سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 11-11-2024
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

 

ابو ذر عبد الاحد فرقانی

کہتے ہیں کہ کسی کے قول کو کہیں نقل کیا جائے تو دیانت داری کے ساتھ من و عن نقل کرنا چاہیے۔ مرحومین کے سلسلے میں اس میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے لیکن مرزا داغ دہلوی کے اس مشہور زمانہ شعر کے مصرعہ میں جو تحریف یا شاعری کی اصطلاح میں برمحل تصرف کیا ہے اس کرم ظریفی سے تو اغلب گمان یہ ہوتا ہے کہ داغ صاحب کی روح داغ داغ تو نہیں باغ باغ ضرور ہوئی ہوگی۔ داغ صاحب نے تو اپنی زبان کے افتخار پر یوں اظہار کیا تھا

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

لیکن بعد میں ملکی حدود سے بھی آگے اردو کی روز افزوں مقبولیت کو دیکھ کر مصرعہ ثانی میں نہایت موزوں تصرف کرکے ’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ کر دیا گیا اور اب یہ مذکورہ شعر اسی طرح زباں زد خاص و عام ہوگیا اور ہر جگہ پڑھا اور لکھا جانے لگا۔ داغ صاحب با حیات ہوتے تو اس مصرعہ کو خود بدل کر ایسے ہی کر دیتے جیسے اب ہو گیا۔ اہل زبان کو اپنی زبان پر فخر کرنا ہی چاہیے۔

’’اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘ میں بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق نے شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر کا ایک شعر لکھا ہے ؎

وقت سحر وقت مناجات ہے

خیز درآں وقت کہ برکات ہے

جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب میں اس قسم کی بلیغ شاعری کی ابتداء ہوئی۔ کچھ لوگ امیر خسرو کو پہلا شاعر تسلیم کرتے ہیں، کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اردو زبان کی آفرینش جنوبی ہندوستان میں ہی ہوئی۔ ولی دکنی کو اردو شاعری کا موجد اعلیٰ اور سب سے پہلا صاحب دیوان شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ قلی قطب شاہ والي گولکنڈہ کی اولاد میں تھے۔ حصول علم کے لیے گجرات گئے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جنوبی ہند میں دلی آگئے۔ یہاں اردو کی نشو ونما اور آبیاری زیادہ ہو رہی تھی اور میرِ شعر و سخن میر تقی میر امام الشعراء تھے۔ میر تقی میر نے اپنی اردو زبان پر جسے اس زمانہ میں ریختہ بھی کہا گیا بہت فخر کیا۔ فرماتے ہیں؎

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

’’یہ ہماری زبان ہے‘‘ میں جو فخر و تمکنت ہے اسے اہل زبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ میر تقی میر نے اپنے بیٹوں کو زبان کے تحفظ کی وصیت بھی کی تھی۔ میر نے یوں بھی کہا ؎

مربوط کیسے کیسے کہے ریختے ولے

سمجھا نہ کوئی میری زباں اس دیار میں

مرزا غالب اگرچہ اپنی فارسی شاعری پر بڑا فخر کرتے تھے لیکن اردو پر بھی کچھ کم ناز نہیں کیا ہے ؎

جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکر ہو رشک فارسی گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کر اسے سنا کہ یوں دوسرے شعر میں بیدل کے حوالہ سے یہ فرماتے ہیں؎

رنگ بیدل میں ریختہ لکھنا

اسد اﷲ خاں قیامت ہے

بہرحال اردو حیدرآباد اور دلی میں خوب پھلی پھولی۔ پنجاب اور کشمیر میں سرسبزو شاداب ہوئی ۔اردو زبان ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں سلاطین و نوابین کے شاہی درباروں اور امراء و روساء کی محفلوں میں بڑے نازو نعم مگر عزّت و وقار کے ساتھ شباب کی دہلیز پر پہنچتے پہنچتے عوام الناس میں مقبول و مطلوب ہو گئی۔ مکاتب و مدارس میں یہی زبان ذریعہ تعلیم قرار پائی۔ مدرسوں نے اردو کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

برطانوی حکومت کے قیام کے بعد سرکاری سطح پر اس کی ترویج و اشاعت کا کام اعلیٰ پیمانہ پر شروع ہو گیا۔ جس میں فورٹ ولیم کالج کی اشاعتی خدمات سرفہرست اور ناقابل فراموش ہیں جہاں پہلی بار اردو کی لغت اور اردو قواعد کی کتابیں تیار کی گئیں نیز مخطوطات اور کلاسیکی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام ہوا۔ اسی برطانوی دور میں ہی جامعات اسکولوں اور کالجوں میں اردو کے الگ اور مستقل شعبے نیز دیگر ادارہ جات میں بھی اردو کے اشاعتی مراکز قائم ہوئے۔ خدا بخشلائبریری اور رام پور رضا لائبریری اہم ترین مراکز ہیں جہاں اعلیٰ پیمانے پر اشاعتی کام ہوتا ہے۔ اس کی آبیاری اور نشو ونما میں الٰہ آباد یونیورسٹی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی خدمات عدیم المثال ہیں۔ دار العلوم دیوبند، جامعہ ملیہ اسلامیہ، ندوۃ العلماء، شبلی کالج، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، بھوپال میں برکت ﷲ یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد وغیرہ ادارہ جات سے فارغ التحصیل دانش ور اور سخن ور اردو تہذیب و ثقافت کے سفیر اور نقیب بن کر چہار دانگ عالم میں پھیل گئے۔ یوروپ، امریکہ انگلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان غرض کہ دنیا کے تمام تہذیب یافتہ ممالک میں اردو زبان اور اردو تہذیب و ثقافت کا والہانہ استقبال کیا گیا اور اردو کی نئی نئی کالونیاں ہر جگہ آباد ہو گئیں۔ اور یقیناً اسی لیے مرزا داغ دہلوی کے شعر کے مصرعہ ثانی میں تصرف کر کے اس شعر کو ثبوت کے طور پر بین الاقوامی مقبولیت کا آئینہ دار بنا دیا گیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اردو زبان محض زبان ہی نہیں بلکہ ایک ترقی یافتہ تہذیب وثقافت کا مظہر بن کر سارے جہاں میں ہر دل عزیز اور فیض رساں ہوگئی۔ عصر حاضر کے ہی ایک غیر مسلم شاعر منیش کمار شکلاکے بقول ؎

بات کرنے کا حسین طور طریقہ سیکھا

ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی مادری زبان نہ کبھی تھی نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ عربی دنیا بھر کے مسلمانوں کی مادری زبان نہیں ہو سکتی اور نہ ہی سنسکرت دنیا کے سبھی ہندوؤں کی مادری زبان۔ کسی بھی زبان کے پھلنے پھولنے کی اولین شرط یہ ہے کہ اسے قبولیت عام حاصل ہو۔

آج اگرچہ قومی زبان ’’ہندی‘‘ قرار دے دی گئی ہے باوجود اس حقیقت کے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں بالخصوص جنوبی ہند اور انتہائی مشرقی حصے میں ہندی بولنے اور پڑھنے والوں کے اعداد وشمار بدرجہ صفر ہیں، یہی نہیں شمالی و وسطی ہندوستان کی عدالتوں میں استعمال ہونے والی زبان میں فارسی کے الفاظ مستعمل ہیں اور رہیں گے کیوں کہ ان کے مترادفات میسر ہی نہیں ہو سکے۔

زیر بحث حقائق و دلائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے اردو کو نئی تعلیمی منصوبہ بندی میں شامل نہ کرنا اور محض مسلمانوں کی زبان کہنا ایسے ہی ہے جیسے سکہ کے صرف ایک رخ کو دیکھنا۔ رام پرساد بسمل، دیا شنکر نسیم، غزل گو شعراء میں آنند نرائن ملا اور فراق گورکھپوری، کالی داس گپتا رضا، پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی، بال مکند عرش ملسیانی وغیرہ وغیرہ مسلمانوں کے نام تو نہیں ہیں۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کی تصنیف فسانہ آزاد، دیا شنکر نسیم کی گلزار نسیم اور منشی نول کشور کی اشاعتی خدمات کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ، ہر شعبہ ادب میں غیر مسلم کافی فعال رہے ہیں۔ یوسف کاظم کی تحقیق کے مطابق اردو کا پہلا اخبار ’’مرآۃ الاخبار‘‘ کلکتہ سے ۱۸۲۱ء میں شائع ہوتا تھا جس کے روح رواں راجہ رام موہن رائے تھے۔ ’جام جہاں نما‘ اخبار کے ناشر ہری دت اور ایڈیٹر سدا سکھ لعل تھے۔

غیر مسلم شعراء میں برج نارائن چکبست کا یہ شعر؎

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہونا

مادھو رام جوہر فرخ آبادی ؎

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

ان جیسے لافانی اشعار کے خالق غیر مسلم شعراء ہی تھے۔ ان پر بھی الہام ہوتا تھا ان کو بھی فکر رسا ودیعت ہوتی تھی۔ ایک چادر میلی سی کے مصنف راجندر سنگھ بیدی، گوپی ناتھ’، بیسویں صدی‘ کے مدیر رام رکھا مل چڈھا یعنی خوشترگرامی، گلشن نندا، گیان سنگھ شاطر، اوم پرکاش راز، کنہیا لال کپور، رام لعل، دلیپ سنگھ، دوارکا پرساد افق، ’چمنستان شعراء‘ کے مؤلف لکشمی نرائن شفیق، درگا سہائے، ہرگوپال تفتہ اقبال کے دوست سردار جوگیندر سنگھ، بشیشر ناتھ اور بشیشر پردیپ وغیرہ۔ کیا نظر انداز کیے جا سکتے ہیں یا ان سب کو مسلمان کہا جائے؟

پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی جو حال ہی میں آنجہانی ہوگئے اور ’خودگفت‘ سوانح حیات (انٹرویو کے مطابق) میں نسلاً در نسلاً اردو تہذیب کے پروردہ اور زبان کے عاشق زار خود کو اردو کا امام کہنے والے، اردو کے امین صادق اپنی وضع قطع، رہن سہن اور دیدہ زیب لباس سے بھی اردو تہذیب و ثقافت کا مرقع تھے اور اس پر مفتخر بھی۔ زبان پہ افتخار بھرے اشعار ثبوت ہیں۔

میں ہوں گلزار داغ کا پوتا

اور اردو زباں مری جاگیر

سات صدیوں تک جسے پالا عوام الناس نے

فخر ہے مجھ کو زبان خسروی رکھتا ہوں میں

آج بھی اردو کے غیر مسلم شعراء کی ایک معتد بہ تعداد ہے جن میں کرشن بہاری نور، اشوک ساحل، منیش شکلا، کرشن کمار طور، نوجوان شاعر مدھم سکسینہ، چراغ شرما، وجے تیواری، وپل کمار، کمار وشواس اور محترمہ لتاحیا وغیرہ شامل ہیں۔

اقبال اشہر کی بڑی مقبول و مشہور نظم ’اردوہے مرا نام‘ کا کیا خوب بند ہے جس میں معاندین کے اردو سے تعصب کو خاص طور پر اجاگرکیا ہے؎

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ

اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی

اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی

میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

اس کے علاوہ اردو زبان کے حسن پر فریفتہ دیگر شعراء نے بھی اپنی زبان کی ثنا خوانی کی ہے ملاحظہ ہوں درج ذیل اشعار ؎

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے

ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

(احمد وصی)

اردو جسےکہتے ہیں تہذیب کا ہے چشمہ

وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

(روش صدیقی)

اسی طرح دبستان رام پور کے مایہ ناز بین الاقوامی سطح پر مقبول شاعر جناب اظہر عنایتی کا یہ شعر؎

مری آواز کو محفوظ کرلو

کہ میرے بعد سناٹا بہت ہے

آواز سے مراد اظہر عنایتی کا مخصوص دل نشین ترنم ہی نہیں بلکہ مکمل اردو زبان اس کی ثقافت، لطافت و شیرینی اور اسلوب ادا کی دولت کا تحفظ ہے ۔ اظہر عنایتی کا یہ انتباہ قابل غور ہےکہ

ساتھ میں مرجائیں گے تاریخ و تہذیب و ادب

ہم نے جو اپنی زباں اردو کو مرجانے دیا

آنجہانی رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری الٰہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسرتھےلیکن اردوزبان میں بیش بہا تخلیقی شاعری کی بدولت بڑا مقام حاصل کیا۔ اس گفتگو کامقصد یہ ثابت کرناہے کہ وطن عزیز ہندوستان ہی اردو کی جائے پیدائش ہے مگر ارباب سیاست کی متعصبانہ ذہنیت نے اسے غیر ملکی یا صرف مسلم طبقے کی زبان‘ قرار دیا۔اسی زبان کے ایک نعرے ’’انقلاب زندہ باد! ‘‘ نے برطانوی سامراج کو اکھاڑ پھینکنے میں جنگ آزادی کے جیالے جاں بازوں میں مقصد کو حاصل کرنے کاجنون پیدا کیا۔ اسی طرح آج بھی کوئی جماعت، یا کسی تنظیم سے وابستہ لوگ جب اپنے مطالبات کے حصول کے لیے برسر پیکار ہوتے ہیں تو خود کو متحد کرنے کے لیے اکثر و بیشتراردو کے اس شعر سے کام لیتے ہیں ؎

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

دراصل اردو اپنے مفہوم اور مطلب کی مکمل ترسیل کے علاوہ اپنی لطافت اور شیرینی کے ساتھ نرم ونازک لہجہ اور طرز گفتگو سے بہت جلد ہی مقبول خاص وعام ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی رعنائیوں اور شباب کی منزلیں طے کرتی ہوئی تقریباً پورے ہندوستان اور پھر ساری دنیا میں پھیل گئی۔ سمجھی اور بولی جانے والی زبان بن گئی۔ اردو کے خمیر یا اس کی سرشت میں شیرینی وکشش کے علاوہ ایک وصف تمام رائج الوقت زبانوں کے الفاظ کی پذیرائی اور خود میں ضم کرلینا ہے۔ اس طرح اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہےجو اس کی مقبولیت کا سبب بھی ہے ۔ اب یہ دنیا کی وسیع ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ اب یہ اردو والوں کی ذمہ اری ہے کہ اس زبان کی روح کو نئی نسلوں تک پہنچائیں اور اسے زندہ رکھنے کے لئے کوشش کریں اور اپنے بچوں کو لازمی طور پراتنی اردو پڑھائیں جس سے اس کی بقا ممکن ہو سکے۔