اسلام نے شروع کیا تھا لنگر کا نظام، مسلمانوں کے نام علما اور دانشوران پیغام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 28-08-2024
اسلام نے شروع کیا تھا لنگر کا نظام، مسلمانوں کے نام  علما اور دانشوران پیغام
اسلام نے شروع کیا تھا لنگر کا نظام، مسلمانوں کے نام علما اور دانشوران پیغام

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

اسلام انسانی دوستی کا پیغام دیتا ہے، وہ بلا تفریق مذہب ہر شخص کی مدد کرنے کی بات کرتا ہے لیکن موجودہ وقت میں اسلام کی وہ بہترین روایات کہیں پیچھے چھوٹتی جا رہی ہے اور مسلمان کسی اور رخ میں قدم بڑھا رہے ہیں۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے عالم دین اور دانشوروں نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

ان کے مطابق اسلام نے انسانیت کی خدمت اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھوکوں کو کھانا فراہم کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ نبی کریم صلی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص کسی بھوکے کو کھانا کھلائے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ماضی میں اسلام کے ماننے والوں کا طریقہ تھا کہ وہ ضرورت مند اور بھوکوں کو تلاش کر کے کھانا کھلایا کرتے تھے اور ان کی مدد کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے اور بڑی نیکی تصور کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کو اللہ نے درد دل کے واسطے پیدا کیا ہے اگر استطاعت رکھنے کے باوجود کوئی شخص کسی کی مدد نہیں کرتا ہے تو وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ علماء دین کا کہنا ہے کہ سماج کے مثبت فکر و عمل کے لیے لوگوں کو اجتماعی کوشش کرتے رہنا چاہئے اس میں ایک خاص کام بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔

اسلام نے شروع کیا تھا لنگر سسٹم

دانشوروں کا کہنا ہے کہ اسلام نے لنگر سسٹم رائج کیا تھا لیکن بعد میں اس نظام کو دوسرے لوگوں نے تو اپنا لیا لیکن مسلمانوں نے چھوڑ دیا۔ معروف ماہر تعلیم اور کائنات فاؤنڈیشن کے سکریٹری شکیل احمد کاکوی کا کہنا ہے کہ لنگر کا نظام ایک ایسا نظام تھا جہاں بلا تفریق لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا اور یہ کام اسلام کے نظریہ کے مطابق سب سے اہم ہے جس پر جنت کی بصارت دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں ایک بار پھر سے لنگر سسٹم قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ لنگر بلا تفریق مذہب و ملت بھوک مٹانے کا ایک اجتماعی عمل ہے اور اسلامی روایات میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ لنگر کے نظام سے جہاں ضرورت مندوں کو کھانا مل جاتا ہے وہیں اس سے معاشرتی ہم آہنگی اور انسانی بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لنگر کا مقصد محض کھانا فراہم کرنا نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنا اور انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔

لنگر کے لیے اس طریقہ پر کیا جائے عمل

شکیل احمد کاکوی کے مطابق موجودہ وقت میں لنگر کے نظام کو قائم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ اول تو اپنے علاقے کے لوگوں کے درمیان بیداری پیدا کی جائے کہ لنگر کے ذریعہ جہاں ہم بھوک مٹا سکتے ہیں وہیں انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں۔ علاقے کے معزز افراد اور کمیونٹی لیڈرز کے ساتھ مشاورت کریں اور ایک منصوبہ تیار کریں کہ اس نظام کو کس طرح سے زمین پر اتارا جائے۔ اس کے علاوہ مشترکہ فنڈ جمع کیا جائے جس میں لوگ اپنی استطاعت کے مطابق عطیات دیں اور اس فنڈ سے کھانے کی خریداری اور دیگر ضروریات پوری کی جائے۔ لنگر کے لیے ایک ایسی جگہ منتخب کریں جہاں پہنچنا آسان ہو۔ کھانے کی تیاری کے بعد اس کی تقسیم کے لیے ایک منظم نظام بنائیں تاکہ ہر ضرورت مند کو یکساں طور پر کھانا مل سکے۔ لنگر میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو شامل کیا جائے تاکہ بھائی چارہ اور ہم آہنگی کا پیغام عام ہو سکے۔ شکیل احمد کاکوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک اسلامی طریقہ ہے اور ہم اس عمل کے ذریعہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لنگر ہم آہنگی بڑھانے کا بڑا ذریعہ

معروف عالم دین مولانا عالم قاسمی کا کہنا ہے کہ لنگر کا نظام تو ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعہ معاشرہ میں آپ مدد بھی کرتے ہیں اور اس طریقہ سے انسانی دوستی بھی عام ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے یہ کام رک گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی اس عظیم روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے پاس پیسہ کی کمی نہیں ہے لیکن وہ محنت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ جب دل کرتا ہے تو مدد کے نام پر فوڈ پیکٹ دے دیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ میں نے سماج کی مدد کر دی۔ انہوں نے کہا کہ کھانا کھلانا، کپڑا دینا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ایک ایسا کام ہے جس کو کرنے کی مذہب اسلام نے صرف حکم ہی نہیں دیا بلکہ اس کام کو کرنے والوں کی ستائش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لنگر کے نظام کو پھر سے شروع کیا جانا چاہئے۔ مولانا عالم قاسمی کے مطابق ابھی وقف کا معاملہ سرخیوں میں ہے۔ لوگوں نے اپنی جائداد کو وقف تو اس لیے ہی کرتے تھے کہ اس کی آمدنی سے ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔ اس لیے پہلے یہ دیکھا گیا ہے کہ خاص طور سے خانقاہوں کے اندر لنگر کھانے کا ایک ضروری حصہ ہوا کرتا تھا اور لنگر ہر وقت چلتا تھا اور بلا تفریق وہاں کھانا کھلانے کا نظم تھا۔ حضرت نظام الدین اولیا کے درگاہ میں کئی سو لوگ کھانا کھاتے تھے۔ پہلے خانقاہوں کے اندر یہ ایک عام نظام تھا۔ آہستہ آہستہ خانقاہوں نے اس کام کو چھوڑ دیا اور لنگر کھانا وہاں سے ختم ہو گیا۔ وقف ایک عوامی چیز ہوتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد لوگوں کی مدد کرنا اور غریبوں کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ اب یہ چیزیں چند لوگوں کے قبضہ میں ہے اس لیے اس کی افادیت ختم ہو گئی ہے اور عام لوگوں کو اس کا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خانقاہ ہندو مسلم سب کے لیے ہے، انسانی دوستی خانقاہوں کا سب سے بڑا مشن تھا۔ مولانا عالم قاسمی کا کہنا ہے کہ اب انسانی دوستی کا سب سے بڑا حصہ لنگر کھانے کو بند کر کے سجادہ نشین پر منحصر کر دیا گیا ہے۔ اس لیے ماضی کی روایت خانقاہوں میں برائے نام ہے۔ انہوں نے کہا کی جو تنظیمیں ابھی مختلف کاموں میں لگی ہیں ان کو چاہئے اس نظام کو پھر سے شروع کرنے کی کوشش کی جائے، یہ تو سب سے بڑی نیکی ہے غریبوں کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا، بے سہاروں کی مدد کرنا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بنیادی کام ہے لیکن لوگوں نے اس کام کو چھوڑ دیا ہے اور اگر کرتے بھی ہیں تو صرف زکوۃ کی رقم کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ اس تعلق سے کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ہر علاقے میں اس کا انتظام کیا جائے۔ جو غریب، یتیم اور بے سہارا لوگ ہیں ان کی کم سے کم بنیادی ضرورت تو پوری ہو جائے۔ ان کے مطابق مختلف علاقے میں مدارس، مساجد، دینی تنظیمیں یا جو سوسائٹی کے لیے مثبت فکر کرنے والے لوگ ہیں وہ اس چیز کا انتظام کریں۔

مولانا عالم قاسمی کا کہنا ہے کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا مزاج بھی بدل گیا ہے۔ اب لوگ فوڈ پیکٹ تقسیم کر رہے ہیں یا سامان دے دیتے ہیں وہ بھی کسی خاص موقع پر۔ اگر اس کام کو کیا جائے اور بیٹھ کر ایک ساتھ کھانے کا نظم ہو تو اس سے انسانی دوستی مضبوط ہوگی اور آپسی محبت میں اضافہ ہوگا لیکن لوگ ایسا نہیں کر رہے ہیں اس لیے دن بہ دن مختلف مذاہب کے لوگ اور یہاں تک کے عام لوگوں کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہے۔ میرا کہنا ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ کی کمی نہیں ہے، وہ محنت نہیں کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح سے ایک بڑی نیکی اور آپسی ہم آہنگی کا ماحول بنانے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ لوگ آج بھی زکوۃ و صدقات دیتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر کھانا کھلانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لنگر سسٹم قائم ہو اور بلا تفریق کھانے کا نظم کیا جائے تو بھائی چارہ بڑھے گا اور اس کام میں لگے لوگوں کو روحانی سکون حاصل ہوگا۔ اسلام کا بنیادی طریقہ تو یہی ہے کہ بلا تفریق لوگوں کی مدد کی جائے اور سوسائٹی کو مضبوط بنانا اور ایک دوسرے کے کام آنا اپنی ذمہ داری سمجھا جائے۔

اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے

کل ہند آئمہ مساجد کے صدر مولانا ڈاکٹر سجاد احمد ندوی کا کہنا ہے کہ دراصل کھانا کھلانا ہر مذہب میں ایک بڑی نیکی کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو بھوکوں کو کھانا کھلائے اور اس کا انتظام کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ لنگر کا انتظام اسلامی نظریہ ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اس کام کو پروفیشن طریقہ سے نہیں بلکہ نیکی کے مقصد سے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے یہ کام جماعت کے شکل میں ہونا چاہئے۔ بڑے بڑے مساجد ہیں، مدارس اور خانقاہ موجود ہے وہ یہ کام کریں جہاں ہر انسان آکر بلا تفریق کھانا کھا سکے۔ مسافر اور راہ گیروں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ لنگر قائم کرنا شروع دن سے اسلام میں ہے۔ اس کام کو دوسرے لوگوں نے اپنا لیا ہے لیکن مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ اب ملاقاتوں میں بھی فائدہ اور مفاد دیکھا جا رہا ہے، بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہو رہی ہے جو مفاد پرست ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتا ہے کہ اس کام کو کرنے سے اللہ کے یہاں اس کا اجر ملے گا۔ یہ کام بلا تفریق ہونا چاہئے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے چاہے اس کا مذہب کچھ بھی ہو۔ لنگر کا سسٹم مسجد میں، مدرسہ میں یا اس کے لیے باقاعدہ کوئی خاص جگہ متعین کر کے شروع کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کی میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو لنگر کھولنے کی توفیق دے۔ یہ کام اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہئے۔ اللہ فرماتے ہیں جو کوئی ہمارے بندوں کو کھانا کھلاتا ہے وہاں ہم موجود ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اسلام کی بنیادی کاموں سے اپنے آپ کو جوڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام کا یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس سے معاشرہ میں نہ صرف لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے بلکہ اللہ کے محبوب بندہ میں اپنی جگہ بنائی جا سکتی ہے۔