ڈاکٹر شبانہ رضوی
ہندوستان کی پہچان اس کی رنگا رنگ تہذیب اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا ہے۔ یہاں ہولی صرف ایک ہندو تہوار نہیں، بلکہ محبت، یگانگت، اور سماجی ہم آہنگی کا ایسا جشن ہے جس میں ہر مذہب، ہر فرقے اور ہر طبقے کے لوگ برابر شریک ہوتے ہیں۔ ہولی کے رنگ نہ صرف فضاؤں میں بکھرتے ہیں بلکہ دلوں کو بھی جوڑتے ہیں، نفرتوں کو مٹاتے ہیں اور انسانیت کے رشتے کو مضبوط کرتے ہیں۔
ویدک روایات سے جُڑا یہ تہوار وقت کے ساتھ ہندوستان کی ملی جُلی ثقافت کا آئینہ دار بن گیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ مغل بادشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہجہان کے دربار میں بھی ہولی کا جشن جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ اردو شاعری میں بھی شاعروں نے ہولی کی گہماگہمی کو بھرپور انداز میں بیان کیا ہے۔
ہولی کے رنگوں میں صوفیوں اور سنتوں کی محبت بھی شامل ہے، جہاں میرا بائی کی بھگتی، خواجہ نظام الدین اولیاء کی صوفیانہ روایات اور گرو نانک کی تعلیمات ایک دوسرے سے جُڑ جاتی ہیں۔ ہولی دراصل ہندوستان کے دل کی دھڑکن ہے، جہاں ہر مذہب، ہر برادری، اور ہر زبان بولنے والے لوگ یکساں جوش و خروش کے ساتھ رنگوں کی بارش میں بھیگتے ہیں۔ یہ صرف ایک تہوار نہیں بلکہ اتحاد اور محبت کی وہ مثال ہے جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو دنیا بھر میں منفرد بناتی ہے۔
مغل دور میں ہولی:
ہولی نہ صرف ہندو مذہب سے وابستہ رہی بلکہ مختلف ادوار میں ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کا حصہ بھی بنی۔ خاص طور پر مغل دور میں، ہولی کے تہوار کو شاہی سطح پر بھی منایا جاتا تھا۔
بادشاہ اکبر کے دربار میں ہولی بڑے پیمانے پر منائی جاتی تھی، جس میں ہندو اور مسلمان درباری سبھی شریک ہوتے تھے۔
جہانگیر کے دور میں ہولی کی رنگین تقریبات کا ذکر کئی مصورانہ دستاویزات میں ملتا ہے۔
شاہجہان کے وقت ہولی دربار میں ایک جشن کی صورت میں منائی جاتی تھی، جہاں گلاب اور عطر کی خوشبو بکھرتی تھی اور درباریوں کو خاص قسم کے رنگوں سے نوازا جاتا تھا۔
بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں بھی ہولی ایک اہم تہوار کے طور پر جانی جاتی تھی۔ ان کی شاعری میں بھی اس تہوار کی جھلکیاں ملتی ہیں۔
اردو شاعری میں ہولی
ہولی کا ذکر اردو شاعری میں مختلف انداز میں ہوا ہے، جہاں یہ کبھی محبت کا استعارہ بنی، کبھی صوفیانہ عقیدت کی علامت، اور کبھی ہندوستانی ثقافت کی نمائندہ حیثیت اختیار کر گئی۔
نظیر اکبرآبادی
نظیر اکبرآبادی، جو عوامی شاعر تھے، نے اپنی نظموں میں ہولی کو بھرپور انداز میں بیان کیا ہے:
ہولی کی نظیرؔ اب جو بہاریں ہیں اہاہا
محبوب رنگیلوں کی قطاریں ہیں اہاہا
کپڑوں پہ جمی رنگ کی دھاریں ہیں اہاہا
سب ہولی ہے ہولی ہی پکارے ہیں اہاہا
کیا عیش ہے کیا رنگ ہے کیا ڈھنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
یہ اشعار ہولی کی اصل روح، یعنی ناراضگیوں کو ختم کر کے محبت اور یگانگت کے رنگ بکھیرنے کی عکاسی کرتے ہیں:
میاں تو ہم سے نہ رکھ کچھ غبار ہولی میں
کہ روٹھے ملتے ہیں آپس میں یار ہولی میں
مچی ہے رنگ کی کیسی بہار ہولی میں
ہوا ہے زور چمن آشکار ہولی میں
عجب یہ ہند کی دیکھی بہار ہولی میں
میر تقی میر: ہولی کی لطافت اور حسن
میر تقی میر اپنی شاعری میں زندگی کے مختلف رنگوں کی جھلک پیش کرتے ہیں، اور ہولی کی خوشبو ان کے اشعار میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے:
سینکڑوں پھولوں کی چھڑی کے ساتھ
قمقمے جو گلال کے مارے
مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے
خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں
گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں
جشن نوروز ہند ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
لالہ مادھو رام جوہر: فطری حسن اور بسنت کی جھلک
منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال
ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی
مصور سبزواری: چھیڑ چھاڑ اور شوخی بھری ہولی
سجنی کی آنکھوں میں چھپ کر جب جھانکا
بن ہولی کھیلے ہی ساجن بھیگ گیا
مصحفی غلام ہمدانی: روایت اور ثقافت کی عکاسی
موسم ہولی ہے دن آئے ہیں رنگ اور راگ کے
ہم سے تم کچھ مانگنے آؤ بہانے پھاگ کے
حسرت موہانی: کلاسیکی انداز میں ہولی کی منظر کشی
بنتی کرت ہوں تہاری
پنیا بھرن کا جائے نہ دیہیں
شیام بھرے پچکاری
تھر تھر کانپن لاجن حسرت
دیکھت ہیں نرناری
ناصر امروہوی
تیرے گالوں پہ جب گلال لگا
یہ جہاں مجھ کو لال لال لگا
فائز دہلوی
وہ تماشا و کھیل ہولی کا
سب کے تن رخت کیسری ہے یاد
افق لکھنوی
ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی
ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی
امام بخش ناسخ
غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے
ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ
مذکورہ اشعار میں شاعروں نے ہولی کی مختلف کیفیات کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ کسی نے اس تہوار کی اصل روح کو اجاگر کیا، جہاں ناراضگیاں ختم کر کے محبت اور یگانگت کے رنگ بکھیرے جاتے ہیں، تو کسی نے فطرت کے حسن اور بسنت کے موسم کی رنگینیوں کو بیان کیا، جب قدرت بھی خوشی مناتی ہے۔ کچھ اشعار میں ہولی کی شوخی، مستی اور چھیڑ چھاڑ کے دلکش مناظر نظر آتے ہیں، جہاں محبوب کے ساتھ ہنسی مذاق اور رنگوں کی شرارت محبت کے جذبات کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔ اسی طرح، کچھ شاعروں نے قدیم روایات کا ذکر کیا ہے، جب لوگ رنگوں میں نہا کر، گیت گا کر اور ایک دوسرے کو خوشیوں کے رنگ میں رنگ کر اس تہوار کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ یوں یہ اشعار ہولی کے مختلف پہلوؤں کو ایک خوبصورت رنگ میں پیش کرتے ہیں۔
ہولی اور صوفی روایت
ہولی کا تہوار صوفیانہ محبت، بھائی چارے اور انسانی یگانگت کے فلسفے سے جُڑا ہوا ہے۔ صوفیائے کرام نے اسے عشقِ الٰہی اور روحانی وجدانی کیفیت کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا، جہاں دنیا کے تمام رنگ درحقیقت محبت، ایثار اور قربانی کے رنگ بن جاتے ہیں۔ صوفیانہ روایت میں ہولی کی رنگینی کو عشقِ حقیقی کی تجلیات کے طور پر دیکھا گیا ہے، جہاں ہر رنگ حق کی تلاش اور حقیقت کے اظہار کی علامت بن کر روحانی مسرت کا احساس دلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگانِ دین نے ہولی کو محض ایک تہوار نہیں بلکہ وحدت اور اخوت کے پیغام کے طور پر اپنایا۔
صوفیائے کرام کی تعلیمات ہمیشہ محبت، رواداری اور بھائی چارے کی داعی رہی ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے محبوب مرید امیر خسرو نے ہولی کے موقع پر جو نغمے تخلیق کیے، وہ آج بھی عوام و خواص میں یکساں مقبول ہیں:
آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری
میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری
یہ صوفیانہ کلام درحقیقت ہولی کے ذریعے عشقِ حقیقی کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس میں نہ صرف دنیاوی محبت بلکہ روحانی سرشاری کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے۔ صوفی روایت میں ہولی کو ظاہری رنگوں سے زیادہ باطنی کیفیت کا استعارہ سمجھا گیا، جہاں انسان محبت کے رنگ میں ایسا رنگا جاتا ہے کہ اس کی ہستی فنا ہو کر عشقِ الٰہی میں ڈھل جاتی ہے۔
بلھے شاہ،جو ایک عظیم صوفی شاعر تھے، نے اپنی شاعری میں وحدت الوجود، عشق الٰہی، اور صوفیانہ فلسفے کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
نام نبیؐ کی رتن چڑھی بوند پڑی اللہ اللہ
رنگ رنگیلی اوہی کھلاوے جو سکھی ہووے فنا فی اللہ
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
الست بربکم پیتم بولے سب سکھیاں نے گنگھٹ کھولے
قالو بلیٰ ہی یوں کر بولے لا الہ الا اللہ
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
نحن اقرب کی بنسی بجائی من عرف نفسہ کی کوک سنائی
فثم وجہ اللہ کی دھوم مچائی وچ دربار رسول اللہ
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
ہاتھ جوڑ کر پاؤں پڑوں گی عاجز ہو کر بنتی کروں گی
جھگڑا کر بھر جھولی لوں گی نور محمد صلی اللہ
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
یہ نظم ہولی کے رنگوں کو روحانی رنگ میں پیش کرتی ہے، جہاں "بسم اللہ" کہہ کر ہولی کھیلنے کا ذکر کیا گیا ہے، جو صوفیانہ طرزِ فکر اور روحانی سرمستی کی علامت ہے۔
ہولی اور سماجی ہم آہنگی
ہولی ایک ایسا تہوار ہے جو سماجی تفریق کو ختم کر کے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ یہ تہوار سماج میں مساوات پیدا کرتا ہے، جہاں ہر شخص محبت اور رنگوں کے بندھن میں بندھ جاتا ہے۔
تکمیل رضوی لکھنوی
رنگین فضاؤں میں ہے مسرور کی ہولی
اپنے ہی پسینے سے ہے مزدور کی ہولی
ہر رنگ میں ہم رنگ رہو رنگ یہی ہے
دل دل سے ملیں ہے یہی جمہور کی ہولی
ہولی محض ایک تہوار نہیں، بلکہ محبت، بھائی چارے اور رواداری کا رنگین استعارہ ہے، جو مذہب سے بالاتر ہو کر تمام ہندوستانیوں کے لیے ایک مشترکہ تہذیبی ورثہ بن چکا ہے۔ اردو شاعری میں اس کا ذکر مختلف انداز میں ملتا ہے، جہاں یہ سبق دیا گیا ہے کہ رنگ صرف باہر نہیں، بلکہ دلوں میں بھی بکھرنے چاہئیں تاکہ نفرتیں ختم ہوں اور محبت کے رنگ غالب آئیں۔ یہ تہوار خوشیوں کو بانٹنے، دلوں کو جوڑنے اور زندگی کی خوبصورتی کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہولی کا دہن یاد دلاتا ہے کہ غرور، ظلم اور برے خیالات کا انجام ہمیشہ تباہی ہوتا ہے، جبکہ اس کے رنگ اتحاد اور سماجی ہم آہنگی کا درس دیتے ہیں۔ اردو شاعری میں ہولی کی روایت ہمیشہ محبت، یگانگت اور میل جول کی علامت رہی ہے، اور یہی جذبہ سماج کو ایک خوبصورت اور رنگین تصویر کی مانند بنا سکتا ہے، جہاں سب مل کر خوشیوں کو بانٹ سکیں۔