آوازدی وائس
چیرامن پیرومل جمعہ مسجد، ہندوستان میں تعمیر کی گئی سب سے قدیم مسجد اور ایک بہت ہی غیر معمولی یادگار ہے۔ یہ بحیرہ عرب کے کنارے قدیم بندرگاہی شہر مزیرس جسے اب کوڈنگلور کہا جاتا ہے میں ہے۔یہ کیرالہ کے مخصوص فن تعمیر میں تعمیر کی گئی ہے جسے اب کوڈنگلور کہا جاتا ہے۔ 630 عیسوی کی اس مسجد کی تزئین و آرائش جاری ہے۔ یہ وہی مسجد ہے جس کی سونے کی نقل حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی بادشاہ کو تحفے میں دی تھی۔
مسجد اب اپنی اصل شکل میں نظر آ رہی ہے کیونکہ پچھلی صدیوں میں جو بھی توسیعات شامل کی گئی تھیں ان کو مسجد کی جاری تزئین و آرائش کے ایک حصے کے طور پر ہٹا دیا گیا ہے جس کا نام اس کے بانی کیرالا کے چیرا بادشاہوں کے آخری حکمرانوں میں سے ایک کے نام پر رکھا گیا تھا۔ لیکن تزئین و آرائش کا کام جو کوویڈ کی وبا کے دوران شروع ہوا تھا فنڈ کی کمی کی وجہ سے رک گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو راجہ چیرامن پیرومل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 630 عیسوی میں مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔
تاہم راجہ ، مسجد کی تکمیل دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہا۔ وہ ایک ہندو راجہ تھا اور اسی طرح اس کے جانشین بھی تھے ،تب تک کیرالہ یا ہندوستان میں ابھی تک کوئی مسلمان نہیں تھا۔ چیرہ کی پوری سلطنت اس کے ماتحت تھی۔ روایت ہے کہ ایک بار راجہ نے چاند کے ٹکڑے ہونے اور بعد میں دوبارہ جڑنے کا نظارہ کیا۔ اس نے اس بارے میں نجومیوں کو بتایا۔ مزیرس ہمیشہ سے دنیا کے مختلف حصوں سے مسالوں کی تلاش میں آنے والے مسافروں کا مرکز رہا ہے۔
چنانچہ کچھ عرب سیاح پیرومل سے ملنے پہنچے اور گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا اور معجزہ شق القمر کی جانکاری دی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوا تھا۔ مسافروں نے اسے بتایا کہ کسی نے نبی کو چیلنج کیا تھا کہ وہ حکم کریں چاند کے دوٹکڑے ہوجائیں اور دوبارہ مل جائیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ وہ حقیقت میں خدا کے نبی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چاند اسی وقت دو حصوں میں بٹ گیا اور دوبارہ جڑ گیا۔ مسافروں نے چیرومن کو بتایا کہ انہوں نے بھی ایسا ہی واقعہ دیکھا تھا۔
راجہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہا اور بعد میں وہ عرب کی طرف روانہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور بعد میں اسلام قبول کر لیا اور کچھ عرصہ وہیں رہا۔ واپسی پر وہ بیمار ہو گیا اور سلالہ میں انتقال کر گیا۔ اس نے اپنے رشتہ داروں کے لیے خطوط چھوڑے جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے خط لے جانے والے آدمیوں کو وصول کریں اور اپنی سلطنت میں ایک مسجد بنائیں۔
کہا جاتا ہے کہ چیرامن مسجد راجہ کی اولاد اور چیرامن کے عرب دوستوں نے بنوائی تھی۔ یہ مسجد آج تک کھڑی ہے، ملک کے سب سے طاقتور کالی بھگاوتی مندر سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جو کوڈنگلوور میں ہے۔ مسجد کے احاطے سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چرچ ہے جسے 50 عیسوی میں سینٹ تھامس کے دورہ ہند کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ یہ غالباً ہندوستان میں بنایا گیا پہلا چرچ ہے۔کوڈنگلور کی مسجد آج اصل مسجد کی ہی شکل میں کھڑی ہے۔
اس سے قبل مسجد میں کئی توسیعات کا اضافہ کیا گیا تھا لیکن جاری تزئین و آرائش میں سابقہ تزئین و آرائش میں شامل تمام بیرونی تبدیلیاں ہٹا دی گئی ہیں اور اب اصل ڈھانچہ باہر دکھائی دے رہا ہے۔ چیرامن مسجد کمیٹی کے سابق سیکرٹری سی وائی سلیم کے مطابق مسجد کی تزئین و آرائش رک گئی ہے کیونکہ فنڈز ختم ہو گئے ہیں۔ اصل میں جو مسجد بنائی گئی تھی اس میں زیادہ نمازی شامل نہیں ہوسکتے تھے لہذا، اس سے پہلے کی تزئین و آرائش کی مہموں میں، اصل ڈھانچے کو چھپاتے ہوئے مسجد کے ارد گرد توسیعات ہوئی تھیں۔
ان سے مسجد کی گنجائش 3500 افراد تک بڑھ گئی تھی۔ حالیہ تزئین و آرائش نے ان توسیعات کو ہٹا دیا اور اس کے بجائے نماز کے لیے زیر زمین ڈھانچہ بنایا لیکن اب بھی صرف 1500لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سلیم کہتے ہیں، لہٰذا، مزید 2000 نمازیوں کے لیے جگہ پیدا کرنی ہوگی۔ اس لیے منصوبے کے مطابق مسجد کے اوپر ایک سائبان بنایا جانا ہے اور اس سے 2000 سے زائد نمازیوں کو جذب کرنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔ ’’اس کے لیے ہمیں تقریباً 1.5 کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔
سلیم کہتے ہیں کہ تاریخی ڈھانچے کی تزئین و آرائش پر اب تک تقریباً 9 کروڑ کی لاگت آئی ہے اور فنڈز زیادہ تر عطیات کے ذریعے آئے ہیں۔ سلیم کا کہنا ہے کہ نصف سے زیادہ فنڈز ارب پتی تاجر اور مشرق وسطیٰ کے ریٹیل کنگ یوسف علی سے آئے ہیں جو کیرالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور خلیج اور باہر لولو مال کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔
مسجد کے سیکولر ماضی پر روشنی ڈالتے ہوئے، سلیم نے 2007 میں سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے مسجد کے دورے کو یاد کیا۔ یہاں مقامی کمیونٹی اور کوڈنگلور کے سابق شاہی خاندان کے جانشین نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہیریٹیج پروجیکٹ کے تحت کیرالہ حکومت نے مسجد کے ساتھ ہی ہیریٹیج میوزیم کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اب یہ تاریخی قصبے میں ایک اور مقام پر قائم کیا جا رہا ہے۔