امام حسین، کربلا اورحسینی برہمن ۔۔۔ روحانی رشتے کی کہانی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-07-2024
امام حسین، کربلا اورحسینی برہمن ۔۔۔ روحانی رشتے کی کہانی
امام حسین، کربلا اورحسینی برہمن ۔۔۔ روحانی رشتے کی کہانی

 

منصور الدین فریدی:  نئی دلی

ہندوستان کا کربلا اور امام حسین سے کیا رشتہ تھا؟ یہ سوال یقینا ہر کسی کو چونکا دیتا ہے لیکن اس کے پیچھے ایک بڑی کہانی ہے۔ جو ہندوستان سے کربلا اورامام حسین کے ساتھ ہندوستانیوں کےلگاو و محبت کو بیان کرتی ہے ۔ اس کا مرکزی کردار ہیں حسینی برہمن ۔ یاد رہے کہ واقعہ کربلا اپنی نوعیت کا ایک ایسا واحد المیہ ہے کہ جس کا رد عمل آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوا- کربلا آج بھی ویسے ہی تر و تازہ ہے - کربلا آج بھی اتنی ہی معجز نما ہے - کربلا آج بھی اتنی ہی سحر آفریں ہے- کربلا آج بھی اتنی ہی عظیم ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کربلا صدیوں سے لکھی جا رہی ہے۔ہمیشہ اس میں امام حسین سے محبت کی بات آتی ہے تو حسینی برہمنوں کا بھی ذکر ہوتا ہے ۔ دراصل شہدا کربلا کی یاد میں عزاداری صرف مسلمان ہی نہیں کرتے بلکہ ہندو مذہب میں بھی ایک گروہ ایسا ہے جو غم حسین میں ہر سال اشک بار ہوتا ہے اور شہدا کربلا کی عظیم قربانیوں کو یاد کرتا ہے۔

حسینی برہمنوں کا کہنا ہے کہ  ہمارا حسین سے عشق ہے۔ محبت ہے۔ حسین صرف مسلمانوں کے رہنما نہیں۔ وہ انسانیت کے لیے محبت کا پیغام لائے تھے۔مذہبی نفرتوں اور دوریوں کے باوجود ہندوؤں کا یہ گروہ محرم کی رسموں میں حصہ لیتا ہے اور خود کو حسینی برہمن کہتا ہے۔ یہ حسینی برہمن  ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے سندھ میں پائے جاتے ہیں۔ کئی نسلوں سے اپنے طریقوں سے غم حسین منا رہے ہیں۔

 دراصل ہر سال محرم میں حسینی برہمن  بھی موضوع بحث بن جاتے ہیں ،جو ان کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں وہ دوسروں کو ان کے کربلا کے رشتے کی کہانی سناتے ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حسینی برہمنوں کے تعلق سے کوئی  تاریخی شواہد نہیں بلکہ یہ روایات اور ورثے میں ملے  واقعات  کی روشنی میں ہی ان کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔

آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ مشہور فلم اداکار سنیل دت کا تعلق بھی راہب دت کے خاندان سے تھا۔ وہ کئی مواقع پر اپنے اور اپنے آباؤ اجداد کے لئے امام حسین کا ذکر کیا کرتے تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ دت خاندان کے لوگوں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا اور ہندو ہوتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ انسانیت مذہب کا عظیم حصہ ہے

ممتاز شیعہ عالم مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ تاریخ میں حسینی برہمن کے متعلق دو روایتیں مِلتی ہیں۔

پہلی روایت یہ ہے کہ ۔۔۔ جب امام حسین کو کربلا میں اہل و عیال سمیت گھیر لیا تو امام حسین نے چند لوگوں کو خطوط لکھے۔ ان میں سے ایک خط دوسرا خط برصغیر میں ایک ہندو راجا سمندر گپت کو بھیجا تھا، انہوں نے بھی ایک لشکر کربلا روانہ کیا۔مگر جب یہ لشکر کربلا پہنچا تب تک امام حسین شہید ہو چکے تھے۔ اسی لشکر سے کچھ لوگ مارے گئے ۔کچھ وہیں بس گئےاور آج بھی کوفہ میں اہل ہند کے نام سے محلہ ہے۔کچھ واپس ہندوستان چلے آئےاور حسینی برہمن کہلوائے۔یہ لوگ ہر سال محرم میں اِمام پاک اور اپنے لوگوں کا سوگ مناتے ہیں۔

جبکہ دوسری روایت ہے کہ چوتھے خلیفہ راشد مولا علی کے دور میں ہندو تاجر تجارت کی غرض سے اسلامی دارلحکومت کوفہ آتے جاتے تھے۔کچھ آباد ہو گئے اور ان کے نام سے اہل ہند کا محلہ آج بھی آباد ہے۔ ان میں ایک ہندو تاجر راہب دت تھا۔ جو عراق میں کہیں آباد تھا۔اس کی اولاد نہیں تھی۔ امام حسین کی دعا سے اللہ تعالی نے راہب دت کو سات بیٹے عطا کیے۔ جب راہب دت کو امام پاک کے محاصرے کا علم ہوا تو اپنے سات بیٹوں اور چند ساتھیوں کے ساتھ امام حسین کی مدد کے لیے نکلا۔راستے میں کسی جھڑپ میں اس راہب دت کے بیٹے اور ساتھی شہید ہو گئے۔راہب دت مغموم ہو کے واپس اپنے وطن پنجاب کے علاقہ سیالکوٹ آ کر آباد ہو گیا۔اور بعد میں دت قوم جموں۔ گوالیار۔راجستھان۔دہلی ۔ممبئی میں آباد ہو گئی۔

یہ ہے روایات کی بنیاد پر امام حسین کے ساتھ ہندوستان کا رشتہ یا حسینی برہمنوں کی کہانی ۔

مولانا ظہیر عباس رضوی  کہتے ہیں کہ  ۔۔ اس المیہ سے قبل امام حسین نے جب صلح کے تحت کوفہ سے باہر نکلنے کی بات کی تھی تو انہوں نے ہندوستان کا رخ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس وقت ان کے آمنے سامنے  کئی ممالک تھے لیکن امام حسین نے ہندوستان کا نام کیوں لیا تھا  یہ حیران کن تھا ۔

اگر ہم بات کریں برہمن دت کی تو وہ تاریخ میں ہمیشہ جنگجو رہے ہیں۔سلطان محمود غزنوی اور مغل بادشاہوں سے ان کے معرکے تاریخ میں ملتے ہیں۔ یہ تقسیم ہند سے پہلے سیالکوٹ گورداسپور۔شملہ۔اور ہریانہ میں کافی تعداد میں آباد تھے۔ مشہور بالی ووڈ اداکار سنیل دت ۔سجے دت حسینی برہمن ہیں۔تاریخ میں دریائے سندھ کے باسیوں کا امام کی آواز پے لبيك کہنے کا تذکرہ ملتا ہے۔ (بحوالہ تاریخ محلیہ دت 1911 اور دی ویژن آف انڈیا نامی کتاب رائٹر مترا سسر کمار)

شواہد نہیں لیکن روایات ہیں

حسینی برہمن کی حقیقت کے بارے میں تاریخی شواہد یا ثبوت فراہم کیے جانے مشکل ہیں کیونکہ حسینی برہمن کی تاریخ خاندانی روایات اور ورثے میں ملنے والی کہانیوں سے تشکیل میں آئی ہے۔ حسینی برہمن کے مطابق ان کے آباؤ اجداد میدان کربلا میں امام حسین کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے۔ اس سلسلے برصغیر کے معروف دانشور انتظار حسین نے اپنے انگریزی کالم برہمن ان کربلا میں لکھا ہے کہ وہ بھی پہلے حسینی برہمن کو صرف ہندو افسانہ ہی سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اس بات کو جھٹلا دیا۔ جس پر ایک خاتون پروفیسر نونیکا دت نے انہیں بتایا کہ وہ خود حسینی برہمن ہے۔ ان کے جدِ امجد راہیب دت اپنے سات بیٹوں اور دو دوسرے برہمنوں کے ساتھ مل کر امام حسین کی جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں سے ایک یعنی راہیب دت بچ کر واپس آئے وہ افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے اور سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے مقام پر آباد ہوئے تقسیم کے بعد یہ خاندان ہندوستان چلا گیا اور یہ لوگ مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ خاتون پروفیسر کے مطابق مشہور فلمی اداکار سنیل دت کا تعلق بھی انہی حسینی برہمنوں کے خاندان سے ہے جس کی تصدیق فلمی اداکار منوج کمار نے بھی کی۔ بلکہ نرگس کے والد بھی پہلے حسینی برہمن تھے بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔ انتظار حسین نے نونیکا دت سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ ہم ہندو برہمن ہی ہیں ، وہ محرم کے دنوں میں حسین کا ماتم بھی کرتے ہیں اور اپنے شہیدوں کی یاد بھی مناتے ہیں۔

دور نبوت سے قبل بنا رشتہ

حسینی برہمنوں کی روایات کے مطابق ان کے اجداد عرب سے تجارتی تعلق رکھتے تھے۔ دور نبوت سے پہلے جو تجارتی قافلے سندھ سے مکے جاتے تھے ان میں یہ ہندو برہمن بھی گئے تھے۔ جبکہ دت خاندان ہندوستان کے تاجروں میں شمار ہوتا تھا جو ہندوستان سے مصالہ جات، عطریات اور کپڑا وغیرہ لے کر دوسرے ملکوں کو جاتے اور فروخت کرتے اور وہاں کی سوغات ہندوستان لاتے- سن 61 ہجری میں یہ قافلہ جو تقریباً 300 تاجروں پے مشتمل تھا سفر کرتا ہوا عراق کے شہر کوفہ پہنچا اور چَند دن قیام کر کے اپنی اشیا وہاں فروخت کیں اور وہاں سے اگلی منزل کے لئے پھر روانہ ہوا-

جب یہ قافلہ کوفہ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ چاروں طرف فوج تعینات ہے اور کسی طرف بھی راستہ کھلا نہیں ہے اس قافلے کو وہیں روک لیا گیا- قافلے والوں نے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو ان کو بتایا گیا کہ حکومت کے خلاف حسین بن علی نے بغاوت کی ہے لہٰذا ان سے جنگ کی جائے گی ۔ قافلے کے سردار نے کہا کہ اگر تم ہمیں آگے نہیں جانے دیتے تو واپس کوفہ جانے دو تاکہ ہم اختتام جنگ تک امن سے رہ لیں۔- فوجیوں نے کہا کہ اب یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ اگر تمہیں واپس جانے دیا گیا تو تم لوگ کوفہ کے لوگوں کو جاسوسی کرو گے اس لئے اب تم واپس بھی نہیں جا سکتے اور جنگ کے خاتمے تک اب یہیں رکو گے- چار و ناچار یہ لوگ وہیں رک گئے - جنگ ہوئی اور جنگ کی خبریں ان لوگوں کو بھی ملتی رہیں- ہر ہستی کی شہادت اور شجاعت کے قصے یہ لوگ سنتے رہے۔ ان لوگوں کو امام حسین اور ان کے حق پرست رفقاء سے محبت و ہمدردی پیدا ہوئی- جب ان لوگوں نے امام حسین  کی شہادت کا سنا تو ان سے اپنے جذبات پے قابو نہ رہا ۔ راہیب دت اور اس کے سات بیٹوں اور دو ساتھیوں نے تجارتی قافلے میں اپنے ساتھیوں کو اپنا سامان دیا اور خود امام حسین سے ملاقات کے لئے کربلا تشریف لے گئے۔ 

  اس گروپ نے کربلا میں امام حسین  سے ملاقات کی۔ ان کی طرف سے اس جنگ میں شرکت کی۔ راہیب دت کے ساتوں بیٹے بوگندر سکند، راکیش شرما، شاس رائے، شیر خا، رائے پن، رام سنگھ، دھارو اور پورو اور دونوں ساتھی کربلا میں قربان ہوگئے جبکہ راہیب دت کو گرفتار کیا گیا ۔ بعد میں رہا کر کے قافلے والوں کے سپرد کردیا گیا جو اس وقت وہیں موجود تھا۔ حسینی برہمن کی روایات میں ہے کہ راہیب دت کربلا سے نکل کر امام حسین  کے خاندان کے لوگوں سے بھی ملا تھا۔ جب اس نے انہیں بتایا کہ میں اصل میں برہمن ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ تم اب حسینی برہمن ہو اور ہم تمہیں یاد رکھیں گے۔ جب راہیب دت واپس پہنچا تو وادی سندھ میں ہندوؤں کا ایک نیا گروہ پیدا ہوا جس کا نام حسینی برہمن تھا۔ یہ ہندو ہیں مگر اپنا تعلق امام حسین سے جوڑتے ہیں۔ حسینی برہمن آج بھی موجود ہے اور ہر سال محرم الحرام میں شہدا کربلا کی یاد مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے تاریخ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا مگر حسینی برہمن کے نام سے یہ لوگ سندھ اور برصغیر میں موجود ہیں۔ ان کے ورثے کی روایات اور کہانیاں اس کو ٹھوس بناتی ہیں

ہند۔عرب گہرے رشتوں کا ثبوت

یوگندر سکند دی ملی گزٹ اور راکیش شرما اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے معروف مورخ اور تاریخ دان سیسر کمار مترا اپنی کتاب دی ویژن وف انڈیا کے صفحہ 183 پر لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ اسلام سے قبل بھی ہندوستان اور عرب ممالک میں تجارتی تعلقات تھے اور بہت سے ہندو تاجر جو مال تجارت ہندوستان سے عرب لیجاتے تھے وہ عرب میں مقیم تھے۔اور اعلان رسالت کے بعد بھی ان ہندووں میں سے بیشتر افراد رسول خدا کی محفلوں میں شرکت کرتے اس طرح ان کے تعلقات خاندان رسول سے قائم ہوا۔ جب 680 عیسوی میں واقعہ کربلا پیش آیا تو راہب دت نامی ہندو تاجر امام حسین کی فوج میں اپنے سات بیٹوں کے ساتھ شامل ہوا ۔ یزیدی لشکر سے جنگ کی۔ امام حسین علیہ السلام نے راہیب کو سلطان کا خطاب بھی عطا کیا۔

تاریخ نویس سارکمار مترا نے اپنی کتاب دی وژن آف انڈیا صفحہ نمبر 183 میں کچھ یوں لکھا ہے کہ اسلام کے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ہندو خاص کر برہمن بھی عرب میں رہتے تھے جو شیوا اور مکریشا کی عبادت کرتے تھے (اور دراصل مکہ کا نام مکریشا سے ہی نکلا ہے) اس زمانے میں برہمنوں نے اہلِ عرب کو حساب الجبرا اور اعشاریہ وغیرہ سے بہرہ ور کروایا۔ اسی زمانے میں کہ جب واقعہ کربلا پیش آیا ( جمعہ 10 اکتوبر 680 ہجری ) راہب سدھ دت جو دت قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، وہیں پہ رہتا تھا۔ وہ پنجاب سے عرب آیا تھا۔ اور وہاں کا معزز فرد سمجھا جاتا تھا۔ جس وقت آلِ محمد (ص) کے مقابل یزید کی تیس ہزار کی فوج صف آرا تھی راہب سدھ دت نے یزیدی فوج کے خلاف امام کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دی۔

واقعہ کربلا کے عظیم المیہ نے حق پسند انسانی معاشرے اور انسانی تہذیب کو ہر دور میں متاثر کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستانی معاشرہ میں شہید انسانیت امام حسین علیہ السلام کی یاد نہ صرف مسلم معاشرہ کی تہذیبی و تاریخی روایت رہی ہے بلکہ غیرمسلم معاشرہ میں انسانیت کے اس عظیم رہنما کی یاد بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ عصر حاضر میں بھی قائم ہے۔ مشترکہ تہذیب کے گہوارہ ہندوستان میں ہندوں کی امام حسین علیہ السلام سے غیر معمولی عقیدت کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔