عمیر منظر
پیارے نبی ﷺکی سیرت،شخصیت،پیغام، ان سے انس و محبت اور عقیدت کو اردو شعرا نے جس والہانہ انداز میں پیش کیا ہے،دوسری زبانوں میں اس نوع مثال کم ملے گی۔عقیدت ومحبت کا یہ تعلق اور اس کا اظہار اپنے انداز اور اسلوب کی بھی ایک جہت رکھتا ہے۔نعتیہ شاعری کو محض شعری سرگرمی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ اشعار ان کے دلی جذبات واحساسات کے آئینہ دار ہیں۔ اردو میں نعتیہ کلام کا اس قدر بڑا سرمایہ ہے کہ اسے شمار نہیں کیا جاسکتا۔مضامین و کتابوں کے ساتھ ساتھ مختلف ہیئتوں میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔اب تو باقاعدہ نعت تاریخ اور تنقید کی طرف توجہ دی جارہی ہے اور رسالے بھی نکالے جارہے ہیں جس سے نعتیہ ادب کو مزید فروغ دیا جارہا ہے۔یہ ساری کارگزاری پیارے نبیﷺسے محبت اور عقیدت کا پتہ دیتی ہے۔ان کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نعت گوئی کے مختلف انداز واسلوب کے ساتھ ساتھ نعتیہ شعری مضامین پر بھی غور و فکر کررہے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں وہ کون سے مضامین ہیں جن پر نعت گو زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔اس حوالے سے نعتیہ اشعار کے مختلف مضامین کو مطالعہ کا موضوع بنایاجارہا ہے۔اسی تناطر میں ایک لفظ مدینہ ہے۔نعت گو شعرا کے یہاں یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔اس کے مختلف اور متنوع استعمال نعتوں میں ملتے ہیں اور اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ محض ایک لفظ نہیں بلکہ نبی اکرم ﷺکی سیرت،شخصیت، ان کے پیغام اور ان کی دعوتی سرگرمیوں کا آئینہ دار بن گیا ہے۔یہ شہر شعرا کی عقیدتوں اور محبتوں کا بھی مرکز ہے اور اس حوالے سے کیسے کیسے تجربے شاعروں نے کیے ہیں اس کا مکمل احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔
اردو میں نعت گوئی کی بہت قدیم روایت ہے۔اسے صنف یا موضوع جس سے بھی ہم تعبیر کریں لیکن اس شاعری کا جب بھی مطالعہ کیا جائے گا تو ایک سرشار ایمانی طبیعت کا اندازہوگا۔رسول سے محبت ایمان کا جز ہے۔لیکن محبت کے ساتھ ساتھ ان کی رسالت توثیق بھی پہلے ہی کلمہ سے ہوتی ہے۔یہ محبت اور عقیدت اسی کا بے پایاں اظہار ہے۔
یوں تو شعرانے نعتوں میں ایک طرف جہاں بے پناہ محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے وہیں سیرت کے مختلف واقعات کو بھی نظم کیا ہے اور ان واقعات سے شعری استفادہ بھی کیا ہے۔یہ سچ ہے کہ رسول اکرم ﷺسے عقیدت ومحبت کا جذبہ زیادہ کارفرما رہتا ہے لیکن اس محبت میں نعتیہ مضامین کا تنوع دیکھ کر بے پناہ خوشی ہوتی ہے۔نعتیہ مضامین پر اگر نظر ڈالیں تو اس میں شہر مدینہ کے حوالے سے بے شمار اشعار ملیں گے،جو صرف عقیدت محبت پر مبنی نہیں ہیں بلکہ ان میں غور وفکر اور دعوت وعزیمت کے بھی پہلو ہیں۔چونکہ اسی شہر میں آپﷺ کا روضہ ہے،اس روضے کی جالیوں کے تئیں بھی محبت اور عقیدت کا ایک خوب صورت پہلو ہے۔اور اس حوالے سے جو نعتیہ مضامین شعرا نے نکالے ہیں ان کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔
شہر مدینہ کے تعلق سے جس طرح کے اشعار اردو میں کہے گئے ہیں اس سے کسی دوسرے شہر کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ہندستان کے دوردراز علاقوں میں رہنے والوں کے یہاں مدینہ کے لیے جو تڑپ ملتی ہے،اسے دیکھنے اوروہاں جانے کی جس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے اُس کثرت سے کسی دوسرے شہر سے تعلق کا اظہارکم ہی ملتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدینہ سے تعلق اور نسبت کا ذکر جس انداز سے شعرا کرتے ہیں وہ ان کے جذبات کے حقیقی ترجمان ہیں۔ مدینہ کے تعلق سے جو مضامین نعتوں میں ملتے ہیں ان میں وہاں جانے اور وہاں پہنچنے کی آرزو کی شدت بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اس نوع کے اشعار میں شدت اور تعلق کا بے پناہ اظہار ہوتاہے۔لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ سعادت یہ گھڑی اسی وقت میسر ہوگی جب خدا کا اشارہ ہوجائے۔
مدینے جانے کی ہر دل میں آرزو ہے مگر
رسائی کس کی ہو رب غفور جانتے ہیں
تابش مہدی
مدینہ جانے کا ایک اور پہلو ملاحظہ کریں اور شاعرانہ تخئیل کی دادبھی دیں۔
صبا اس طرح جھومتے جارہی ہے
کہ جیسے مدینے یہی جارہی ہے
حمید صدیقی
ڈاکٹر تابش مہدی کا شمار عصر حاضر کے ممتا نعت گو شعرا میں کیا جاتا ہے۔ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔لمعات حرم،سلسبیل،صبح صادق،طوبی اور رحمت تمام کے علاوہ ان کے مناقب کا بھی ایک مجموعہ نجوم ہدایت کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ان کے یہاں نعت کا ایک خاص اہتمام اور کیفیت ملتی ہے۔ان کی بے شمار نعتوں میں مدینہ سے متعلق ایک الگ ایمانی کیف اور عقیدت کی فضا ہے۔انھو ں نے شہرنبی مدینہ سے متعلق بے شمار شعر کہے ہیں اور نعتیہ مضامین کو خوب نبھایا ہے۔اس شہر سے تعلق اور وہاں جانے کی بے تانی کو انھو ں نے مختلف انداز میں باندھا ہے۔وہ کہتے ہیں
مدینہ جب کسی کو جاتے دیکھا
یہ جی چاہااسی کے ساتھ ہولوں
میں اس برس بھی مدینے نہیں پہنچ پایا
مذاق با دصبا بھی مرا اڑانے لگی
روز جاتا ہے شہر مدینہ کوئی
بھیج دے کاش میرا بھی ویزا کوئی
تابش مہدی
مدینہ جانے کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔البتہ اس کا اظہار ایک تخلیق کار ہی بہتر انداز میں کرسکتا ہے۔اردو کی نعتیہ شاعری پر اگر نگاہ ڈ الی جائے تو مدینے جانے کی آرزو اور اس جذبات سے مملو اشعارکثرت سے ملیں گے۔
ایسی ہے چمک گنبد و مینار و حرم کی
آتے ہیں نظر دور سے آثار مدینہ
رفعت شیدا صدیقی
تڑپ رہا ہے غم ہجر سے غریب حمید
کوئی مدینے کے دارالشفا میں پہنچا دے
حمید صدیقی
جاہ و منصب اور نہ کوئی مرتبہ درکار ہے
ہم غلاموں کو مدینے کی ہوا درکار ہے
تابش مہدی
شمیم امروہوی نابینا نعت گو ہیں۔ان کی نعتوں میں ایک خاص سلیقہ اور جذبات و احساسات کی خوب صورت ترجمانی ملتی ہے۔ایک شعر میں انھوں نے اپنے جذبات کی کیاخوب ترجمانی کی ہے۔اس وضاحت کے بعد شعر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔کہتے ہیں
یہ مدینہ ہے یہاں دن رات ہوتا ہے یہی
یوں تعجب سے نہ دیکھو بارش انوار کو
شمیم امروہوی
رفعت شیدا صدیقی لکھنؤ کے ایک معتبر شاعر ہیں۔نعت کہنے کا انھیں خوب سلیقہ آتا ہے۔انھوں نے بھی اس مضمون کو نہایت خوبی کے ساتھ نبھایا ہے۔
وہاں پر رحمتوں کا رات دن ساون برستا ہے
مدینے میں چلو باران رحمت دیکھ لیتے ہیں
رفعت شیدا
اس شہر سے عقیدت ومحبت کی ایک جہت ان اشعار میں ملاحظہ کریں۔
کوئی شہر آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
تصور میں رہتا ہے بام مدینہ
ہمیں مدینے کے دیوار و در سے الفت ہے
وہاں کی خاک کو آنکھوں کا نور جانتے ہیں
تابش مہدی
یہی کیفیت جب بڑھتی ہے یعنی اس کی شخصیت اور سیرت سے تعلق میں جب اضافہ ہوتا ہے تو رفتہ رفتہ ایک وارفتگی اور بے پناہ تعلق قائم ہوجاتا ہے۔
دل میں آقا سے تعلق جو نہاں ہوتا ہے
قریے قریے پہ مدینے کا گماں ہوتا ہے
تابش مہدی
اس کے برخلاف صورت کے لیے بھی شاعر نے کہہ رکھا ہے
دل اٹکا ہوا جس کا مدینے میں نہیں ہے
وہ دین محمد کے سفینے میں نہیں ہے
تابش مہدی
مدینے سے اسلام کو قوت ملی اوریہیں سے بہت کم عرصہ میں اسلام کی دعوت دور دورتک پھیلی۔اسی لیے مدینہ کو رشد وہدایت اور روشنی کا مرکز کہا جاتا ہے۔اسی مرکز سے پوری دنیا روشنی کشید کررہی تھی۔اس حوالے سے کہا گیا ہے۔
اندھیرے راہ میں حائل کبھی ہونے نہیں پائے
مدینے سے ہمیشہ روشنی بڑھ کر چلی آئی
رباب رشیدی
یہیں سے دین کو رتبہ ملا ہے
مدینہ مرکز رشد وہدی ہے
عمیر منظر
اس شہر کو شعرا نے کس کس طرح دیکھا ہے بیان نہیں کیا جاسکتا۔آنکھ اور مدینے کا التزام بھی قابل رشک جذبہ ہے۔
آنکھوں کو آج ہجر کے غم سے چھڑاؤں گا
صحرائے دل میں شہر مدینہ بساؤں گا
روؤف امروہوی
ادھر ڈھونڈتی ہے ادھر ڈھونڈتی ہے
مدینے کو میری نظر ڈھونڈتی ہے
حمید صدیقی
میں ان آنکھوں میں رہنا چاہتا ہوں
مدینہ جن نگاہوں میں بسا ہے
جب سے ہم آئے ہیں طیبہ کی زیارت کرکے
اپنی آنکھوں کے نگہبان ہوئے جاتے ہیں
عمیر منظر
واقعہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کا قلم اور اس کی فکر آپ کی تعریف کرتے کرتے تھک سکتا ہے قلم رک سکتا ہے مگر آپ ﷺکی تعریف و توصیف ختم نہیں ہوسکی کچھ اسی نوع کی صورت اس شہر کے حوالے سے کہ شعرا نے عقیدت ومحبت اور فکر و خیال کے نہ جانے کتنے گوشے وا کیے ہیں اور سب پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔مدینے کے حوالے سے چند شعر ملاحظہ کریں۔
کوئی ایسا نہیں ملتا جو اس گتھی کو سلجھا دے
مدینہ ہے عرب میں یا دل درد آشنا میں ہے
افسر امروہوی
طیبہ کا مسافر ہوں تو اے خواہش دنیا
اب ساتھ چلے گی بھی تو بے کار چلے گی
اعجاز رحمانی
یوں دور ہوں تائب میں حریم نبوی سے
صحرا میں ہوجس طرح کوئی شاخ بریدہ
حفیظ تائب
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے قلب حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی خم اسی در پہ اپنی جبیں رہ گئیں
بہزاد لکھنوی
کچھ تو ہی بتا کیسے تھے سرکار مدینہ
دیکھا ہے فلک تو نے تو دربار مدینہ
رفعت شیدا صدیقی
ہے کتنا بے مثال مدینہ حضور کا
سب امتی ہیں ایک قبیلہ حضور کا
عمیر منظر
اردو نعت کے نگار خانے میں نبی پاک سے تعلق اور ان سے محبت وعقیدت کے بے شمار پہلو ہیں۔سیرت کی یہ ایسی تصویر ہے جو کبھی دھندلی نہیں ہوسکتی۔شاعروں نے وقت اور حالات چاہے جیسے بھی رہے ہوں لیکن ایک خاص اہتمام سے نعتیں کہی ہیں۔لفظ مدینہ کے حوالے سے شعرا نے خاصا اہتمام کیاہے۔ شاید ہی سے کوئی ایسا شاعرملے جس کے یہاں نعتیہ شعروں کے کہنے کا اہتمام ہو اور اس نے مدینہ پر کوئی شعر نہ کہا ہو۔