عمیر منظر
مانو،لکھنو کیمپس
دیکھتے دیکھتے 25دسمبر 2024 آگیا،یعنی وہ دن جب شمس الرحمن فاروقی کو اس دنیا سے گئے ہوئے چار برس ہوگئے۔حالانکہ ان کی یادیں اس طرح تازہ ہیں کہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی چند دن پہلے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ تواتر کے ساتھ ان کا ذکر بھی ہورہا ہے۔ان کے انتقال کے بعد سے لے کر آج تک ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر جس قدر مضامین اورمقالے سامنے آئے ہیں، ان میں نئی نسل کے لکھنے والوں کی ایک معقول تعداد ہے۔ابھی جب میر کی صدی منائی جارہی تھی اس وقت میر شناسی کے ضمن میں شعرشور انگیز کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی نے جو میل کا پتھر نصب کیا ہے،اسے خصوصی طور پر یاد کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مطالعہ میر کو انھوں نے جن نئی راہوں سے آشنا کیاہے، اس میں کوئی ان کا دور دور تک ثانی نہیں نظر آتا۔ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اب میر کا مطالعہ شعر شور انگیز کے بغیر ممکن نہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کا سالانہ مجلہ (ارمغان)جو میر سے مخصوص ہے، اس میں شعر شور انگیز کا ایک منتخب حصہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
مجھے شمس الرحمن فاروقی کو پہلی بار جولائی 1996 میں غالب اکیڈمی (نئی دہلی)میں سننے کا اتفاق ہواتھا۔اس موقع پر انھوں نے ’ایہام،رعایت اور مناسبت،کے عنوان سے ایک خطبہ دیا تھا۔ یہ خطبہ ’اردو غزل کے اہم موڑ‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔اس وقت سے آج تک ان کی تقریر و تحریر سے استفادے کا سلسلہ جاری ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ نسل کی ادبی تربیت میں شمس الرحمن فاروقی کا کلیدی کردار ہے۔ہمیں فخر ہے کہ عہد فاروقی ہمیں نصیب ہوا۔مجھے بار بار دلی،لکھنؤ اور الہ آباد میں ان سے ملنے اور استفادہ کا موقع ملتا رہا۔ان کا اپنا ایک خاص مزاج تھا۔وہ جس سے محبت کرتے تھے اس سے ڈانٹ ڈپٹ کا معاملہ بھی رکھتے تھے۔ ان کی محبت اور ڈ انٹ دونوں میں خلوص کا دخل ہوتا تھا۔ہاں اہل علم کی ان کے یہاں بڑی قدر تھی۔اگر ان کی تحریر کے بارے میں کسی طرح کی نشاندہی کوئی کرتا تو وہ اسے غور سے سنتے اور اور مناسب جواب بھی دیتے۔شب خو ن کے توسط سے انھوں نے بے شمار لکھنے والوں کو نہ صرف موقع دیا بلکہ انھیں ادبی دنیا میں متعارف بھی کرایا۔
فاروقی صاحب کو ہندوستان میں پدم شری اور پاکستان کی جانب سے نشان پاکستان کا اعزاز حاصل ہوا تھا
فاروقی صاحب کی شخصیت غیر معمولی ادبی خوبیوں کی حامل تھی۔جن لوگوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ان کا نہ صرف حافظہ غیر معمولی تھا بلکہ ان کے مطالعہ کی رفتار بھی بہت تیز تھی۔ان کے مطالعہ کو دیکھ کر حیرت ہوتی۔کتابوں کا مسودہ اس قدر تیزی کے ساتھ پڑھتے اور غلطیوں کو نشان زد کرتے ہوئے چلے جاتے کہ دیکھ کر آدمی حیران رہ جائے۔چودہ پندرہ برس پہلے ایک شاعر کا دیوان شائع ہوا۔کتاب کی اشاعت کے چند ماہ کے اندر ہی وہ کسی کام سے دلی آئے تو ملاقات کے دوران اس کتاب کا کسی طرح ان کے سامنے ذکر آگیا۔فاروقی صاحب نے چند منٹ میں شاعر کے ساتھ ساتھ دیوان کی ترتیب وتدوین کی خوبیوں اور خامیوں پراس طرح روشنی ڈ الی کہ سب کچھ واضح ہوگیا۔گفتگو سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ ابھی ابھی کتاب پڑھ کر کے اٹھے ہیں۔دراصل ان کا حافظہ غضب کا تھا اور وہ کوئی چیز بھولتے ہی نہیں تھے۔ کتابوں کے پڑھنے کا شوق بھی خوب تھا۔پروفیسراشتیاق احمد ظلی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ انتقال سے چند برس پہلے ایک دن فاروقی صاحب نے فون کرکے کہا کہ میری لائبریری میں الفاروق نہیں مل رہی ہے۔علامہ کی یہ کتاب مجھ سب سے زیادہ پسند ہے۔آپ مجھے قیمت کی رسید کے ساتھ بھیج دیں۔بہت دیر تک پھر وہ علامہ کے کارناموں کا ذکر کرتے رہے اور گفتگو اس بات پر ختم کی کہ کاش علامہ کے ناخن کے برابر بھی علم ہوتا تو کچھ کام کرلیتے۔ ہمارے دوست جناب اویس سنبھلی نے داغ کے ایک شاگرد باغ سنبھلی کا دیوان مرتب کیا۔اس پر روزنامہ سہارا لکھنؤ ایڈیشن میں ایک تبصرہ شائع ہوا،جس میں کسی طورپر میرا بھی نام تھا۔فاروقی صاحب نے مجھے فون کیا کہ کتاب رسید کے ساتھ بھیجو۔میں نے اویس سنبھلی سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ کتاب ڈاک سے نہیں جائے گی بلکہ کتاب کے ساتھ ہم لوگ بھی جائیں گے۔اس یادگار ملاقات میں عزیزم اطہر حسین بھی ساتھ تھے۔فاروقی صاحب سے وہ ملاقات،ان کی گفتگو اور ضیافت اب بھی یاد ہے۔
شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فاروقی صاحب کا بہت آنا جانا رہتا تھا۔وہ خصوصی لیکچر میں تو مدعو کیے ہی جاتے تھے مگر اس کے علاوہ بھی اگر کوئی موقع مل جاتا تو شعبہ کے ذمہ داران فاروقی صاحب کو طلبہ سے ملاقات اور ادبی استفادہ کے لیے دعوت دیتے اور وہ بلاتکلف تشریف لاتے تھے۔ایک بار ایک غیر رسمی لیکچر کے دوران انھوں نے قصیدہ پر گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو سے پہلے،کلاس میں سودا کا وہ نعتیہ قصیدہ پڑھتے ہوئے”تسبیح سلیمانی“ پر بحث ہوچکی تھی۔ میں نے اپنے اشکال کا اظہار بھی کیا تھا مگر کوئی مناسب صورت نہیں بن سکی تھی۔ اتفاق کہیے کہ چند ہی روز بعد فاروقی صاحب کے اس غیر رسمی لیکچر میں وہ لفظ بھی آگیا اور مسئلہ حل ہوگیا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شخصیات سے استفادہ کے لیے ضروری ہے کہ ان کی مجلس میں حاضری دی جائے اور وہ جو کچھ فرمائیں اسے بس سنتے جائیں۔ہمارے زمانے میں فاروقی صاحب سے استفادہ میں جو یکسوئی اور استقامت پروفیسر احمد محفوظ کا شعار رہا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ واقعہ یہ ہے کہ آج ان کے شاگرد جب اس سعادت پر اپنے لئے فخر کا ظہار کرتے ہیں تو بسا اوقات وہ اسے از راہ انکسار پسند نہیں کرتے، مگر فاروقی صاحب علمی اکتساب و استفادہ کی جو مثال استاد محترم نے قائم کی ہے، وہ کمیاب ہے۔
فاروقی صاحب کی ایک یادگار تصویر
شمس الرحمن فاروقی کے بیشمار ادبی کارنامے ہیں اور انھیں میں ایک کارنامہ داستان شناسی ہے۔ یہ ایسا وقیع اور اہم کارنامہ ہے کہ اسے مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ شروع شروع میں انھوں نے داستانوں پر کچھ لیکچر دیے تھے۔دہلی میں ان کا ایک لیکچر مجھے اچھی طرح یاد ہے،جس میں دہلی کی معتبر ادبی شخصیات موجود تھیں۔ فاروقی صاحب نے داستان کی شعریات کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا، اور سب سے بنیادی بات یہ بتائی کہ داستان ایک زبانی بیانیہ ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے زبانی بیانیہ،بیان کنندہ اور سامعین کی تشریح کی اور بتایاکہ ان کے بغیر داستان کو کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقع پر انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’باغ و بہار‘ داستان نہیں ہے۔ادبی حلقوں میں اس کا بہت چرچا ہوا۔دہلی سے شائع ہونے والااس دور کا مشہور اخبار ’روزنامہ قومی آواز‘ نے اسے ایک اہم ادبی خبر کے طور پر نمایاں کرکے شائع کیا۔
شمس الرحمن فاروقی کی زندگی کا ایک اہم ادبی واقعہ فراق گورکھ پوری اوراحمد مشتاق کے سلسلے میں ان کا وہ خطاب تھا، جس کا اہتمام الہ آباد میں ’ادارہئ فن وادب‘ کی ایک مخصوص نشست میں ڈاکٹر سہیل احمد زیدی مرحوم کی خاص دعوت پر حمید قیصر کے یہاں کیا گیا تھا۔اس خطاب کی باقاعدہ ٹیپ ریکارڈنگ ہوئی تھی جسے پروفیسر احمد محفوظ نے کاغذ پر منتقل کیاجو بعد میں ماہنامہ شب خون جون ۶۹۹۱میں شائع ہوا۔اس کا عنوان تھا ’غزل کی شعریات:فراق اور احمد مشتاق کا محاکمہ فاروقی کی زبان سے‘۔دراصل اس خطاب سے کچھ عرصے پہلے، فاروقی صاحب نے کسی موقعے پر احمد مشتاق کو فراق سے بہتر شاعر قرار دیا تھا۔چنانچہ اسی بات کے پیش نظردونوں شعرا کے موازنے کا یہ پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔فاروقی صاحب نے دونوں شعرا کے مشہور ترین پندرہ پندرہ اشعار کا فکری اور فنی تجزیہ کیا، اوردونوں شاعروں کی بنیادی خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔فراق صاحب کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ان کی شاعری کا بڑا عیب حشو ہے، اور یہ کہ فراق عجز نظم کے بہت شکار ہوجاتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس موقع پر کہا تھا:
فراق کے بارے میں مجھے بنیادی شکایت یہ ہے کہ ان کاکلام اس تقاضے کوہی پورا نہیں کرتا جسے غزل کی شعریات کا اولین اور سب سے اہم تقاضا کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شعر میں کوئی حشونہیں ہونا چاہیے۔(شب خون جون ۶۹۹۱ص: ۷۱)
فراق کے بارے میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ نئے مضامین کی تلاش میں انھوں نے اظہار کی پروا نہیں کی۔جبکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ غزل کا خاصہ اظہار کی خوبی ہی ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے فراق کے بعض اشعار کی تعریف کی تو کچھ کو معمولی اور مہمل بھی قرار دیا۔دراصل یہ پوری گفتگو انھوں نے غزل کی شعریات کے تناظر میں کی ہے۔چونکہ ہمارے یہاں بالعموم غزل کی شعریات پر کم ہی باتیں ہوتی ہیں اور اسی لیے اس حوالے سے فاروقی کے بارے میں بہت کچھ کہا گیاہے۔یہ بات بھی واضح رہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ شمس الرحمن فاروقی فراق کی شاعری کے قائل نہیں تھے۔ ایک موقع پر نصاب کے سلسلے میں شعرا کی فہرست مرتب ہورہی تھی توشمس الرحمن فاروقی بھی وہاں موجود تھے۔ ان کو دیکھ کر کچھ لوگو ں نے فراق کا نام ہٹانا چاہا تو انھوں نے کہا کہ نہیں، ان کا نام ضرور رکھیے کہ اپنے عہد اور بعد کے شعرا پر فراق کے گہرے اثرات ہیں۔
شمس الرحمان فاروقی ایک ِشخصیت ۔ ایک عہد
ادھر کئی برسوں سے میں خان محبوب طرزی (۰۱۹۱۔۰۶۹۱)پر کام کررہا تھا۔میری کتاب ’خان محبوب طرزی:لکھنو کا مقبول ناول نگار‘ جو کہ اب شائع ہوگئی ہے۔انتقال سے دو سال قبل جب اس کتاب کا پہلا مسودہ فاروقی صاحب کو دکھا یا تو انھوں نے بے انتہا مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ کتاب میں طرزی کا ایک سائنسی ناول’سفر زہرہ‘ بھی شامل کرلو،تمہارے کام سے طرزی کی روح خوش ہوجائے گی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے طرزی کے سائنسی ناولوں میں دو دیوانے،سفر زہرہ اور برق پاش کی بطور خاص تعریف کی،نیز یہ بھی کہا کہ’برق پاش‘ میں نے ستر سال پہلے پڑھا تھا مگر اس کا تاثر اب تک قائم ہے‘۔کتاب کے بارے میں وہ اکثر معلوم کرتے رہتے تھے۔انھوں نے طرزی کے بعض ناولوں کے بارے میں بھی کچھ اہم نکات بیان کیے۔میراخیال تھا کہ دسمبر 2020 کے اوائل میں کتاب چھپ جائے گی۔ انھوں نے کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کا وعدہ کیا تھا۔9،اکتوبرکو ان کا فون آیا کہ میل آئی ڈی بتاؤ، دو صفحے گھسیٹ دیے ہیں،اب لکھا نہیں جاتا۔طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔غالباً کسی کتاب پریہ ان کا آخری پیش لفظ ہوگا۔پیش لفظ میں انھوں نے لکھاہے:
طرزی صاحب کا پہلا ناول جو مجھے یاد ہے، ’برق پاش‘ تھا۔ اس میں ایک تھوڑے سے جنونی سائنسداں نے لیسر کی طرح کی شعاعوں کو دور سے مار کرنے والے ہتھیارکی شکل میں تبدیل کردیاتھا۔پھر میں نے تلاش کر کے اور کبھی کبھی خودخرید کر کے خان محبوب طرزی کے کئی ناول پڑھے۔ان میں سائنسی ناول ”دو دیوانے“مجھے خاص طور پر یاد ہے کیونکہ اس کے مرکزی سائنسداں کردار نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے خلائی جہاز میں ابد الآباد کائنات کا چکر لگاتا رہوں گا اور سورج کی شعاعوں سے اپنی غذا حاصل کروں گا۔ شہزادی شب نور“ ناول میں مہم جوئی،اسرار اور جستجو کے کئی عنا صر موجود تھے۔ پورے ناول پر ایک خاموش، پر اسرار فضا چھائی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔جن ناولوں کا میں ذکر رہا ہوں،انھیں میں نے آج سے کوئی ستربہتر برس پہلے پڑھا تھا۔ ان کا دلکش نقش اب بھی باقی ہے،اگر چہ مطالعے کا ذوق مجھے جلد ہی انگریزی ادب کی طرف لے گیا۔فاروقی صاحب کی محبت اور عنایت ہمیشہ میرے شامل حال رہی۔ میری پہلی مرتبہ کتاب ’مولانا ابو اللیث ندوی کے قرآنی مقالات‘اکتوبر2002میں چھپ کر آئی تو ایک کاپی میں نے فاروقی صاحب کو پیش کی۔انھوں نے نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ کتاب کا ایک مضمون ’قرآن مجید اور سجع‘ کی تلخیص شب خون میں شائع بھی کی۔میری مسرت کی انتہا نہ رہی۔ان کے بارے میں اس طرح کی بے شمار باتیں اور واقعات ہیں جو یاد آتے رہیں گے۔
انتقال سے چند روز پہلے یعنی 19دسمبر 2020کو پروفیسر احمد محفوظ ان سے ملاقات کے لیے گئے۔اپنی اس آخری ملاقات کے احوال میں انھوں نے لکھا ہے:۔۔۔اس دن ان کی طبیعت نسبتاً بہتر تھی۔قریب ایک گھنٹے میں ان کے پاس رہا اور اس دوران انھو ں نے خود میر،مومن اور میر انیس کے اشعار سنائے اوران کے بارے میں باتیں کیں۔اس وقت بھی ان کے ذہن کی تیزی اور حافظے کی وہی کیفیت تھی جو ان کا طرہئ امتیاز رہا ہے۔میں نے جب ان سے کہا کہ آپ کی صحت یابی کے لیے بے شمار لوگ دعاکررہے ہیں تو برجستہ انھوں نے کہا کہ مگرسننے والا توایک ہی ہے۔بیماری کے عالم میں بھی انھیں اتنی اچھی کیفیت میں دیکھ کر جب میں چلنے لگا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ فاروقی صاحب سے یہ میری آخری ملاقات ہے۔(وہ جو چاند تھا سرآسماں،مرتب اشعرنجمی، ص 486فروری 2021)شمس الرحمن فاروقی ایسے نادر روزگار لوگوں میں تھے جو مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ فاروقی صاحب بلا شبہ ایسے انسانوں میں تھے جن کے بارے میں میر صاحب فرما گئے ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں