منصور الدین فریدی :نئی دہلی
یہ بھی ایک انوکھی کہانی ہے ۔۔۔۔ ایک بڑھئی کا بیٹا بڑھئی بنا ۔۔ کیونکہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ وہ شطرنج کا کھلاڑی بن گیا ۔ غیر تعلیم یافتہ نوجوان نے یہ پیشہ اپنے والد کے نقش و قدم پر چل کر زندگی گزارنے کے لیے اختیار کیا تھا ،لیکن بڑھئی کا کام کرتے ہوئے اس کا سامنا شطرنج سے ہوا ،اس نے کام کے ساتھ وقت نکال کر کھیل میں مہارت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا شمار ملک کے ممتاز شطرنج کے کھلاڑیوں میں ہونے لگا۔جی ہاں ! یہ سابق قومی چیمپئن اور ملک کے لیے اولمپیاڈ شطرنج کا پہلا تمغہ جیتنے والے محمد رفیق خان کی کہانی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہندوستان میں شطرنج کا ذکر ہوتا ہے تو وشواناتھن آنند کا نام ہر کسی کی زبان پر آجاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رفیق خان وہ پہلے شطرنج کے کھلاڑی تھے جنہوں نے بین الاقوامی شطرنج میں ہندوستان کا پہلا میڈل 1980 اولمپیاڈ میں دلایا تھا جب آنند صرف 11 سال کے تھے۔ جبکہ یہ ایک بڑا سنگ میل تھا کیونکہ اس سے قبل اولمپیاڈ پر صرف اور صرف یورپی طاقتوں کا غلبہ تھا ۔
ایک بھوپالی کی کہانی
دراصل رفیق خان کا تعلق بھوپال سے تھا ،ان کے والد بڑئی تھے مگر خاندان غربت اور وسائل کی کمی کا شکار تھا۔ 12 جولائی 1946 کو پیدا ہونے والے رفیق خان کبھی اسکول نہیں گئے۔بس اپنے والد کے ساتھ بڑھئی کا پیشہ اختیار کرلیا تاکہ گھر کا بوجھ کم کرسکیں ۔ دن بھر کام کے بعد وہ اکثر تھک جاتے تو اس تھکن کو مٹانے کے لیے اپنے پسندیدہ ٹی اسٹال پر جایا کرتے تھے ۔ جہاں انہوں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے دیکھے گا۔ پھر ہر رات وہ چائے خانہ پر جاتے اور شطرنج میں ہاتھ صا ف کرتے تھے۔ اس طرح رفیق خان نے شاہی کھیل میں قدم رکھا ۔اہم بات یہ ہے کہ رفیق خان نے جو سیکھا وہ شطرنج کی دیسی شکل تھی، جسے ہندوستانی شطرنج بھی کہا جاتا ہے،جوبین الاقوامی شطرنج سے مختلف ہوتی ہے
بھوپال کے چائے خانہ میں جمی محل شطرنج کا ایک منظر
رفیق خان اور اولمپیاڈ میڈل
اس وقت ہندوستا ن میں شطرنج کے دو سطح پر مقابلے ہوتے تھے۔ نیشنل اے اور نیشنل بی۔ نیشنل بی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑی کو نیشنل اے میں موقع دیا جاتا تھا۔ اور نیشنل اے کھیلنا کسی بھی کھلاڑی کے لیے قابل قدراور باعث افتخار تھا۔ چونکہ وہ پیشے سے بڑھئی تھے اس لیے انہوں نے اپنے لیے شطرنج کے بورڈ اور مہرے خود بنائے تھے جس پر اکثر و بیشتر ان کی نگاہیں ہوتی تھیں
شطرنج کے میدان میں پہلا قدم
رفیق خان نے پہلی بار اپریل 1975 میں مدھیہ پردیش شطرنج چیمپئن شپ میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے ورنا اولمپیاڈ میں ہندوستان کی نمائندگی کرچکے سید نواب علی ، راجیش بہادر، رادھے شیام گپتا کے خلا ف جیت کے ساتھ چیمپئن بن کر ہر کسی کو دنگ کردیا تھا ۔اس کے بعد وہ جون 1975 کے دوران پٹنہ میں منعقدہ 13 ویں نیشنل 'بی' میں راجہ روی شیکھر کے بعد دوسرا مقام حاصل کرکے نیشنل 'اے' کے لیے کوالیفائی کر گئے۔جون 1976 کے دوران کلکتہ میں منعقدہ 14 ویں نیشنل 'بی' میں اپنی شاندار کارکردگی سے انہیں مزیدنے شہرت ملی ۔جس میں انہوں نے 11 جیتیں اور ان میں سے 9 بیک ٹو بیک تھیں۔وہ ہندوستان کے تقریباً تمام بہترین شطرنج کھلاڑیوں سے آگے نکل گئے تھے۔ ان کے حریف جدید شطرنج کے نظریہ میں ماہر اور تجربہ کار تھے لیکن رفیق خان کو انگلش نہیں آتی تھی جس کے سبب وہ جدید شطرنج پر کوئی بھی کتاب نہیں پڑھ سکا تھا ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ٹائٹل جیتنے اور ملک کے ممتاز ترین شطرنج کھلاڑیوں میں سے ایک ہونے کے باوجود رفیق خان کی مالی حالت بہتر نہیں ہوسکی تھی۔ اس وقت کھیل کود میں شاید ہی کوئی پیسہ ہوتا تھا۔ اگرچہ وہ بھوپال میونسپل کارپوریشن میں کام کر رہے تھے، لیکن تنخواہ اس کے لیے کافی نہیں تھی کہ وہ اپنے شطرنج کے کیریئر پر توجہ مرکوز کر سکے۔ اس دوران ایک انگریزی میگزین 'آن لوکر' نے خان کی کامیابیوں اورحکومت کے سکوک پر تفصیلی اسٹوری شائع کی۔ اس وقت کے وزیر صنعت جارج فرنینڈس تک پہنچی۔ اس کی حالت زار دیکھ کر فرنانڈس نے رفیق کو خط لکھا۔
جب رفیق خان جب قومی چمپئین بنے
جارج فرنانڈیز نے 29نومبر 1978 کو رفیق خان کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ ۔۔۔
شطرنج کے شاندار کیریئر کو آگے بڑھانے میں آپ کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے بارے میں سن کر مجھے دکھ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگوں نے ابھی تک ہمارے کھلاڑیوں اور خواتین کی تعریف کرنا نہیں سیکھا ہے جو نہ صرف ملک کا نام روشن کرتے ہیں بلکہ دوسرے نوجوانوں کو حوصلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس وقت بھوپال میونسپل کارپوریشن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ کارپوریشن کھلاڑیوں میں دلچسپی لے رہی ہے۔ ہم چاہیں گے کہ آپ بھارت ہیو الیکٹریکل لمیٹڈ، بھوپال میں شامل ہوں جو زیادہ مواقع فراہم کرے گی۔ اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو کیا آپ براہ کرم ایگزیکٹو ڈائرکٹو مسٹر بی ایس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ آپ اپنا شطرنج کیریئر جاری رکھیں گے اور یہ ملازمت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ آپ کو ہر ممکن طریقے سے فروغ دیا جائے۔3. میں 2 دسمبر کو بھوپال میں ہوں گا اور 2.12.78 کو صبح 9.30 بجے بھوپال ہوائی اڈے پر آپ سے مل کر خوشی ہو گی۔
آپ کا مخلص۔ جارج فر نانڈیز
رفیق خان کو 1978میں اس وقت کے وزیر جارج فرنانڈیز نے خط لکھ کر ملازمت کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے قبول کرلیا تھا
اولمپیاڈ میں میڈل کی جیت کے بعد بھوپال میں رفیق خان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا
نئی ملازمت اور نئے مواقع
دراصل نئی ملازمت نے رفیق خان کے شطرنج کے کیریئر کو بہت ضروری فروغ دیا۔ انہوں نے اپنے کھیل پر توجہ مرکوز کی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مالٹا اولمپیاڈ 1980 رفیق خان نے سلور میڈل جیت لیا ۔یہ کامیابی صرف ذاتی نہیں تھی بلکہ پوری ہندوستانی شطرنج برادری کے لیے اعتماد کی راہیں کھول گئی ۔ اچانک سب کو یقین ہونے لگا کہ ہندوستانی بھی نہ صرف مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کی بہترین ٹیموں سے بھی جیت سکتے ہیں۔ یہ کامیابی کتنی اہم تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اولمپیاڈ میں یہ پہلے غیر یورپی چیمپئن تھے۔اس سے قبل کوئی اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کئی سال کے بعد ہندوستانی حکومت نے 1980 میں مالٹا اولمپیاڈ میں ہندوستانی مردوں کی ٹیم کو اسپانسر کیا تھا۔ ہندوستانی شطرنج کی تاریخ کا ذکر ہوتا ہے تو ہمیشہ وشواناتھن آنند کا نام زبان پر آجاتا ہے ۔جو ہندوستان کے پہلے گرینڈ ماسٹر بنے، عالمی جونیئر شطرنج چیمپئن شپ جیتنے والے پہلے ہندوستانی تھے، ہندوستان سے پہلے سینئر عالمی چمپئن تھے اور عالمی نمبر 1 بننے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ لیکن ایک ایسا کارنامہ تھا جو ایک اور ہندوستانی شطرنج کھلاڑی نے آنند کو موقع ملنے سے بہت پہلے حاصل کر لیا۔ مالٹا میں 1980 کے اولمپیاڈ میں جب آنند کی عمر صرف 11 سال ہوگی، محمد رفیق خان نے شطرنج اولمپیاڈ میں ہندوستان کو اپنا پہلا میڈل- سلور - دلایا تھا۔ چیس بورڈ میں شائع ساگر شاہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چیس اولمپیاڈ میں ہندوستان کے لیے پہلا میڈل رفیق خان کو قومی ہیرو بنا گیا تھا۔
رفیق خان اپنی اہلیہ کے ساتھ
مدھیہ پردیش کے پہلے انٹرنیشنل ماسٹر اکشت کھمپریا نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ شطرنج کی کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتے تھے کیونکہ اس وقت کی کتابیں خصوصی طور پر انگریزی یا روسی زبان میں ہوتی تھیں۔ اس کے باوجود وہ قدرتی طور پر مضبوط کھلاڑی تھے۔ ان کا کھیل بہت پریکٹیکل تھا۔ شطرنج کی کتابوں سے دوری کا مطلب یہ تھا کہ ان کے پاس اصولی اور نظریاتی علم بہت کم تھا۔ان کے مطابق محمد رفیق کا کھیل اتنا اچھا تھا کہ اگر انہیں سپورٹ ملی ہوتی اور ان کی اچھی طرح تربیت ہوتی تو وہ انڈیا کے پہلے گرینڈ ماسٹر ہوتے۔وہ ہندوستان کے گرانقدر مقابلے پیلو مودی چیمپیئن شپ کے 1984، 1986 اور 1992 میں تین سال فاتح رہے۔ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی انہوں نے بہت سادگی کی زندگی گزاری اور تقریباً گمنام ہی رہے۔ یہاں تک کہ سنہ 2019 میں جولائی کے مہینے میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ ان کی زندگی پر لکھی گئی اس رپورٹ میں سنیدھیا اگروال نے اہم کردار ادا کیا تھا جو رفیق خان کے شاگرد رہے تھے۔ ایک شاگرد کے لیے اپنے استاد کے لی اس سے بہتر خراج عقیدت اور کچھ نہیں ہوگا