منصور الدین فریدی : آواز دی وائس
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک آدمی اپنی قبر میں بھی کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں اور دلوں پر راج کر رہا ہے ۔۔۔۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے بارے میں ان تاثرات کا اظہار ہندوستان میں برطانیہ کے مشہور وائسرائے لارڈ کرزن نے کیا تھا جب وہ اجمیر میں صوفی بزرگ کی درگاہ پر گئے تھے۔ان کا خراج عقیدت کوئی افسانوی نہیں تھا بلکہ اس کی ایک تاریخ ہے۔ضخیم تاریخ ہے ۔بات وائسرائے کی نہیں بلکہ اس ملک پر جس نے بھی حکمرانی کی وہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دینے آیا، دبے پیر سر جھکا کر آیا اور جھکی نظروں کے ساتھ دعا کرکے سر جھکا کر چلا گیا۔ ماضی کا کوئی بادشاہ ہو یا شہنشاہ ۔ سلاطین ہوں یا وزرا ۔اس دور کا جمہوری حکومت کا سربراہ ہو یا صدر۔اسٹار ہو یا سپر اسٹار ۔۔جو بھی آتا ہے مراد لے کر آتا ہے، کچھ مانگ کر جاتا ہے ۔ یہی ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ کی روایت،جو ان کے اس دنیا سے رخصت ہوئے قریباً آٹھ سوسال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی قائم ہے ۔ان کا آستانہ اور درگاہِ آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ جہاں دنیا بھر کے امیر و غریب اور سربراہانِ مملکت حاضری دے کر روحانی سکون اور فیض حاصل کرتے ہیں۔ ذیل میں آپ کی بارگاہ میں نے جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے
خواجہ معین الدین چشتی کی وفات 1236 میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ (درگاہ) خواجہ معین الدین چشتی اجمیر شریف درگاہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ان کے عقیدت مندوں کے لیے انتہائی قابل احترام مقام ہے۔ التمش،شہنشاہ اکبر، رضیہ سلطانہ، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگزیب وغیرہ جیسے مغل بادشاہوں نے درگاہ پر باقاعدگی کے ساتھ حاضری دی تھی۔۔درگاہ اجمیر شریف پر چادر چڑھانے کی روایت گزشتہ آٹھ سو سالوں سے جاری ہے، کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے سلطان التمش نے یہاں چادر چڑھائی، مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے جاہ و جلال کے سامنے پورا ہندوستان سرنگوں تھا لیکن وہ خود خواجہ غریب نواز کے در پرفقیروں کی مانند حاضری دیتاتھا-برصغیر پر جب انگریزقابض ہوئے تووہ بھی خواجہ غریب نواز کے روبرو پیش ہوتے، ملکہ برطانیہ ہر سال باقاعدگی سے درگاہ پر چادر چڑھانے کیلئے بھیجا کرتی تھیں۔جبکہ آزادی کے بعد تو حاضری کی روایت میں مزید مضبوطی آگئی۔
درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ
خواجہ معین الدین چشتی ؒ سے شاہی ملاقاتیں
خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ دنیا کے نامی گرامی ہستیوں کی حاضری کی ایک ضخیم تاریخ رکھتی ہے،یہ سلسلہ دراصل سلطان شمس الدین التمش پہلے متلاشی تھے جنہوں نے روحانی طالب علم بن کر 1332 میں مقدس صوفی مزار اجمیر شریف کی مشہور زیارت کی تاکہ مقدس یاد کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات کا تجربہ بھی کیا جا سکے۔
اگر بات کریں خواجہ معین الدین چشتی کی زندگی میں کسی بادشاہ کی حاضری اور ملاقات کی تو اس کا اعزاز سلطان شهاب الدين غوری کو حاصل رہا ۔ ۔سلطان غوری 1192 میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دینے کے بعد اجمیر گیا اور خواجہ معین الدین چشتی سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت خواجہ معرین الدین چشتیؒ کے دست حق پر بیعت بھی کی۔ (افاضات حمید صفحہ 14-13اور ( آتش کده آزر - صفر 367)۔
محمد حفظ الرحمن نے اپنی کتاب سلطان الہند : خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ اور اجمیر کے آثار قدیمہ میں لکھا ہے کہ ۔۔یہ نیک متقی پرہیز گار سلطان خواجہ غریب نواز سے عقیدت رکھتا تھا ۔ حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر بھی ہوا۔ جب خواجہ غریب نواز اپنے خلیفہ قطب الدین بختیار کا کی سےملنے دہلی آئے تو سلطان دہلی سے باہر پہنچ کر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کا استقبال کیا اور دہلی سےلوٹتے وقت ان کے ساتھ پیدل گیا۔ آپ سے تعلیم معرفت بھی حاصل کی۔ اور آپ کی عقیدت میں ڈھائی دن کے جھونپڑے کے نام سے اجمیر میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جو آج بھی اپنی صحیح صورت حال پر قائم ہے۔
شاہی حاضریوں کا آغاز
سلطان ظفر خان سلطان گجرات کی حاضری
تاریخ بتاتی ہے کہ جب سلطان فیروز شاہ کی وفات کے بعد اس کا فرزند سلطان محمد شاہ تخت نشین ہوا۔ گجرات کے حالات کے مد نظر سلطان نے گجرات کی حکومت اپنے ایک امیر اعظم ۔ ہمایوں ظفر خاں کو عطا کی۔ جس نے 1395 میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دی تھی اور ایک جنگ میں فتح کی دعا کی تھی۔ بعدازاں ظفر خاں نے اپنے نام کا خطبہ و سکہ جاری کر کے اپنے کو مظفر شاہ کے نام سے موسوم کیا اور سلطنت گجرات کا بانی کہلایا۔ معین الارواح - صفحہ 315-316 ۔۔۔ اس کے بعد سلطان محمود خلجی سلطان مانڈونے1464میں اجمیر کی درگاہ پرحاضری دی تھی۔ساتھ ہی مسجد صندل خانہ تعمیر کرائی ۔ مزار مبارک کے خدام اور مجاوروں کو انعام واکرام سے بھی نوازا تھا
شیرشاه سوری کی حاضری
اجمیر ہسٹوریکل اینڈ ڈسکرٹو (بحوالہ تاریخ داودی ۔ صفحہ 316 ) کے مطابق شیر شاہ نے راجہ مالدیو ( حاکم مارواز ) کو شکست دی۔جس کے بعد 1544 میں درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کی زیارت کے لیے اجمیر حاضر ہوا ۔ایک بڑی رقم فقراء کو تقسیم کی ۔اس کے بعد وہ تفریح کے لیے تا راہ گڑھ پر گیا۔ چونکہ قلعہ میں پانی کی کمی تھی اس لیے اس نے معمار مقرر کئے اور چشمہ حافظہ جمال سے قلعہ میں پانی پہنچانے کا بندو بست کیا اور اس کا نام شیر چشمہ رکھا۔
برطانیہ کے وائسرائے لارڈ کرزن نے اجمیر کی درگاہ پر حاضری دی تو اس روحانیت کو محسوس کیا جو کروڑوں مرید وں کے لیے مشعل راہ رہی
برصغیر پر جب انگریزقابض ہوئے تووہ بھی خواجہ غریب نواز کے روبرو پیش ہوتے، ملکہ برطانیہ ہر سال باقاعدگی سے درگاہ پر چادر چڑھانے کیلئے بھیجا کرتی تھیں۔ اس وقت کے وائسرائے لارڈ کرزن یہ ذمہ داری ادا کیا کرتے تھے۔وائسرائے لارڈ کرزن نے 1902 میں اجمیر کی درگاہ پر حاضری دی تھی۔ جس کے بعد انہوں نے لکھا تھا کہ ۔۔ میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسا بزرگ دیکھا ہے جو اپنی وفات کے بعد بھی ہندوستانیوں کے دِلوں پر راج کرتا ہے ، سابق وائسرائے ہند نے انگریزی دورِ حکومت میں اجمیر آیا تھا اور اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا کہ ۔۔۔میں نے دیکھا کہ ہندوستان میں ایک قبر حکومت کر رہی ہے۔۔۔
یاد رہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعدمقدس درگاہ کو درگاہ خواجہ صاحب ایکٹ 1955 کے تحت راجستھان حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور پاکستان کی سابق وزیر اعظمم مرحومہ بے نظیر بھٹو اجمیر کی درگاہ پر حاضری دیتے ہوئے
ہندوستانی سیاستداں اجمیر میں عرس کے موقع پرعقیدت کی چادر بھیجتے ہیں ۔ تصویر میں کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی اور وزیر اعظمم نریندر مودی چادروں کے ساتھ
آزادی کے بعد
ملک کی تقسیم اور آزادی کے بعد بھی اجمیر شریف کی اہمیت برقرار رہی بلکہ اس میں اضافہ ہوا کیونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد ان کے عقیدت مند کبھی کبھی سرحدوں کے بند ہونے کے باوجود حاضری کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کسی بھی ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات جیسے بھی ہوں لیکن جب بات اجمیر شریف کی زیارت کی ہوتی ہے تو پھر ہر رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے یا ختم کردی جاتی ہے۔ عقیدت مندوں کے لیے برے سے برے سفارتی یا سیاسی ماحول میں بھی سرحد بند نہیں کی جاتی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں یوں تو مختلف سیاسی جماعتوں کے متعدد سیاستدانوں نے حاضری دی ہے یہی نہیں بڑی سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس اور بی جے پی کے مابین تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود درگاہ اجمیر شریف پر چادر چڑھانےپر مکمل اتفاق رہا ہے۔ساتھ ہی سابق صدور ہوں یا وزرا اعظم یا غیر ملکی مہمان سب کا اجمیر شریف میں حاضر ہونے کا سلسلہ جاری ہے–
ڈاکٹر راجندر پرشاد سابق صدر جمہوریۂ ہند نے1951میں زیارت کی تھی اور کہا تھا کہ خواجہ کی زندگی روشنی کا مینارہ تھی جس نے دور دور تک اجالا پھیلا دیا یہ روشنی دلوں میں اس طرح اتر گئی اور پوری دنیا کو جگمگا دیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔جواہر لعل نہرو ،اندرا گاندھی، ڈاکٹر ذاکر حسین، چندر شیکھر، گیانی ذیل سنگھ، واجپائی، وی پی سنگھ، بنگلہ دیش کے جنرل ارشاد، پاکستان کی نظیر بھٹو، فوجی حکمراں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف،سابق وزیر اعظم آصف زرداری، سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی ماضی میں درگاہ اجمیر شریف کا دورہ کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ جب آصف زرداری جیل میں قید تھے تو انہوں نے اجمیر شریف آکر رہائی کی منت مانی تھی اور جب زرداری صاحب کو رہائی نصیب ہوئی تو محترمہ انہیں لیکر یہاں آئیں۔ راجیو گاندھی نے 2؍ مئی 1991 کو اجمیر میں حاضری کے وقت کہا کہ اجمیر میں درگاہِ غریب نواز پر آ کر میں نے قلبی سکون محسوس کیا ہے۔
پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حکمرانوں کی جانب سے بھی مقدس درگاہ کیلئے چادر بھیجی جاتی ہے، امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دور اقتدار میں خواجہ معین الدین چشتی کے عرس کے موقع پر خصوصی طور پر درگاہ کیلئے چادر بھیجی، یہ کسی بھی جنوبی ایشیا سے باہر کے سربراہ حکومت کی طرف سے پہلا نذرانہ عقیدت تھا