ہندوستان میں محرم :ہندو اورعزاداری

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 30-07-2023
 ہندوستان میں محرم :ہندو اورعزاداری
ہندوستان میں محرم :ہندو اورعزاداری

 

عامر حسینی 

درِ حسین پرملتے ہیں ہرخیال کے لوگ

یہ اتحاد کا مرکز ہے _ آدمی کے لیے

ہندوستان کے تمام مذاہب میں حضرت امام حسین ؓسے عقیدت و محبت کی تاریخی روایات موجود ہیں۔واقعہ کربلا کے عظیم المیہ نے حق پسند انسانی معاشرے اورانسانی تہذیب کو ہر دور میں متاثرکیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستانی معاشرہ میں شہید انسانیت حضرت امام حسین  کی یاد نہ صرف مسلم معاشرہ کی تہذیبی وتاریخی روایت رہی ہے بلکہ غیرمسلم معاشرہ میں بھی انسانیت کے ا س عظیم رہنما کی یاد بڑی عقیدت واحترام کے ساتھ عصرحاضرمیں بھی زندہ ہے۔مشترکہ تہذیب کے گہوارہ ہندوستان میں ہندوئوں کی حضرت امام حسین ؓ سے غیر معمولی عقیدت کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔

ہندوستانی تہذیب جس نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے واقعہ کربلا کے عظیم المیہ سے متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکی ہندوستان میں عزاداری ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے، جس کی تہذیبی روایت نہ صرف مسلمانوں میں قائم ہے بلکہ ہندوحضرات بھی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ ہندوستان کے سابق راجواڑوں میں بھی ہندوحضرات کے یہاں امام حسینؓ سے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان،گوالیار”مدھیہ پردیش” قابل ذکرہیں۔

جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی کو امام حسین علیہ السلام سے غیرمعمولی عقیدت تھی۔ پروفیسررفیعہ شبنم نے اپنی کتابہندوستان میں شیعت اور عزاداری’’ میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ ’’وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص و عقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔

منشی جوالہ پرشاد اختر لکھتے ہیں کہ ’’صوبہ اودھ میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالار اور علمبردار حضرت عباس کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرا مغلیہ فوج کے ایک راجپوت سردار دھرم سنگھ کے سر ہے’’۔

لکھنؤ کا مشہور روضہ کاظمین ایک ایسے ہی ہندو عقیدت مند جگن ناتھ اگروال نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھا لال کا عزاخانہ آج بھی لکھنؤ کے ٹھاکر گنج محلہ میں واقع ہے

عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نہیں کھایا جاتا ہے۔ سری نگر کے امام باڑے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا ہے۔ ایک حسینی برہمن اسے سو سال قبل کابل کے امام باڑے سے لایا تھا۔

راجستھان کی بعض ہندو ذات کے لوگ کربلا کی جنگ کا منظرنانہ پیش کرتے ہیں اور ان کی عورتیں اپنے گاوں کے باہر ایک جلوس کی شکل میں روتی ہوئی نکلتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنی مقامی زبان میں یزیدی ظلم پر اسے کوستی ہیں اور اپنے رنج و غم کا اظہار اپنے بینوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ راجستھان میں ہندو?ں کی عزاداری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراجے جو ہندو سوراج کے لقب سے جانے جاتے تھے شب عاشور برہنہ سر و پا نکلتے تھے اور تعزیہ پر نقدی چڑھایا کرتے تھے

پریم چند کا مشہور ڈرامہ ’’کربلا’’ حق و باطل سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح اردو ادب میں ایسے ہندو شاعروں کی تعداد کچھ کم نہیں جنہوں نے اپنی معرکتہ الآرا منظوم تخلیقات میں معرکہ کربلا میں انسانیت کے اعلیٰ کرداروں کی خوشہ چینی کی ہے

ایسے قابل ذکرشعرا بیجاپور کے رامارام، مکھی داس، منشی چھنو لال دلگیر، راجہ بلوان سنگھ، لالہ رام پرشادبشر، دیا کشن ریحان، راجہ الفت رائے،کنور دھنپت رائے، کھنولال زار، دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، یوگیندرپال صابرجوش ملیشانی، منشی گوپی ناتھ امن، چکبست، باوا کرشن مغموم، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کرشن بہاری، ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ، ماتھرلکھنوی، مہیندرسنگھ اشک، بانگیش تیواری، گلزار دہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کا کلام امام حسین سے ان کی غیرمعمولی عقیدتوں کا مظہر ہے۔

گر سب سے خوبصورت روائت حسینی براہمنوں کی ہے جو پنجاب کے موہیالوں میں سے تھے۔ راہب دت سے اپنا تعلق بتانے والے ان براہمنوں کے چند ایک گھرانے ملتان میں بھی ملتے تھے۔ مذہب سے بے نیاز، اس مکتبہء فکر کے لوگ حضرت حسین سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔

کہی سنی کے مطابق پراکرتوں میں مرثیہ گوئی کے اولین شاعر بھی یہی حسینی برہمن تھے اور پہلے پہلے جنگ نامے بھی انہوں نے ہی لکھے۔ ملتانی مرثئے انیس اور دبیر کی طرح مشہور تو نہیں مگر فصاحت میں اپنا مقام رکھتے ہیں

پاکستان کی ایک خاتون صحافی نوشین نقوی لکھتی ہیں کہ  ۔۔۔۔

ہندوستان کے تمام مذاہب میں حضرت امام حسین ؓسے عقیدت و محبت کی تاریخی روایات موجود ہیں۔واقعہ کربلا کے عظیم المیہ نے حق پسند انسانی معاشرے اورانسانی تہذیب کو ہر دور میں متاثرکیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستانی معاشرہ میں شہید انسانیت حضرت امام حسین کی یاد نہ صرف مسلم معاشرہ کی تہذیبی وتاریخی روایت رہی ہے بلکہ غیرمسلم معاشرہ میں بھی انسانیت کے ا س عظیم رہنما کی یاد بڑی عقیدت واحترام کے ساتھ عصرحاضرمیں بھی زندہ ہے۔

جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی کو حضرت امام حسینؓ ؓسے غیرمعمولی عقیدت تھی۔ پروفیسررفیعہ شبنم نے اپنی کتاب”ہندوستان میں عزاداری” میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ ”وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص وعقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب تک جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقد کی جاتی ہے جہاں پہلے ا س بہادر رانی کا قلعہ تھاجس نے حضرت امام حسین ؓ سے حق پرڈٹے رہنے کاسبق حاصل کیا تھا”۔منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ”انوارسادات”میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”صوبہ اودھ میںحضرت امام حسین ؓ کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباسؓ کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھ کے سرہے

۔سردار دھرم سنگھ کا تعلق سکھ مذہب سے تھا اور وہ سختی سے بابا گورونانک کی تعلیمات پر عمل کرتے تھے،انہوں نے کئی بار حضرت امام حسین ؓ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بابا گورونانک کا اپنے مرید کے ساتھ ہونے ولا مکالمہ دہرایا جس میں بابا گورو نانک نے مرید سے کہا کہ حضرت امام حسین ؓ کا غم منایا کرو،جب مرید نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو بابا گورونانک نے کہاکہ حسینؓ مسلمانوں کے ہی نہیں ضمیر والوں کے گرو ہیں،اس لئے ان کا غم منانا ہر انسان پر لازم ہے۔ اودھ سلطنت میں لکھنئوکی عزاداری کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ محرم کی مجلسوں اورجلوسوں میں ہندوئوں کی شرکت وعقیدت ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ ہے جس نے قومی یکجہتی اورہندومسلم اتحاد کوفروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

مسزمیرحسن علی نے لکھنئو کی عزاداری کے سلسلہ میں اہل ہنود کی حضرت امام حسین ؓ سے غیرمعمولی عقیدت واحترام کا ذکراپنی ایک تحریرمیں اس طرح کیا ہے:”ہندوئوں کو بھی تعزیہ سے عقیدت عام ہے۔ وہ لوگ تعزیہ کودیکھ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔ امام بارگاہوںمیں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے”۔ لکھنئوکا مشہور روضہ ”کاظمین” ایک ہندوعقیدت مند جگن ناتھ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔راجہ بلاس رائے اور راجہ ٹکیل رائے نے بھی عزاخانے تعمیرکرائے اوران میں علم اورتعزیے رکھے۔ گوالیارکے ہندومہاراجائوں کی حضرت امام حسین ؓ سے عقیدت بھی قابلِ ذکر ہے جوہرسال ایام عزا کا اہتمام بڑی شان وشوکت سے کرتے تھے۔عشرہ محرم کی مجالس ریاست بھرمیں منعقد کی جاتی تھیں

مہاراجہ خود محرم کے جلوسوں میں حصہ لیتے تھے اورمجالس عزا کا اہتمام کرتے تھے اورعقیدت مندوں میں تبرک ونذرانہ تقسیم کرتے تھے۔حسینی برہمنوں میںدت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوعقیدت مندوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے ۔حسینی برہمنوں کا تعلق ان کے بزرگ راہب سے ہے جس نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کوقربان کردیا تھا۔راہب کوسلطان کاخطاب بخشاگیا تھا اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یاحسینی پنڈت بھی کہاجاتا ہے وہ امام حسین ؓکے تقدس واحترام کے بڑے قائل ہیں۔عصرحاضرکے نامورصحافی جمناداس اختر نے ہندوئوں کی عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھاہے۔”میراتعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اورہمیں حسینی برہمن کہاجاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔کم ازکم میرے خاندان میں اس دن کھانا نہیں کھایاجاتا ہے۔ سری نگرکے امام باڑے میں حضرت امام حسینؓ کا موئے مبارک موجود ہے جوکابل سے لایاگیا ہے۔ ایک حسینی برہمن اسے سوسال قبل کابل کے امام باڑے سے لایا تھا”۔

سانحۂ کربلا اور ہندوستان

علی عابدی لکھتے ہیں کہ 

شاید ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایوان صدارت او رپارلیمنٹ کے پاس راج پتھ سے چہلم اور تعزیہ کا جلوس گزرسکتا ہے ایسی اجازت وطن عزیز میں کسی اور مذہبی جلو س کو حاصل نہیں ۔ فخر کی بات یہ ہے کہ یہ جلوس1947میں بھی نہیں رکا ۔ ہندوستان کی تہذیب میں غیروں کا درد بانٹنے کا جیسا دستور ہے ایسا دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں جو قربانی امام حسین نے چودہ سوسال پہلے کربلا میں پیش کی اس کی یاد جتنی ہندوستان میں منائی جاتی ہے کہیں اور نہیں منائی جاتی۔ گوالیار ،اندور، دھول پور ، وارانسی ، بھرت پور ،بڑودہ کے علاوہ اتر سے دکھن اور پورب سے پچھم تک ہر جگہ کے بے شمار لوگ دس محرم کو امام حسین کی شہادت کا غم مناتے نظر آتے ہیں ۔یہ غم پورے ہندوستان میں بڑی عقیدت او ربہت احترام سے منایا جاتاہے۔ یہاں کے باشندے کسی نہ کسی صورت میں اس قربانی کو یاد کرتے ہیں۔ اور اس یاد کوبڑی اہمیت دیتے ہیں۔مشہور زمانہ فلمی اداکار ،ہر دل عزیز سماجی خدمت گار اور مقبول سیاسی رہنما آنجہانی سنیل دت اپنے آپ کو حسینی برہمن کہتے تھے۔ رسول ﷺکے چھوٹے نواسے امام حسین تاریخ انسانیت میں پہلا اور شاید آخری بچہ ہے جس کی پیدائش پر خاندان رویا۔ رسول خود روئے جب جبرئیل امین نے امام حسین کی ولادت پر مبارک باد کے ساتھ یہ بتا یا کہ ا س بچہ کو کربلا کے میدان میں تین دن کا بھوکا پیاسا اپنے 71ساتھیوں کے ساتھ شہید کیا جائے گا اور اس کے کنبے کی عورتیں اور بچے قید کر کے دربدر پھرائے جائیں گے۔ جیسا کے عرض کیا گیا سنیل دت اپنے آپ کو حسینی برہمن کہتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بزرگوں کی اولاد نہیں تھی ۔ رسول ﷺکے معجزوں کو سن کر وہ ان کے پا س پہنچے تو امام حسین کھیل رہے تھے۔

رسولﷺنے ان سے کہا کہ تم ان کےلئے دعا کرو ۔ حسین نے اپنے ننھے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی اور ان کے اولاد ہوئی۔ تب ہی سے لوگ اپنے آپ کو حسینی برہمن کہنے لگے۔ حسینی برہمن دردنا چاریہ کی نسل سے تھے۔ ان میں خودداری ، بہادری، او رہمت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کربلا میں حسین کی شہادت کی خبر سنی تو حسینی برہمن 700عیسوی میں عراق پہنچے اور امام حسین کا بدلہ لے کر واپس آئے۔ یاد رہے کہ کربلا کا واقعہ 680عیسوی میں ہوا تھا ۔ اسلام کا تعلق ہندوستان سے بہت پرانا ہے۔ رسول ﷺکے بڑے نواسے امام حسن کے وقت سے ہی عرب تاجر سمندر کے راستے کیرل کی بندگاہ پر آتے ۔خواجہ معین الدین چشتی جو خواجہ اجمیری کے نام سے مشہور ہیں اجمیر آئے۔ یہ امام حسین کے خاندان سے تھے اور ہندوستان آنے پر مذہبی رواداتی کی علامت کہلائے ۔ آج بھی ان کے مزار پر ہر مذہب کے ماننے والے آتے ہیں۔ ان کے مزار کے صدر دروازے پر فارسی زبان میں لکھے گئے ان چاروں مصرعوں میں امام حسین کی عظمت اور ان کے مقصد کی بلندی بڑے عام فہم لفظوں میں بیان کی گئی ہے