات یہ بھی ہے کہ مریض دوسرے طریقے علاج کے لیے اتنا نہ ہی انتظار کر سکتا ہے اور نہ ہی اتنے درد کو برداشت کر سکتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر وہ ایلوپیتھک نظام سے اپنے آپ کو ٹھیک کرانے اور صحت مند ہونے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کی بلاشبہ عہد مغلیہ میں ایلوپیتھک طریقہ علاج ہندوستان میں اپنا پاؤں جمانا شروع کیا تھا اور انگریزوں کی حکومت میں ایلوپیتھک نظام نے پوری طرح سے صحت کے شعبہ پر قبضہ کر لیا۔ دوسرے طریقے علاج جیسے ہومیوپیتھی، آیورویدک اور طبی یونانی بھی چلتا رہا لیکن اس کی رفتار کافی سست رہی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی فاسٹ علاج چاہتا ہے تو اسے ایلوپیتھک میں جانا چاہئے اور کوئی آہستہ آہستہ اپنا علاج کرانا چاہتا ہے تو اسے ہومیوپیتھی، آیورویدک یا طبی یونانی میں جانا چاہئے۔ دراصل دیشی طریقہ علاج میں مریض کو کافی صبر و تحمل سے کام لینا پڑتا ہے اور یہ بھی خدشہ بنا رہتا ہے کہ بیماری ٹھیک ہوگی بھی یا نہیں۔ مگر جو لوگ منٹو میں رزلٹ چاہتے ہیں ان کے لیے ایلوپیتھ کا نظام سب سے بہتر ہے۔

ضمنی اثرات کا خطرہ

ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے کہ جہاں تک ضمنی اثرات کا سوال ہے تو یہ بات بلکل صحیح ہے کہ ایلوپیتھک طریقہ علاج میں بہت ساری ایسی دوائیں ہیں جس کا استعمال صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ ایلوپیتھ فوری طور پر کام کرتا ہے اور ہومیوپیتھی، آیورویدک اور طبی یونانی کی دوائیں دھیرے دھیرے کام کرتی ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے جس کا ایکشن فاسٹ ہوگا اس کا ضمنی اثرات بھی ہوگا۔ ڈاکٹر نثار کے کہنا ہے کہ ہر جسم انسانی اس لائق نہیں ہوتا ہے کہ وہ فاسٹ تدارک کرنے والے دواؤں کو قبول کر سکے۔ لیکن آج کے جو نوجوان ان دواؤں سے پلے ہوئے ہیں اس لیے ان پر ایلوپیتھ کی دواؤں کا کوئی خاص ضمنی اثرات نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ضعیف لوگ ہیں، سینیئر سیٹی جن ہیں ان کو ایلوپیتھک کی دوائیں بہت نقصان پہنچاتی ہے۔

ضمنی اثرات سے بچاؤ

ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے کہ ایک معالج کے طور پر میں یہ کہ سکتا ہوں کہ ایلوپیتھک دوائیں ان لوگوں کو کم نقصان پہنچاتی ہے جن کا مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے۔ مریض کا صحت ان دواؤں کو قبول کر سکے تو انہیں اس کا زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہومیوپیتھی، آیورویدک اور طبی یونانی کی دواؤں میں ضمنی اثرات نہیں ہوتا ہے لیکن علاج کافی دھیما ہے۔ ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے کہ یونانی یا آیورویدک دوائیں کافی سست کام کرتی ہے اس کے لیے مریض کے پاس بہت زیادہ صبر کا ہونا لازمی ہے۔

ایلوپیتھ میں دوائیں ہائی پاور

ڈاکٹر سید نثار احمد کے مطابق ایلوپیتھک طریقے علاج میں آج جو نئے ڈاکٹر ہیں وہ مریض کو ہائی پاور کی دوائیں تجویز کرتے ہیں اس سے مریض کو کافی نقصان ہو رہا ہے اس بات سے انکار نہیں ہے۔ ایسے ڈاکٹرس کو میرا مشورہ ہے کہ مریض کو وہ کم پاور کی دوائیں تجویز کریں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پیسہ کی ہوش کافی بڑھ گئی ہے، کمر سیل ٹریٹمنٹ بھی مریض کے ساتھ ڈاکٹر کرنے لگتا ہے جس سے مریض کو مالی اور بدنی دونوں اعتبار سے خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔ لیکن ایسے ڈاکٹرس بھی ہیں جو مریض کا معائنہ کر کے دوا لکھتے ہیں تاکہ مریض کو شفا بھی ہو اور کم سے کم ضمنی اثرات کا خطرہ باقی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایلوپیتھک میں بھی کچھ ڈاکٹرس کافی اچھا کام کر رہے ہیں۔

ایلوپیتھ کے ترقی کا راز

ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے کہ آج ہر شخص جلدی میں ہے وہ قدرتی علاج کی طرف مائل نہیں ہوتا ہے۔ مریض اپنا فاسٹ علاج کرانا چاہتا ہے اور ایلوپیتھک طریقے علاج کا رزلٹ کافی فاسٹ ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ آج کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے علاج میں بہت زیادہ تاخیر کی جائے یہی وجہ ہے کہ ایلوپیتھ کا نظام ترقی کر رہا ہے۔

ایلوپیتھ میں لوگوں کا یقین

ڈاکٹر سید نثار احمد کے مطابق ایلوپیتھک طریقہ علاج میں کام اچھا ہو رہا ہے لیکن کچھ ضمنی اثرات  کے ساتھ۔ ہومیوپیتھی، آیورویدک اور طبی یونانی طریقے علاج کی طرف جانے کے بجائے مریض ایلوپیتھک طریقے علاج کی طرف جاتے ہیں۔ وہاں رزلٹ جلدی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو کوئی ایسا زخم ہو گیا ہو کہ اس کی سرجری ضروری ہے تو کیا وہ ہومیوپیتھی، آیورویدک اور طبی یونانی میں جا کر قدرتی علاج کرانے کا انتظار کرے گا یا فوری طور پر اپنے زخم کا سرجری کرا کر درد سے نجات حاصل کرے گا؟ یقیناً کوئی نہیں چاہتا کہ لمبی بیماری لیکر گھومتے رہے۔ وہ انتظار کرنے کے بجائے ایلوپیتھ میں جا کر اس کا علاج کرا لیتا ہے۔

قدرتی علاج کے فوائد

ڈاکٹر نثار احمد کا کہنا ہے کہ رہی بات دیشی طریقہ علاج یا قدرتی علاج کی تو اس میں یقیناً ضمنی اثرات  نہیں ہے، یہ اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ماضی میں ایسے حکیم ہوئے ہیں جن کے علاج سے لوگوں کو شفا ہوتی تھی لیکن آج اس میں کمی واقع ہوئی ہے اور لوگوں کا پورا رجھان ایلوپیتھ کی طرف ہو گیا ہے۔ مریض اب اپنی بیماریوں کو فورن ٹھیک کرانا چاہتا ہے وہ اس درد کو لیکر انتظار نہیں کرنا چاہتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ایلوپیتھ میں ضمنی اثرات ہے لیکن بیماریاں جلدی ٹھیک بھی ہوتی ہے۔ دیشی طریقہ علاج پہلے کا سسٹم تھا اور لوگ اس کے عادی تھے اب ساری چیزیں بدل گئی ہے اور وقت فاسٹ ہو گیا ہے۔ ایسے حالات میں ایلوپیتھک طریقے علاج ترقی کرے گا اس سے کس کو انکار ہے۔

لوگوں کی جان بچا رہا ہے ایلوپیتھ

ڈاکٹر سید نثار احمد کا کہنا ہے کہ ایلوپیتھک طریقے علاج لوگوں کی جان بچا رہا ہے۔ ہزاروں مریض ایسے ہوتے ہیں جو انتظار نہیں کر سکتے، علاج کا انتظار کریں گے تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ کئی بیماریاں ایسی ہے جس کا لمبا علاج کیا جائے تو مریض مر جائے گا۔ ٹی وی، کینسر یا اس جیسی دوسری بیماریاں ایلوپیتھ کے نظام سے ٹھیک ہو رہی ہے۔ ہارٹ اٹیک، کڈنی کا پروبلم اور دیگر امراض میں کسی مریض کو انتظار نہیں کرایا جا سکتا۔ دوسرے طریقے علاج میں مریض ان بیماریوں میں مر جاتے ہیں۔ بہت بیماریاں ایسی ہے جس میں مریض کو بچانے کے لیے ایلوپیتھ میں علاج کرانا ضروری ہے۔ ایلوپیتھ میں پیسوں کا خرچ ہے لیکن مریض کو بچایا جاتا ہے اور وہ جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ دوسرے طریقے علاج میں یہ خطرہ ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ بیماری ٹھیک ہوگی بھی یا نہیں۔ خاص طور سے سرجری ایلوپیتھ کی سب سے بڑی چیز ہے۔ اگر یہ طریقہ نہیں ہو تو لوگوں کے اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر نثار احمد کا کہنا ہے کہ ضمنی اثرات ہے لیکن فوری علاج اور فوری رزلٹ ایلوپیتھ میں ہی ممکن ہے۔