منصور الدین فریدی : آواز دی وائس
روح افزا۔ مشروبات یعنی ڈرنکس کی دنیا کا بادشاہ، روح میں سمایا اور رگوں میں رواں دواں،ایک ایسا شربت، جو صرف ایک ذائقہ نہیں بلکہ ایک ترقی کی کہانی ہے، جسے آج ملک ’ہمدرد ‘ کے نام سے جانتا ہے،جوملک میں ہیلتھ سے ایجوکیشن کے میدان تک وقف ہے، یہی وجہ ہے ہر دن اور ہر سال نئے سنگ میل کے ساتھ 119 سال کی عمر میں بھی جوان ہے روح افزا۔ عام طور پر ہم صرف روح افزا کی سرخی اور خوشبو پر ہی اٹک کر رہ جاتے ہیں ،مگر یہ شربت ایک ایسی ترقی کی راہ بنا ہے جس نے یونانی دواوں کی دوکان کو ایک ادارہ اور صنعت بنا دیا بلکہ فلاحی کاموں کا ایک ایسا سائبان جس پر ’ہمدرد‘ کا نام ہی اس کا کردار بن گیا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ روح افزا کی بنیاد پر جس ادارے نے شباب و عروج پایا اس کے منافع کا 85فیصد حصہ آج ہیلتھ سے ایجوکیشن تک فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے جس نے ہمدرد کو ملک کی ترقی میں ایک اہم حصہ دار بنا یا ہے
اس ادارے کی کامیابی کی طویل داستان ہے ،مگر جب بھی اس کا ذکر ہوتا ہے تو بات روح افزا سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ کیونکہ مشروبات کے اس بادشاہ نے ہمدرد کو فلاحی خدمات کا حوصلہ اور جذبہ دیا ہے ۔ آئیے بتاتے ہیں کب اور کیسے ہوا اس کا آغاز اور کس کا تھا یہ نسخہ ۔ کس نے بنایا اس کا صدابہار لیبل، کس نے دیا تھا یہ نام اور کس طرح روح افزا نے ’ہمدرد‘ کو بنایا فخر ہند - ایک ایسا شربت جو ایک تہذیب کا نام ہے، ڈرنکس کی دنیا میں ایورسٹ جیسا مقام کا حقدار بن چکا ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت اور روایت کا حصہ بن چکا ہے،یہ ہمارے اعصاب پر حاوی ہے۔آج بھی اس کی خوشبو، ماضی کی یادوں کے نہ جانے کتنے دریچے کھول دیتی ہے۔
بات ہمدرد کی
دائیں سے ۔۔۔ بانی ہمدرد حکیم عبدالمجید ان کے صاحبزادے حکیم عبدالحمید اور حکیم محمد سعید
روح افزا کے نسخہ ساز تھے حکیم استاد حسن خان
روح افزا پر ہمدرد کی مہر ضرور ہے ۔۔لیکن اس کا نسخہ کب اور کس نے تیار کیا؟ اس کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ در اصل حکیم عبدالمجید کے همدرد دوا خانے میں ایک دوا ساز حکیم استاد حسن خان بھی تھے۔جن کا تعلق اتر پردیش کے سہارنپور سے تھا۔۔۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے روح افزا کا پہلا نسخہ ترتیب دیا تھا۔۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی چلے گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہمدرد دوا خانہ کے بانی چاہتے تھے کہ پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کو ملا کر ایک ایسا بے نظیر و بے مثال شربت تیار کیا جائے جو ذائقے اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہو۔جسے بچے سے بوڑھا تک ہر مزاج کا شخص استعمال کر سکے۔ اسی کے بعد روح افزا کی تیاری پر کام شروع ہوا۔۔ حکیم استاد حسن خان نے اپنی تمام حکمت اور خواص جڑی بوٹیاں کا تجربہ روح افزا کے نسخہ و ترکیب میں سمو دیا۔اگر صرف روح افزا کی تیاری پر ہی ان کو استاد کے لقب سے نوازا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ یہ شخص گمنامی کی زندگی بسر کرگیا۔اتنا ضرور ہے کہ ہمدرد وقف دواخانہ و لیبارٹریز کی ویب سائٹ پر ان کا تعارف بحیثیت روح افزا کے پہلے نسخہ ساز کی حیثیت سے درج ہے
کہاں سے آیا نام
اگر بات کرتے ہیں اس سرخ شربت اعظم کے نام کی تو مثنووی گلزار نسیم’’ نامی کتاب میں ایک کردار تھا ’روح افزا‘ ۔ یہ نام اسی کتاب سے لیا گیا تھا۔یہ کتاب پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے لکھی تھی-مثنوی"گلزار نسیم" پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنو کے دبستان شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے،مثنوی "گلزار نسیم" پنڈت دیا شنکر نسیم کی لکھی ہوئی ایک عشقیہ مثنوی ہے جو "قصۂ گل بکاؤلی" کے نام سے مشہور ہے
مثنوی گلزار نسیم جس کے ایک کردار کا نام روح افزا تھا وہی شربت کے لیے پسند کیا گیا تھا
روح افزا کا پہلا لیبل
روح افزا کی بوتل پر اس کا پھل دار لیبل کی بھی ایک شان رہی ہے۔۔۔ حالانکہ اس دورمیں پرنٹنگ کا معیار ’لیتھو‘ تک محدود تھا۔مگر ’روح افزا ‘ کی بوتل پر اس دور میں بھی لیبل ’رنگین‘ تھا۔جو کیلی گرافر مرزا نور احمد کے فن کا نمونہ تھا،جو دہلی لیتھو پریس میں کیلی گرافر تھے،اس زمانہ میں بوتل پرنظر آنے والا لیبل ممبئی سے چھپ کر آتا تھا،جو آج بھی بوتل پر برقرار ہے۔روح افزا کا پہلا لیبل جو کیلی گرافر مرزا نور احمد نے تیار کیا تھا
کوئی نہ بن سکا ’دوسرا‘ روح افزا
کیا دیا ہمدرد نے ملک وقوم کو
جامعہ ہمدرد ایک ایسا علمی و تحقیقی مرکز بن چکا ہے جہاں درجنوں ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ یہ ادارے اپنی نوعیت اور دائرۂ کار کے اعتبار سے حیرت انگیز وسعت کے حامل ہیں—ابتدائی تعلیم سے لے کر پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق تک، یونانی طب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی تک، اور اسلامیات سے بزنس مینجمنٹ تک۔یہ صرف ایک جامعہ، کچھ کالج یا اسپتال نہیں بلکہ ایک وژن کا مجسم عکس ہے—ایک ایسا وژن جو سماجی خدمت، علمی ترقی اور معاشرتی بہتری کو یکجا کرتا ہے۔ جامعہ ہمدرد اور اس کے وابستہ ادارے نہ صرف تعلیم و تحقیق میں پیش پیش ہیں بلکہ یہ معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے سہارا بھی بنے ہوئے ہیں۔انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، غالب اکیڈمی، اور انسٹی ٹیوٹ آف فیڈرل اسٹڈیز جیسے ادارے اس بات کی واضح مثال ہیں کہ جب کسی فرد کے اندر عوامی فلاح کا جذبہ اور ادارہ سازی کا شعور ہو، تو وہ کس طرح معاشرے کے مختلف شعبہ جات میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔جامعہ ہمدرد اور اس سے منسلک طالب آباد کی موجودگی آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے کہ ایک شخص کی بصیرت، محنت اور لگن کیسے علم، خدمت اور ترقی کا ایسا روشن مینار قائم کر سکتی ہے جو وقت کے ساتھ مزید بلند ہوتا چلا جائے۔
ایک صدی کی تاریخ کے ساتھ ہندوستان میں اب ہمدرد ایک برانڈ نہیں بلکہ بھروسہ کا نام ہے۔ جس نے میڈیکل سے ایجوکیشن کے میدانوں ساتھ ہی فلاحی کاموں میں گہری چھاپ چھوڑی ہے،وقف کی شکل میں ہمدرد نے میڈیسن سے تعلیمی و ریسرچ کے انسٹی ٹیوٹس کا جال بچھایا ۔۔۔ دنیا بھر میں اکسپورٹس کی نئی منزلیں طے کی ہیں،اس وقت 25 ملکوں میں ہمدرد کا نام روشن ہے ۔۔۔۔ہمدرد نیشنل فاونڈیشن کے پرچم تلے فلاحی کاموں کا جال بچھا ہوا ہے۔جس کے لیے ہمدرد کا 85 فیصد منافع وقف ہے۔ہمدرد یونیورسٹی بھی اسی کہکشاں کا سب سے روشن ستارا ہے ۔جو حکیم عبدالحمید کے خوابوں کی تعبیر بھی ہے،اگر آج ہمدرد ملک کے لیے مختلف میدانوں میں فخر کا باعث بنا ہے تو اس کے پیچھے خدمت کا وہ جذبہ ہے جو آج بھی جواں ہے۔بالکل روح افزا کی مانند۔