ڈاکٹر شبانہ رضوی
غالب کی شاعری میں ایک عجیب سی کشمکش اور تضاد کا رنگ نمایاں ہے۔ یہ تضاد دراصل اس عہد کی فکری پیچیدگیوں اور غالب کی ذاتی زندگی کے تجربات کا عکس ہے۔ ایک طرف وہ شراب کے پیمانے ہاتھ میں تھامے ہوئے نظر آتے ہیں، تو دوسری جانب ان کے اشعار میں توحید کی گہری جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ شراب اور خدا پرستی دو بظاہر متضاد تصورات غالب کے کلام میں ایسے گھل مل جاتے ہیں جیسے روشنی اور سایہ۔ یہ تضاد دراصل غالب کی روحانی جستجو کا آئینہ ہے، جہاں شراب محض ایک علامت بن کر رہ جاتی ہے اور توحید کی وسعتوں میں وہ اپنے ہونے کے راز کھوجنے نکلتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ تصادم صرف ظاہری نہیں بلکہ ایک ایسے مسافر کی داستان ہے جو مئے خانہ سے کعبہ تک کا سفر طے کرتا ہے، اور ہر قدم پر سوال کرتا ہے: خدا کے ہونے کا راز کیا ہے؟
*قادر اللہ اور یزداں ہے خدا
ہے نبی مرسل، پیمبر رہنما*
*زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں، گے کہ خدا رکھتے تھے*
غالب کی شاعری میں شراب اور توحید دو بظاہر متضاد عناصر ہیں، مگر وہ ان دونوں کو اس قدر ہم آہنگی سے پیش کرتے ہیں کہ یہ تضاد ایک منفرد روحانی سفر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ شراب ان کے ہاں صرف مادی لذت کی نمائندہ نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے، جو معرفت کے سفر میں ایک وسیلہ یا جستجو کا استعارہ بن جاتا ہے۔ توحید کی تلاش میں شراب کا ذکر دراصل ان کے فلسفیانہ اور صوفیانہ رجحان کی نمائندگی کرتا ہے۔ ظاہری ایمان پر غالب یوں طنز کرتے ہوئے ۔
*کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا، کہ ہم نکلے*
غالب کے ہاں شراب بطور استعارہ:
غالب کی شاعری میں شراب کا ذکر کثرت سے ملتا ہے، مگر یہ صرف ایک دنیاوی حقیقت نہیں بلکہ معرفت اور خودشناسی کے سفر کی علامت ہے۔ شراب کے ذریعے وہ عقل اور ہوش کی سرحدوں کو پار کر کے ایک نئی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں.
*حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو مرے شیشے پہ مے کا گمان ہے*
غالب کے ہاں شراب کا ذکر محض ایک دنیاوی حقیقت نہیں بلکہ روحانی جستجو اور معرفت کی علامت ہے۔ شراب کی یہ علامتی حیثیت انہیں عقل اور ہوش کی حدود سے آگے لے جاتی ہے، جہاں وہ خدا کی وحدانیت کو ایک زندہ تجربے کے طور پر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فکری جستجو کا سفر، شراب کے ذکر سے شروع ہو کر توحید کی گہرائیوں میں جا کر ختم ہوتا ہے.
توحید اور غالب کی فکری جستجو:
غالب کا عقیدۂ توحید انتہائی گہرا اور فلسفیانہ ہے۔ وہ خدا کو محض ایک تصور نہیں بلکہ ایک زندہ تجربہ مانتے ہیں، جس کی حقیقت کو جاننے کے لیے وہ ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں۔ ان کے نزدیک خدا کی وحدانیت کائنات کے ہر ذرّے میں موجود ہے۔
*زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا جہاں خدا نہیں!*
شراب اور توحید کا باطنی تعلق:
غالب کی شاعری میں شراب اور توحید کے ذکر کا امتزاج درحقیقت انسانی شعور کی مختلف کیفیات کو بیان کرتا ہے۔شراب کے ذکر میں وہ اپنی باطنی کیفیت اور خدا کی تلاش کی اس جستجو کو بیان کرتے ہیں، جو صوفیانہ فکر کا ایک اہم پہلو ہے۔
اس میں ایک قسم کا صوفیانہ رنگ بھی جھلکتا ہے، جہاں مادی دنیا سے بےگانگی اور روحانی سفر کی تمنا پوشیدہ ہے۔
*بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
رہتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
گو ہاتھو میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے *
*میخانے سے ملے ہے بقدرِ طلب سرور
سبحہ فروش ہو کہ زاہد ہو یا کہ رند*
*ظاہر ہے کہ گبھرا کے نا بھاگیں گے نکیرین
ہاں منہ سے مگر بادہ و دوشینہ کی جو بو آئے*
غالب کی شراب اور صوفیانہ روایات:
غالب کا ذکرِ شراب دراصل فارسی اور اردو صوفیانہ شاعری کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ صوفی شعرا نے شراب کو عشقِ حقیقی اور معرفتِ الٰہی کے سفر کی ایک علامت کے طور پر استعمال کیا۔ غالب بھی اسی روایت کے تسلسل میں اپنی منفرد آواز شامل کرتے ہیں۔
*واعظ نہ تم پیو، نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی*
خدا سے مکالمہ اور انسان کی بے بسی:
غالب کی شاعری میں خدا سے مکالمہ ایک اہم پہلو ہے۔ وہ شراب کے پردے میں اپنی انسانی کمزوری اور خدا کی عظمت کو بیان کرتے ہیں۔ یہ مکالمہ کبھی شکوہ کی صورت میں ہوتا ہے تو کبھی دعا کی صورت میں۔
*قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں*
غالب کی شاعری میں شراب اور عقیدۂ توحید ایک پیچیدہ مگر دلکش امتزاج پیش کرتے ہیں۔ شراب ان کے لیے ایک علامت ہے، جو خدا کی تلاش میں ان کی بے خودی اور جستجو کو بیان کرتی ہے۔ ان کے ہاں یہ دونوں تصورات متضاد نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں، جو انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی کے سفر پر گامزن کرتے ہیں۔
غالب کی شخصیت اور شاعری میں ایک حیران کن تضاد موجود ہے، جو ان کے فلسفیانہ اور عملی زندگی کے درمیان جھلکتا ہے۔ ایک طرف وہ عقیدۂ توحید کے علمبردار ہیں، خدا اور آخرت پر ان کا ایمان نہایت مضبوط اور واضح ہے، جبکہ دوسری طرف وہ کھل کر شراب نوشی کرتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام میں شراب حرام ہے۔ یہی تضاد غالب کی ذات کا وہ پہلو ہے، جو ان کے کلام میں بار بار ابھرتا ہے اور ان کی فکر کے پیچیدہ مگر دلچسپ زاویے کو واضح کرتا ہے۔
*یہ مسائلِ تصوف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا*
غالب بطور شرابی:
غالب کی زندگی میں شراب صرف ایک علامت نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں شراب نوشی کو کھل کر تسلیم کیا اور اس کا ذکر ان کے خطوط اور شاعری میں بھی ملتا ہے۔ یہ عملی تضاد ان کے کلام میں خود شناسی اور خدا شناسی کے سوالات کو اور بھی پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
*مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے*
عقیدۂ توحید اور خدا پر مضبوط ایمان:
غالب کے ہاں عقیدۂ توحید محض ایک فلسفیانہ تصور نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت تھی۔ ان کے اشعار میں خدا کی وحدانیت، اس کی قدرت اور انسان کی بے بسی کی جھلکیاں واضح طور پر ملتی ہیں۔ ان کے ہاں خدا کے بارے میں سوالات اور شکوے بھی اسی ایمان کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔
*نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا*
تضاد کی فلسفیانہ تشریح:
غالب کا یہ تضاد دراصل انسانی نفسیات اور فلسفے کا وہ پہلو ہے، جہاں انسان اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے بھی خدا کی عظمت کے سامنے جھک جاتا ہے۔ شراب ان کے لیے دنیاوی کمزوری کی علامت ہے، جبکہ توحید ان کے روحانی سفر کی معراج۔ وہ جانتے ہیں کہ شراب حرام ہے، مگر وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے، بلکہ اپنے عمل اور عقیدے کے درمیان کی کشمکش کو اپنے اشعار میں کھل کر بیان کرتے ہیں۔
*ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں*
خدا اور خود احتسابی:
غالب کی شراب نوشی کے باوجود ان کے کلام میں خود احتسابی اور خدا سے مکالمہ نمایاں ہے۔ وہ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے بجائے، ان کو خدا کے حضور پیش کرتے ہیں اور اپنی انسانی کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ اعترافِ گناہ ان کے ایمان کی مضبوطی اور خدا پر انحصار کو مزید نمایاں کرتا ہے۔
*کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی*
یہ شعر مرزا غالب کے خود احتسابی اور گہرے روحانی شعور کا مظہر ہے۔ اس میں وہ اپنی زندگی اور اعمال کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ان کے جیسے شخص کو کس منہ سے کعبہ جانا چاہیے۔ یہ خود تنقیدی رویہ غالب کے فلسفیانہ اور توحیدی نظریے کو ظاہر کرتا ہے، جہاں وہ اپنی خامیوں اور گناہوں کے اعتراف کے ساتھ خدا کی عظمت کے سامنے اپنی عاجزی اور کم مائیگی کا اظہار کرتے ہیں۔
*جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی*
شراب، عشق اور معرفت:
غالب کے ہاں شراب کا ذکر محض لذتِ نفس کے لیے نہیں، بلکہ اس میں ایک طرح کی روحانی بے خودی کی جستجو بھی شامل ہے۔ وہ اپنی شراب نوشی کو دنیاوی غموں سے فرار اور روحانی سکون کی تلاش کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہی تضاد ان کے ہاں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے درمیان فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔
غالب کی شاعری میں شراب اور عقیدۂ توحید کا تضاد درحقیقت ان کی شخصیت کی پیچیدگی اور انسانی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے بھی خدا کے حضور سر جھکائے نظر آتے ہیں۔ یہ تضاد ان کے کلام کو ایک منفرد گہرائی عطا کرتا ہے، جہاں شراب اور توحید کی بحث دراصل انسان کی روحانی اور دنیاوی کشمکش کی کہانی بن جاتی ہے۔ یہی تضاد غالب کو ایک عام شاعر سے بلند کر کے فکر اور فلسفے کا نمائندہ بناتا ہے۔
*پینے دو غالب کو مے، اس کا علاج یہی ہے
دل جو غمِ جہاں سے جلے،بجھائے شراب سے*
*مے کشی کا اثر یہ ہے غالب
ہم نے ہر بات کو ہنسی جانا*
مختصر یہ کہ غالب کی شاعری میں شراب اور عقیدۂ توحید کے درمیان ایک نمایاں تضاد موجود ہے، جو ان کی شخصیت اور فکر کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ شراب نوشی ان کی زندگی کی حقیقت تھی، جس کا اعتراف انہوں نے کھل کر کیا، جبکہ خدا اور آخرت پر ان کا ایمان بھی انتہائی مضبوط تھا۔ وہ جانتے تھے کہ شراب اسلام میں حرام ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے بجائے انہیں اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے ہاں شراب دنیاوی کمزوری اور توحید روحانی معراج کی علامت ہے۔ یہ تضاد درحقیقت انسانی فطرت کی اس کشمکش کو بیان کرتا ہے، جہاں گناہ اور معرفت، خطا اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہی کشمکش غالب کی شاعری کو ایک منفرد گہرائی اور فلسفیانہ رنگ عطا کرتی ہے، جو انہیں محض شاعر نہیں بلکہ فکر و فلسفے کا نمائندہ بنا دیتی ہے۔
حتمی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کے فلسفیانہ تضادات درحقیقت انسانی فطرت کے پیچیدہ اور متضاد پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ انسان کبھی مادی حقیقت میں الجھتا ہے تو کبھی روحانی بلندیوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ یہی کشمکش غالب کی شاعری میں نظر آتی ہے، جو ایک عام انسان کے اندرونی تضادات کا عکس ہے۔ ان کا یہ تضاد دراصل حقیقت اور خواب، شک اور ایمان، اور عقل و جذبات کے درمیان توازن کی تلاش ہے، جو ہر دور کے انسان کی نفسیاتی اور فکری کیفیت کی نمائندگی کرتا ہے۔