محمد رفیع: مجھ کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 01-08-2024
محمد رفیع:   مجھ کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا
محمد رفیع: مجھ کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا

 

کمال شیخ 

  موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی ایک ایسا ہنر لے کر پیدا ہوئے تھے جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سروں کے اس بادشاہ کو اپنے پرستاروں سے جدا ہوئے 4 دہائیاں گزر چکی ہیں مگر وہ اپنی آواز کے ذریعے آج بھی لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

 آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع امرتسر کے ایک گاؤں کوٹلہ سنگھ سلطان میں 24 دسمبر 1924 کو پیدا ہوئے تھے اور 43 سال قبل آج ہی کے دن یعنی 31 جولائی کو وہ دار فانی سے کوچ کرگئے لیکن ان کے گائے ہوئے نغمے اب بھی امر اور دنیا بھر میں گونجتے سنائی دیتے ہیں۔

محمد رفیع نے اپنے طویل کریئر میں تقریباً 700 فلموں کے لیے 26 ہزارسے زائد گانے گائے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان کی توجہ گلوگاری کی طرف کیسے مبذول ہوئی اور وہ کیا بات تھی جس نے اس در نایاب کو دنیائے موسیقی کی آنکھوں کے آگے لاکھڑا کیا۔
انہیں گلوکاری کی تحریک درحقیقت ایک فقیر سے ملی تھی جس کے نغمے وہ بڑی دلچسپی سے سنا کرتے تھے۔ اس فقیر کی آواز و انداز گائیکی میں کچھ ایسا جادو تھا کہ جس سے محمد رفیع کے دل میں موسیقی کے لیے ایک لگاؤ پیدا ہوگیا۔
  وہ  فقیر ان کی گلی میں آتا، رفیع اس کے ساتھ وہ دور تک نکل جاتے تاکہ زیادہ دیر تک اس کی سریلی آواز سے محظوظ ہوسکیں۔ جس گیت نے سب سے زیادہ ان کے دل کو چُھوا اس کے بول تھے ’کھیڈن دے دن چار۔
 وہ 1941 میں سترہ برس کی عمر میں لاہور سے ممبئی آگیے تھے- ممبئی کی فلم انڈسٹری کے لیے محمد رفیع کی آواز کسی نعمت سے کم نہ تھی، وقت کے نامور موسیقاروں نے ان کی آواز کو قدرت کا انمول عطیہ جان کر اپنی لازوال دھنوں میں ڈھالا۔
فلم ’انمول گھڑی‘ کے گانے سے کریئر کا آغاز کرنے والے رفیع نے ساری زندگی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، یکے بعد دیگر کئی خوبصورت گیت رفیع کی پہچان بنے اور کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔
پچاس کی دہائی میں چاہے اداکار بھارت بھوشن ہوں، گرو دت ہوں یا دلیپ کمار، اسی طرح ساٹھ کی دہائی میں دھرمیندر ہوں، شمی کپور ہوں یا دیو آنند، یا پھر ستر کی دہائی میں جتیندر ہوں، رشی کپور ہوں یا امیتابھ بچن ان سب ہی کو محمد رفیع نے اپنی آواز دی
 مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ محمد رفیع کا ایک گانا ایسا ہے جس کو گانے کے دوران ان کے حلق سے خون بہنے لگا تھا۔یہ فلم 'بیجو باورا' کا گانا 'او دنیا کے رکھوالے' تھا جسے شکیل بدایونی نے تحریر جبکہ موسیقار نوشاد علی نے کمپوز کیا۔اسے راگ درباری میں گایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے محمد رفیع نے 15 دن تک ریاض کیا۔کہا جاتا ہے کہ نوشاد نے گانے کے آخری سروں کے لیے محمد رفیع پر بہت زیادہ زور دیا جو بہت اونچے سر تھے جس کے نتیجے میں ان کی ووکل کورڈ (حلق کی جھلیوں) سے جریان خون شروع ہوگیا اور انہوں نے خون تھوکا۔اس گانے کے نتیجے میں گلوکار کا گلا اتنا متاثر ہوا کہ وہ دس روز تک گا نہیں سکے۔
 تین  دہائیوں تک  فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے محمد رفیع نے دلیپ کمار، دھرمیندر، دیوآنند، رشی کپور، شمی کپور، جتیندر اور امیتابھ بچن جیسے بڑے اداکاروں کیلئے پسِ پردہ گائیکی کی۔محمد رفیع نے اپنے36 سالہ طویل کیرئیر کے دوران 100 سے زیادہ موسیقاروں کی دھنیں، 22 سے زیادہ زبانوں میں36 ہزار گیت گائے۔لیجنڈری گلوکار کو حکومت ہند کی طرف سے پدم شری، پانچ مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سمیت متعدد عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
رفیع کے  ان چھ گانوں پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ ملا:
 چودھویں کا چاند ہو، یا آفتاب ہو
تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے، چشم بددور
چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے
بہاروں پھول برساﺅ 
دل کے جھروکے میں
کیا ہوا تیراوعدہ
ان کے سوا بھی بہت سے گانے لوگوں کی یادوں میں محفوظ ہوئے جیسے فلم ’نیل کمل‘ کا یہ گانا:
 بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
یا پھر نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں
فلم ’دلاری‘ کا یہ گانا بھی بہت ہٹ ہوا: سہانی رات ڈھل چکی ، نہ جانے تم کب آﺅ گے
رفیع نے اپنے عہد کے تمام بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ بڑے بڑے فلم سٹاروں پران کے گانے پکچرائز ہوئے۔ انڈین فلم انڈسٹری میں پلے بیک سنگر کے طور پر انھیں جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
دنیائے موسیقی کایہ روشن ستارہ 31 جولائی1980 کوصرف 56 برس کی عمر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا