امروہہ : جانیں! درگاہ حضرت شاہ ولایت صاحب پر بچھو کیوں نہیں کاٹتے؟

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-05-2024
امروہہ : جانیں! درگاہ حضرت شاہ ولایت صاحب  پر بچھو  کیوں نہیں کاٹتے؟
امروہہ : جانیں! درگاہ حضرت شاہ ولایت صاحب پر بچھو کیوں نہیں کاٹتے؟

 

منصور الدین فریدی : امروہہ / نئی دہلی 

شمالی ہند میں علمی ،ادبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھنے والا ایک تاریخی شہر۔ ماضی کا یہ ایک چھوٹا سا قصبہ،جسے کسی نے فلم میکر کمال امروہوی کے لیے جانا تو کسی نے شاعر جان ایلیا کے لیے لیکن امروہہ کی روح یا آتما کا رشتہ ہمیشہ بزرگوں کے مزاروں سے ہی رہا جوشہر میں بھائی چارے کی ضمانت بھی رہے ہیں،ان میں ہی ایک مزار ہے ۔۔۔۔ شاہ ولایت صاحب ۔جو کہ ایک بزرگ حضرت سید حسین شرف الدین شاہ ولایت کی آرام گاہ ہے۔ امروہہ میں مغرب کی جانب تقریباً 50 بیگھے پر پھیلی درگاہ کا صدر دروازہ بجنور روڈ پرہے، یہی وہ درگاہ ہے جہاں بچھو نہیں کاٹتے۔ ہاں! یہ معجزہ یا چمتکار ہی ہے۔ جوامروہہ میں مشہور درگاہ حضرت شاہ ولایت صاحب ہر کوئی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تب ہی یقین کرتا ہے۔حضرت شرف الدین شاہ ولایت امروہہ میں دادا شاہ ولایت کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی درگاہ پر زائرین کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ ان میں بچے بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی۔ مردہوتے ہیں اور خواتین بھی۔۔ان میں ہر مذہب وملت کے لوگ ہوتے ہیں جو یہاں آنے کے بعد بچھووں کی کی کثیرتعداد دیکھ کر خوف نہیں بلکہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں ۔

یوں تو امروہہ میں بہت سے قدیم بزرگوں کی آمد اور ان کے کارناموں کا ذکر ہسٹری کی کتابوں میں موجود ہے جن میں ایک شاہ ولایت بھی ہیں۔دراصل حضرت شاہ شرف الدین نقوی سہرورد ی سادات امر وہہ میں پہلے شخص تھے جو امروہہ آئے ۔۔۔۔۔۔ ان کی حیات ہی میں چو دھویں صدی عیسوی اور ساتویں صدی ہجر ی کے آغا ز میں سید حسین شر ف الد ین شا ولا یت نے امروہہ کا رخ کیا تھا ۔۔۔۔ وہ سال1272 کو ایران کے ایک قصبے وصیت سے ملتان کے راستے امروہہ آئے تھے۔۔۔۔۔۔awazurdu

awazurduشاہ ولایت صاحب کی درگاہ کا ایک منظر


کون تھے وہ

امروہہ  شمالی ہندوستان کی ایک نہایت زرخیز  بستی ہے جس کو علمی ادبی اور روحانی حوالے سے تمام برصغیر میں ایک خاص مقام  حاصل   ہے  اس میں دو رائے نہیں کہ  یہ چھوٹی سی بستی اسلامی ہند کی ثقافتی زندگی میں خاص اہمیت کی حامل رہی ہے۔ سادات امر وہہ میں پہلے شخص جو سرزمین امروہہ میں وارد ہو ئے وہ سید شاہ نصیر الد ین چشتی تھے ،ان کی حیات ہی میں چو دھویں صدی عیسوی اور ساتویں صدی ہجر ی کے آغا ز میں سید حسین شر ف الد ین شا ولا یت  امروہہ آئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا نامور سیاح عبید اللہ ابن بطوطہ حضرت شاہ کے زمانے 1340 میں امروہہ آیا تھا۔اس نے شاہ ولایت صاحب کی زندگی کے آخری دنوں  میں ملاقات کی تھی ۔۔۔۔۔ ابنِ بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ اُس دوران شاہ ولایت  صاحب اور ان کے بڑے صاحب زادے نے میرے لیے بڑی دعوت کا انتظام کیا تھا۔ شاہ ولایت صاحب کا انتقال 1343  میں نوے سال کی عمر میں ہوا تھا۔ جس کے بعد سے ہر سال شاہ ولایت صاحب کا عرس جاری ہے ۔

ایسا کیوں ہوا

ایک روایت میں ہے کہ جب شاہ ولایت (رح) امروہہ پہنچے تو امروہہ میں پہلے سے موجود صوفی حضرت خواجہ گیسو بابا شاہ نصیر الدین خوش نہیں ہوئے ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت شاہ ولایت امروہہ میں مقیم  ہوں۔ انہوں نے اپنی ناراضگی اور بیزاری کا اظہار بڑے انوکھے انداز کیا ۔ انہوں نے حضرت  شاہ ولایت  صاحب کے لیے پانی سے بھرا پیالہ بھیجا۔ تو اس کا جواب  بھی بڑے خوبصورت انداز میں ملا ۔حضرت شاہ ولایت نے مسکرا کر اس پیالے کے پانی پر ایک گلاب ڈال کر واپس کر دیا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ 'روحانی طور پر سیر' امروہہ میں ان کی حیثیت گلاب کی مانند ہے۔ اس کے جواب میں  صوفی نصیر الدین نے کہا کہ آپ کے مزار پر بچھو ہوں گے۔ شاہ ولایت نے جواب دیا کہ ۔۔۔ ہاں لیکن وہ ڈنک نہیں ماریں گے۔آپ کے مزار پر گدھے پائے جائیں گے۔ جس کا حضرت نصیر الدین نے جواب دیا کہ 'ہاں، لیکن وہ سے اس جگہ کی بے حرمتی نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امروہہ میں خواجہ نصیرالدین کی درگاہ ہے جہاں گم شدہ گدھے پائے جاتے ہیں جو اس درگاہ پر کسی قسم کی گندگی نہیں کرتے ہیں ۔

awazurdu

awazurduشاہ ولایت صاحب کے مزار پر ہاتھوں پر چلتا بچھو


کیا مسلمان اور کیا ہندو ۔۔ سب ہوتے ہیں حاضر

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ درگاہ قومی یکجہتی اور ہندومسلم بھائی چارہ کے لئے ایک مثالی مقام ہے۔ گنگا جمنی تہذیب یہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔اس مقام پر ہندو، مسلم، سکھ عیسائی سب آتے ہیں۔ ویسے تو دیوالی کے پہلے روز سے ہی عقیدت مندوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لیکن عین دیوالی اور اس سے ایک روز پہلے تو عقیدت مندوں کی اتنی بھیڑ ہو جاتی ہیکہ درگاہ میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ درگاہ کے خادم کا کہنا ہے کہ درگاہ کے احاطے میں آنے والے افراد ہر قسم کے جادو ٹونے سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ان عقیدت مندوں میں وہ پرانے مریض بھی ہوتے ہیں جو جادو ٹونے کے اثر سے شاہ ولایت کے فیض کے سبب نجات پا چکے ہیں اور وہ عقیدت مند بھی ہوتے ہیںجنہیں اپنے دشمنوں سے جادو کئے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

حضرت شاہ ولایت صاحب برصغیر ہند و پاک کے وہ واحد بزرگ ہیں جن کی تقریبا دس ہزار اولاد دنیا بھر میں ایک رشتہ آستانہ ولایت سے جڑی ہوئی ہے۔ اہم اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہندوستانی روحانی بزرگوں میں حضرت شاہ ولایت صاحب ، غالبا واحد ایسے بزرگ ہیں جن کے آستانے کا اندراج اتر پردیش کے شیعہ اور سنی دونوں وقف بورڈوں میں موجود ہے اور دونوں مسلک کے لوگ مل کر عرس میں شامل ہوتے ہیں۔

حضرت  شاہ ولایت کی اولادیں

ا پروفیسر ناشر نقوی  اپنی کتاب ’’ امروہہ کی عالمی شخصیات ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔  حضرت شاہ ولایت صاحب کی اولاد آپ کے زمانے سے ہی صاحبان علم و فضل رہی ہے جس کے سبب شاہانِ ہند کے درباروں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ سلطان فیروز شاہ کے عہد سے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک اولا د شاہ ولایت سے متعلق سو سے زیادہ حضرات کو کابینہ وزارت میں منصب حاصل رہے ہیں۔ شاہ ولایت صاحب کے بڑے صاحبزادے سید امیر علی  قاضی القضاۃ بنائے گئے تھے۔ اسی طرح مغل بادشاہ اکبر نے اپنے دور میں شاہ صاحب کے پر پوتے سید محمد صاحب کو 1572 عیسوی میں ہندوستان کا میر عدل (چیف جسٹں) منتخب کیا  جو بعد  میں صوبہ سندھ کے گورنر بھی رہے۔ وہیں سکھر حیدر آباد سندھ میں آپ مدفون ہیں۔ میر عدل کے بڑے بھائی حضرت سید مبارک صاحب بھی دربار اکبری میں فوج کے جرنل رہے۔ اسی طرح ان بھائیوں کی اولاد میں سید ابوالفضل اور سید ابوالقاسم بھی اکبر کی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر رہے۔اکبر کی بڑی فتوحات کی وجہ بنے۔ سید عبدالہادی ابن سید مبارک فاتح اڑیسہ کے خطاب سے سرفراز ہوئے۔ انھیں بادشاہ نے اپنی فتح کے عوض میں امروہہ کے قرب دنوا کے سات سو گاؤوں کامالک بنایا تھا۔ میر عدل کے چھوٹے بیٹے سید شاہ ابوالحسن ( جن کے نام سے منسوب محلہ در بارشاہ ابوالحسن ، سبھی ہے ) اور پوتوں میں سید غلام علی ( جن کے نام سے محلہ کٹرہ غلام علی ہے ) ، سید عبد الواحد، دیوان سید محمود ( بانی مراد آبادی دروازہ اور محلہ دربار کلاں ) اور محلہ صدد کے سید عبدالہادی، سید ابو الفضل اور سید عبد الجلیل ، محلہ گزری کے سید غضنفر علی ، سید محمد مختار، سید عبد الواحد ، سید بنیاد علی خاں ، سید علی اعظم خاں وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جو عہد مغلیہ میں بڑے منصب دار رہے ہیں

 حضرت شاہ ولایت صاحب کی اولادیں اور اردو ادب

دلچسپ بات یہ ہے کہ امروہہ میں آرام فرما رہے روحانی بزرگ حضرت شاہ ولایت صاحب کی اولادوں نے پہلے جہاں مختلف بادشاہوں کے دور میں سفارت کاری سے فوجی ذمہ داریاں تک نبھائیں ۔وہیں اردو ادب میں بھی شاہ ولایت صاحب کی اولاد نے سنگ میل قائم کئے ہیں ۔  پروفیسر ناشر نقوی  اپنی کتاب میں لکھتے ہیں  کہ ۔۔۔ سید محمد اسمعیل امروہوی شمالی ہند کے پہلے مرثیہ نگار اور مجموعی مثنوی نگاری کے پہلے شاعر تھے، اسی طرح میر تقی میر کے استاد سید سعادت علی سعادت امروہوی بھی شاہ صاحب ہی کی اولاد سے تھے۔ تاریخ دانوں میں مصنف تاریخ واسطیہ سید رحیم بخش ، مصنف تاریخ اصغری سید اصغر حسین اور مصنف تاریخ سادات امروہہ جسٹس سید نہال احمد ، پہلی جنگ آزادی 1857 کے جاں باز مجاہد، سید شبیر علی اور گلزار علی جنھیں انڈومان نکوبار میں انگریزی حکومت کی جانب سے کالا پانی ہوا یہ سب فرزندان شاہ ولایت ہی رہے ہیں ۔ شاہ صاحب کی اولاد میں شامل بہت سے افراد الحمد اللہ آج بھی اپنے علم وفضل سے امروہہ اور جد کا نام روشن کر رہے ہیں۔