آواز دی وائس : سری نگر
کشمیر میں جب برف کی سفید چادر پڑ جاتی ہے اور سردی اپنا شباب دکھاتی ہے تو ہر گھر میں اس سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جس ہتھیار کا استعمال کیا جاتا تھا اسے 'کانگڑی' کہتے ہیں۔ بلاشبہ دنیا اگرچہ اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی ہے، تاب سردی کے ایام میں گرمی حاصل کرنے کے لیے مختلف الیکٹرانک آلات موجود ہیں،اس کے باوجود کانگڑی کو کوئی بھولا نہیں ہے البتہ اس کا استعمال ضرور کم ہوگیا ہے۔ یہ ایک صنعت ہے جس نے اب کانگڑی کے استعمال میں کمی آنے کے بعد اس کو شو پیس کے طور پر بھی بازار میں متعارف کرایا ہے
دراصل اس حکمت کے سبب اب کانگڑیوں کا مسکن صرف وادی کشمیر نہیں ہے بلکہ یہ یورپ کے مختلف ملکوں میں پہنچ گئی ہیں جنہیں سیاح اپنے عزیزوں کو تحفہ دینے کے لئے یہاں سے خصوصی طور پر لے جاتے ہیں۔ وادی میں بنائی جانے والی کانگڑیاں ملک کی مختلف ریاستوں میں لوگوں کے گھروں میں اسباب زینت و زیبائش کا بھی ایک اہم حصہ بن گئی ہیں۔ وادی کشمیر کے کاریگروں نے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ کانگڑیاں بنانے کے اپنے فن کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں اب کانگڑیوں کو گرمی کے لئے استعمال کئے جانے والے آلات تک محدود رکھنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اب وہ مختلف ڈیزائنوں کی کانگڑیاں بنا رہے ہیں جنہیں لوگ شوق سے خرید کر اپنے گھروں کی زینت بڑھا رہے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں گرمی کے لئے مختلف قسموں کے الیکٹرانک یا گیس پر چلنے والے آلات کی دستابی کے باجود کانگڑی کا استعمال ہر گھر میں کیا جاتا ہے اور سردیاں شروع ہوتے ہی یہ اطراف و اکناف کے بازاروں میں نمودار ہوجاتی ہیں۔ بہرحال کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ چرار شریف کی کانگڑی کی مانگ میں موجودہ دور کی چکا چوند ترقی کے باوجود بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔لیکن مسائل بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے اب اس پیشے سے جڑے لوگ کسب معاش کے لئے دوسرے وسائل تلاش کرنے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔کیونکہ خام مال مہنگا ہو رہا ہے
کانگڑی کی تیاری کا منظر
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے چرارشریف میں جہاں علمدار کشمیر حضرت شیخ نور الدین نورانی (رح) کی زیارت گاہ کا مسکن ہونے کے باعث ایک روحانی مرکز ہونے کی حیثیت سے شہرت کا حامل ہے وہیں اس علاقے کی کانگڑی اپنی منفرد ساخت کے سبب وادی کے قرب و جوار میں مشہور ہے۔مقامی کاریگرعلی محمد ڈار نے چار ایسی کانگڑیاں تیار کی ہیں جو نہ صرف انتہائی دلکش ہیں بلکہ اپنی نوعیت کی پہلی تخلیقات ہیں-ان کانگڑیوں کو دیکھ کر جہاں کاریگر کے اس فن سے دلچسپی کا اندازہ لگایاجاتا ہے وہیں روز گار کے لئے اس صنعت کی وسعت بھی سامنے آجاتی ہے۔ انہوں نے اس سال چار مختلف کانگڑیاں تیار کی ہیں جو اپنی نوعیت کی پہلی کانگڑیاں ہیں اس سائز اور اس ڈیزائن کی کانگڑیاں وادی میں پہلی بار بنائی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کو میں نے سردی سے بچنے کے لئے استعمال کرنے کے لئے نہیں بنایا ہے بلکہ یہ گھروں میں آرائش و زیبائش کے لئے رکھی جا سکتی ہیں۔ان سے جو سب سے بڑی کانگڑی ہے اس کو تیار کرنے میں مجھے 20 دن لگ گئے، اس سے جو چھوٹی ہے اس کو 10 دنوں میں تیار کیا اور جو اس سے دو چھوٹی کانگڑیاں ہیں ان کو بنانے میں 8 اور 2 دن لگ گئے۔ان کانگڑیوں کی ریٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر علی محمد نےکہاکہ یہ کانگڑیاں اس فن سے وابستہ میرے شوق کا نتیجہ ہے ان کو تیار کرنے کے لئے میں نے اپنے تمام تر صلاحیتوں اور تجربے کو بروئے کار لایا ہے۔انہوں نے کہا: 'میں نے ان کانگڑیوں کی کوئی مخصوص قیمت نہیں رکھی ہے خریدار ان کو دیکھ کر خود جو چاہئے مجھے دے گا۔ان کا کہنا تھا: 'نئے نئے ڈیزائن کی کانگڑیاں تیار کرنا میرا ایسا ہی شوق ہے جیسا ایک طالب علم کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے جس طرح ایک مصور بہتر سے بہتر تصویر بنانے پر محنت کرتا ہے اسی طرح میں بھی بہتر سے بہتر ڈیزائن کی کانگڑیاں بنانے پر بھر پور محنت کرتا ہوں۔
سردی سے مقابلہ کانگڑی کے ساتھ