اردو کے اہم تراجمِ قرآن کا تعارف

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-11-2021
اردو کے اہم تراجمِ قرآن کا تعارف
اردو کے اہم تراجمِ قرآن کا تعارف

 

 

awazthevoice


 ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، نئی دہلی

  آخر کار برادرِ مکرم ڈاکٹر سید وہّاج الدین ہاشمی کی کتاب 'اردو میں ترجمۂ قرآن کی تاریخ' شائع ہوگئی ، جس کا تقریباً ایک برس سے انتظار تھا۔ اسے مشہور اشاعتی ادارہ منشورات پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔اصلاً یہ تحقیقی مقالہ ہے ، جس پر مصنف کو شعبۂ ترجمہ ، اسکول برائے السنہ ، لسانیات و ہندوستانیات ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد کی جانب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔  اردو کا شمار ان زبانوں میں ہوتاہے جن میں سب سے زیادہ قرآن کے ترجمے ، تفسیر اور اس کی تعلیمات کی تشریح و توضیح کا کام ہواہے ۔ اس کی تاریخ پر خاصا کام ہوا ہے ۔ پھر بھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت باقی تھی۔اس لیے کہ کتب خانوں میں ترجمۂ قرآن کے قدیم قلمی نسخوں کا برابر انکشاف ہورہا ہے ، بیسویں صدی عیسوی میں بہت سے تراجم اور تفاسیر منظر عام پر آئی ہیں اور اکیسویں صدی کی دو دہائیوں میں بھی اس میدان میں خاصا کام ہوا ہے۔

چنانچہ ضرورت تھی کہ اردو زبان میں ترجمۂ قرآن کی پوری تاریخ کا جائزہ لیاجائے ، موجود اور دست یاب تراجم کی قدر و قیمت متعین کی جائے اور ادبی ولسانی اعتبار ات سے ان کے مقام ومرتبہ کو جانچا جائے ۔ اس کتاب سے یہ ضرورت بہ خوبی پوری ہوئی ہے۔

یہ تحقیقی مقالہ سات (7) ابواب پر مشتمل ہے ۔ ابتدائی تین (3) ابواب تمہیدی نوعیت کے ہیں ، جن میں قرآن مجید کا عمومی تعارف کرایاگیاہے ، ترجمۂ قرآن کی ضرورت واہمیت اور اس راہ کی مشکلات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور فنِ ترجمہ نگاری کی تاریخ اور عہد اسلامی میں ترجمہ کی روایات پر اجمالی روشنی ڈالنے کے ساتھ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کے آغاز وارتقا سے بحث کی گئی ہے۔

باب چہارم ڈاکٹر ہاشمی کی تحقیق کی اصل جولان گاہ ہے ۔ اس میں 6 فصلوں کے تحت صدی بہ صدی قرآن مجید کے مکمل اور جزوی تراجم کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کا جائزہ لیا گیا ہے ۔

مصنف کی تحقیق کے مطابق سولہویں صدی میں صرف چند اجزائے قرآن کے ترجمے ہوئے تھے ۔ ستراہویں صدی میں صرف ایک مکمل ترجمہ و تفسیر (تفسیر وہابی1686ء) لکھی گئی اور پانچ نامکمل جزوی تراجم ہوئے ، البتہ اٹھارہویں صدی میں خاطر خواہ کام ہوا ۔ چنانچہ نو (9) مکمل تراجم اور پندرہ (15) تا بیس(20) جزوی تراجم کا پتہ چلتا ہے۔

شاہ عبد القادر کا بامحاورہ ترجمہ اور شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ اسی صدی کے آخری زمانے میں ہوگئے تھے ، البتہ ان کی اشاعت انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی ۔ انھوں نے اس صدی کے تیرہ(13) تراجم کا مختصر تعارف کرانے کے بعد ان میں سے تین تراجم (شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے تراجم کے علاوہ شاہ مراد اللہ انصاری کے ترجمہ وتفسیر) کا مفصل تعارف کرایاہے ۔ ان تین صدیوں کو انھوں نے ترجمۂ قرآن کا پہلا دور قرار دیا ہے۔

فاضل مصنف کے مطابق انیسویں صدی عیسوی سے تراجم کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اس صدی میں انھوں نے پچھتّر(75) مکمل اور اکتیس (31) جزوی تراجم کا مختصر تذکرہ کیا ہے ۔ اس کے بعد ان میں سے دس (10) تراجم کا مفصّل تعارف کرایاہے ۔ وہ یہ ہیں :

(1) ترجمۂ قرآن: فورٹ ولیم کالج

(2) ترجمہ و تفسیر: سید قادری بابا

(3) تفسیر مجدّدی :رؤف احمد مجدّدی

(4) تفسیر القرآن : سر سید احمد خاں

(5) ترجمان القرآن بلطائف البیان: نواب صدیق حسن خاں

(6) تفسیر فتح المنّان المعروف بہ تفسیر حقانی:مولاناابو محمد عبد الحق حقانی

(7) تفسیر ثنائی: مولانا ثناء اللہ امرتسری

(8) غرائب القرآن: ڈپٹی نذیر احمد

(9) ترجمہ و تفسیر نورِ ہدایت المعروف بہ فتح الحمید:مولانافتح محمد جالندھری

(10) ترجمۂ قرآن پاک :مولانا عاشق الٰہی

بیسویں صدی عیسوی میں اردو زبان میں قرآن مجید کے سب سے زیادہ ترجمے ہوئے ۔ مصنف نے اسے تراجم کا سنہری اور انقلابی دور کہا ہے ۔ انھوں نے اس صدی کے ایک سو نو (109) مکمل اور ایک سو چھ (106) جزوی تراجم کا مختصر تعارف کرایا ہے اور ان میں سے دس (10) تراجم کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں ۔ وہ یہ ہیں :

(1) بیان القرآن :مولانا اشرف علی تھانوی

(2) کنز الایمان:مولانا احمد رضا خاں

(3) ترجمان القرآن: مولانا ابو الکلام آزاد

(4) تفسیر ماجدی:مولانا عبد الماجد دریابادی

(5) ضیاء القرآن: پیر کرم شاہ ازہری

(6) تفہیم القرآن:مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

(7) تشریح القرآن:مولانا عبد الکریم پاریکھ

(8) تذکیر القرآن:مولانا وحید الدین خاں

(9) تدبر قرآن :مولانا امین احسن اصلاحی

(10) دعوۃ القرآن: مولانا شمس پیر زادہ

اکیسویں صدی کی ابھی صرف دو دہائیاں گزری ہیں ، لیکن اس عرصے میں خاصے تراجم ہوچکے ہیں _ مصنف نے اڑتالیس (48) مکمل اور بائیس (22) جزوی تراجم کا تعارف کرایا ہے ۔ ان میں سے سات (7) تراجم کا انھوں نے مفصّل تعارف کرایا ہے ۔ وہ یہ ہیں : (1) بیان القرآن _ ڈاکٹر اسرار احمد (2) آسان ترجمۂ قرآن _ مفتی محمد تقی عثمانی (3) غیر منقوط ترجمہ _ پروفیسر محمد طاہر مصطفیٰ (4) آخری وحی _ مولانا سلمان حسینی ندوی (5) عرفان القرآن _ ڈاکٹر محمد طاہر القادری (6) مصباح القرآن _ پروفیسر عبد الرحمٰن طاہر (7) آسان ترجمۂ قرآن _ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

باب پنجم میں خواتین کے ذریعے ہونے والے 16 تراجم کا مختصر تعارف اور ان میں سے 6 کا کسی قدر تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے _ باب ششم قرآن کے منظوم تراجم پر ہے _ اس میں 24 مکمل تراجم مطبوعہ اور 5 مکمل تراجم غیر مطبوعہ اور 32 جزوی تراجم کا تعارف کرایا گیا ہے _ باب ہفتم اگرچہ مختصر(16 صفحات) ، لیکن اہم ہے ۔

اس میں فاضل مصنف نے تراجمِ قرآن میں لسانی ارتقا کا جائزہ لیا ہے ۔ انھوں نے منتخب تراجم کی روشنی میں لسانی ارتقا کے مختلف پہلوؤں ، مثلاً محاورات کا استعمال ، ادبی چاشنی ، الفاظ کی معنویت ، ترجمانی ، فنّی تدوین ، قوسین کا استعمال ، نکتہ سنجی وغیرہ سے بحث کی ہے اور تراجم کے نمونے بھی پیش کیے ہیں ۔

اردو زبان میں ترجمۂ قرآن کی تاریخ پر متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں ، لیکن ان میں عموماً نصف صدی سے قبل کے تراجم کا تذکرہ ہے ۔ اس عرصے میں ترجمۂ قرآن کے کام میں کافی تیزی آئی ہے اور متعدد پہلوؤں سے معیاری ، قیمتی اور عمدہ ترجمے منظر عام پر آئے ہیں ۔ زیر نظر کتاب میں ان سب کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور خاص طور پر لسانی اعتبار سے ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر سید وہّاج الدین ہاشمی اس تحقیق پر قابلِ مبارک باد ہیں ۔ امید ہے ، ان کی یہ کتاب قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور اس موضوع پر آئندہ کام کرنے والے اس سے رہ نمائی حاصل کریں گے ۔