عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی
لکھنؤ کیمپس ۔لکھنؤ
تاج المدارس’دارالعلوم ندوۃ العلماء‘ گومتی ندی کے کنارے پرآباددینی شعوراور طرزنوع سے آہنگ مسلمانوں کی فکری قوت اور ملی حمیت کا استعارہ ہے۔ یہ مسلمانوں بلکہ پوری دنیا میں وطنِ عزیز ہندستان کی سربلندی کی علامت ہے۔ اس تعلیمی ادارہ نے سرزمین ہند کو علامہ سیدسلیمان ندوی،مولانا عبدالسلام ندوی،شاہ معین الدین احمدندوی،مولانا عبدالباری ندوی،مولانامسعود عالم ندوی،مولانا ابواللیث ندوی،مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولانا عبداللہ عباس ندوی،مولانا ابو الجلال ندوی وغیرہ جیسی نابغہئ روزگار شخصیات فراہم کی ہیں، جو رشکِ عالم بھی اور رشکِ ہندوستان بھی۔
.webp)
ندوۃ کے تشکیلی مظاہر کا ایک روشن باب ندوۃ العلماء کی ’علامہ شبلی نعمانی لائبریری ہے۔ ندوۃ العلما کے قیام می علامہ شبلی نعمانی کی حیثیت ایک مؤسس کی ہے۔ مولانا محمد علی مونگیری کی آواز پر تحریک ندوۃ العلما کا ساتھ جن لوگوں نے دیا اور اس کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا،ان کی وابستگی خود اس ادارے کی عظمت کا پتہ دیتی ہے۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا حافظ شاہ محمد حسین طالب آبادی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمود الحسن، حکیم فخرالحسن گنگوہی، شاہ سلیمان پھلواروی ہندستان کی تاریخ میں ایسے نام ہیں جنہیں پورا ملک عظمت و تقدس کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ندوہ العلماء کی تحریک کا اصل مقصد مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کی تجدید اور علماء کے مختلف طبقات کے مابین اتحاد و اتفاق ہے۔ اس میں، وہ اس حد تک کامیاب ہوئے کہ ندوہ کچھ ہی برسوں میں ہندستانی مسلمانوں کا ایسا مشترکہ پلیٹ فارم بن گیا تھاجہاں قدیم و جدید، مسالک و مکاتب اور مشرق ومغرب کی ساری اصطلاحی بے معنی ہوکر رہ گئیں۔اپنے نصابِ تعلیم، رجحانات اور تجدیدی تصورات کی بنا پر ندوہ کو قدیم و جدید کا سنگم کہا جاتا ہے۔
ندوہ کے احاطے کے میں تعلیم و تربیت کی جدید اور موثر سہولیات کے علاوہ طلباء کے لیے ضروریات زندگی کی دوسری سہولتیں بھی موجود ہیں۔ کھیل کود اور تفریح کے لیے ایک وسیع میدان بھی ہے جہاں طلبہ مختلف قسم کے کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں البتہ طلباء کی اکثریت گومتی کے کنارے کنارے سیر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ عصر کے بعد اس ندی کے کنارے بہترین وضع کے لباس میں ملبوس طلباء جب چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں سیر کے لیے نکلتے ہیں تو لگتا ہے کہ اودھ کی شام پر ندوہ کی سفیدی غالب آگئی ہے۔
ندوہ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں اسلامی علوم کے مطالعے اور اس کی تحقیق کے لیے ایک عظیم الشان لائبریری موجود ہے۔ یہ لائبریری ”کتب خانہ علامہ شبلی نعمانی“کے نام سے ہے۔اس وقت لائبریری میں دولاکھ سے زائد کتابیں اور 5 ہزار سے زیادہ قلمی نسخے موجود ہیں۔بے شمار عربی اور اردو کے رسائل و جرائد کی فائلیں اس پرمستزادہیں۔ ندوہ کے قیام کان پور سے ہی لائبریری کے لیے کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ابتدا میں فقہ کی کچھ کتابیں تھیں۔ 1899میں اجلاس ندوہ (شاہ جہاں پور)کے موقع پر ڈپٹی مولوی عبدالرافع خاں نے اپنا موروثی کتب خانہ جو تین ہزار کتابوں پر مشتمل تھا ادارہ کو عطیہ کردیا۔اجلاس پٹنہ کے موقع پر مولوی سیدعبدالغنی وارثی بہاری نے اپنی کتابوں کا ایک بڑا حصہ جن میں زیادہ تر کتابیں تاریخ اور محاضرات کےموضوع پر تھیں ندوہ کوعطیہ کیا۔سید سلیمان ندوی کے بقول اسی زمانے میں کچھ اور صاحبان علم نے اپنے بزرگوں کے علمی سرمایے کو ندوہ کے حوالہ کیا۔ندوہ کا کتب خانہ پہلے گولہ گنج میں واقعہ ندوۃ العلماکے دفتر میں تھا،جسے سید سلیمان ندوی کی تجویز پر 1908میں ندوہ منتقل کیا گیا۔ ندوہ میں شبلی کی آمد سے پہلے کتب خانہ کا یہی کل سرمایہ تھا۔شبلی کی آمد کے بعد اس طرف خاص توجہ دی گئی۔علامہ شبلی کو جس قدر قومی مدرسہ اور قومی کالج کی ضرورت کا احساس تھا، اسی قدر انھیں ایک ”قومی کتب خانہ اعظم“کی تشکیل کی فکربھی دامن گیرتھی بلکہ انھو ں نے اس بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ:”اگر مسلمانوں کے مذہب،مسلمانوں کے علوم،مسلمانوں کی قومی تاریخ کو زندہ رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ ایک ایسا کتب خانہ بہم کیا جائے جس میں مذہبی علوم کے متعلق نادر اور بیش بہاتصانیف موجود ہوں جس میں مسلمانوں کے خاص ایجاد کردہ علوم و فنون کا کافی سرمایہ ہو،جس میں ہر فن کے متعلق وہ تمام کتابیں موجود ہوں جو اس فن کے دور ترقی کے مدارج ہیں،جس میں قدما کے عہد کی یادگاریں ہوں اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ کتب خانہ کسی کا ذاتی نہ ہو بلکہ وقف عام ہو تاکہ تمام ہندوستان کے مسلمان اور بالخصوص مصنفین اور اہل قلم اس سے فائدہ اٹھاسکیں“۔
.webp)
قومی کتب خانہ کی حیثیت شبلی کے نزدیک فکریسرچشمہ کی ہے،جسے اس تحریر کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ندوۃ العلما کی لائبریری میں نہ صرف بے شمار علوم وفنون کے کتابیں ہیں بلکہ مراجع و مصادر کا ایک دفتر یہاں موجود ہے۔علامہ شبلی نے سب سے پہلے اپنے کتب خانے کو جو اعظم گڑھ میں تھا اور جس میں مصرو شام اور یورپ کی بہت سی نادر و نایاب کتابیں تھیں اسے ندوہ کے لیے وقف کردیا۔شبلی نے اپنے بعض دوستوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا۔حیدرآباد دکن ہائی کورٹ کے سابق جج نواب سکندر نواز،شمس العلما نواب عزیز جنگ بہادر اور حکیم علی احمد نے اپنی کتابیں ندوہ کو نذر کیں۔حیات شبلی سے معلوم ہوتا ہے کہ 1908میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جج مولوی شرف الدین نے اپنی کتابیں بھیجیں۔اسی برس نواب صدیق حسن کے نواسے سید مرتضی نے اپنے حصے کی کتابیں ندوہ کے حوالے کیں۔نواب عباد جنگ کا کتب خانہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں یورپ کی بہت سی مطبوعات تھیں اسی زمانہ میں ندوہ آیا۔امیٹھی سے مولوی محمد یوسف کا کتب خانہ جس میں بعض قلمی نسخہ بھی تھے 1910میں ندوہ کے کتب خانہ کاحصہ بن گیا۔نواب سیدعلی حسن خاں (1866۔1936)اور ان کی ہمشیرہ (صفیہ بیگم)نے بھی ندوہ کی لائبریری کو اپنی کتابیں عطیہ کیں۔
نواب سیدعلی حسن خاں شبلی کے قدر دانوں میں تھے۔ ان کی دعوت پر شبلی متعدد بار بھوپال گئے تھے۔وہ تحریک ندوۃ العلما کے سرگرم ارکان میں تھے۔علامہ شبلی کے انتقال کے بعدانھوں نے ہی ندوۃ العلما کے اجلاس(چہاردہم۔لکھنؤ 1915)کے موقع پر یہ تجویزپیش کی کہ ندوۃالعلما کے احاطے میں علامہ شبلی کی ایک یادگار قائم ہونی چاہیے اور اس کی بہترین شکل یہی ہے کہ کتب خانے کے لیے ایک عمارت تیار کی جائے اوراسے علامہ شبلی کے نام معنون کیا جائے۔لائبریری کی پانچ منزلہ عمارت کا سنگ بنیاد 1975میں رکھا گیا۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے زمانے میں تعمیر کا کام مکمل ہوا اور پھر تزک و احتشام کے ساتھ1984میں موجودہ لائبریری کا افتتاح ہوا۔
اس لائبریری کو کتابیں عطیہ کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس میں مقتدر اور اہم لوگوں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی شامل ہیں اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔نواب سعید احمد خاں بہادر کا کتب خانہ بھی ندوہ کی لائبریری کا حصہ بن گیا۔واضح رہے کہ یہ وہی کتب خانہ ہے جس کی مدد سے الیٹ نے تاریخ ہند لکھی تھی۔نواب عماد الملک مولوی سید حسین بلگرامی نے 1911میں اپنا کتاب خانہ ندوہ کے حوالہ کردیا۔اس کتب خانہ میں انگریزی اور عربی کتابوں کا بڑا سرمایہ تھا۔ان کتابوں کو حیدر آبادسے لانے کے لیے مولانا سید سلیمان ندوی کو بھیجا گیا تھا۔ندوۃ العلما کی لائبریری کے باب میں علامہ شبلی کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
عطیات کے علاوہ نئی کتابوں کی خریداری کا سلسلہ بھی شروع فرمایا۔مختلف مدوں سے وہ کتب خانے کے لیے روپیہ الگ رکھتے تھے جب کوئی نئی کتاب چھپتی اور اس کانا م مصری رسالوں اور فہرستوں میں پڑھتے تو مجھے ان کو منگوانے کی ہدایت فرماتے اور وہ منگوائی جاتی،اس طرح 1909تک کتب خانہ میں جو سرمایہ فراہم ہوا تھا اس کی تعداد 6282تھی اور 1913میں جب وہ ندوہ سے الگ ہوئے ہیں،یہ تعداد دونی ہوگئی تھی،یعنی 2105اور اب یہ تعداد تگنی ہوگئی ہے“۔(حیات شبلی،سید سلیمان ندوی ص 347۔اکتوبر 2008)
اس علمی ذخیرے میں بھوپال کے نواب صدیق حسن خاں اور مولانا حکیم سید عبدالحئی جیسے افراد کے عطیات بھی شامل ہیں۔یہاں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبان میں اسلامی تاریخ، عربی ادب، تصوف اور تفسیر و احادیث کے موضوعات پر انتہائی نادر و نایاب کتابیں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1899 کے کسی اجلاس میں اس وقت شہر گونڈہ کے ڈپٹی کلکٹر عبدالرافع نے اپنا نفیس کتب خانہ جس کی مالیت تخمیناً دس ہزار روپے تھی، ندوہ کو ہدیۃً دے دیا تھا۔
.webp)
یہ لائبریری نادر و نایاب کتابوں اور مراجع و مصادر کامجموعہ کہی جاسکتی ہے۔اردو کی بہت سی نادر کتابیں ہیں۔مصحفی کے تذکرہ ہندی کا ایک ایسا قدیم نسخہ بھی ہے جس پر بعض جگہ مصحفی کے قلم سے اصلاحات و ترمیمات کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ دیوان برہمن،دیوان صبااور دیوان شیدا جیسے اہم نسخے موجود ہیں۔شاہنامہ فردوسی کا ایک مصور نسخہ اور عجائب المخلوقات کامصور نسخہ بھی یہاں پردستیاب ہے۔سررضاعلی کی خود نوشت ”اعمال نامہ“کے متعدد دیدہ زیب ایڈیشن لائبریری میں موجود ہیں۔یہاں کے ذخیرہ مخطوطات میں عربی و فارسی کی بہت سے قدیم مخطوطات ہیں۔ان میں المحاکمات (777ھ)چوتھی صدی ہجری کی ایک اہم شخصیت حکیم ناصر خسرو کی تھی۔ان کی متعدد یادگار کتابیں ہیں۔سفرنامہ ناصر خسرو (1006ھ)ان کے سات سالہ سفر کےدوران بے شمار شہروں،علاقوں،مدارس اور خانقاہوں وغیرہ کے دلچسپ واقعات اس میں درج ہیں۔ مغلیہ دور کی ایک کتاب ”قاموس“کا شاہی نسخہ بھی یہاں موجود ہے۔جس پر مغلیہ بادشاہوں کی مہریں ثبت ہیں۔
اردو کی بہت سی کتابوں کے نادرو نایاب نسخوں کے متعدد ایڈیشن بھی یہاں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔علامہ شبلی جب معتمد تعلیم تھے تو انھوں نے یہاں کے نصاب میں سائنسی علوم اور ایجادات سے متعلق ایک کتاب ”الدروس الاولیہ فی الفلسفۃ الطبیعہ“کے نام سے شامل کی تھی۔ الن جیکسن نامی عیسائی مستشرق کی عربی زبان میں لکھی ہوئی اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن (1892)یہاں موجود ہے۔اس کتاب کا مطالعہ دلچسی سے خالی نہ ہوگا۔دارالمصنفین کے رفیق مولانا کلیم صفات اصلاحی نے اس کتاب کا عمدہ تعارف کرایا ہے (ملاحظہ ہو عرفان شبلی از کلیم صفات اصلاحی)۔اردو،عربی،فارسی،ہندی میں 58فنون پر کتابیں یہاں موجود ہیں۔
ندوۃ العلما کی لائبریری سے متعلق فروری 1906میں ”الندوہ“ میں مولانا ابو الکلام آزاد نے ایک اپیل جاری کی تھی اس میں مولانا نے لائبریری کی چندنادر کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھا تھا:
”امین رازی کا تذکرہ شعراء فارسی کے بہترین تذکروں میں ایک ممتاز تذکرہ ہے،جو اور تذکروں کی طرح اس وقت تک حلیہ طباعت سے محروم رہا مگر ندوہ العلما کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔...دارلعلوم کے کتب خانہ میں چند کتابیں ایسی موجود ہیں جن سے ہماری معلومات میں بہت کچھ اضافہ ہوسکتا ہے۔اکبر کے علاوہ شاہجہانی دور میں بھی سنسکرت سے کتابیں ترجمہ کی گئیں۔جن میں سے فن موسیقی کے متعلق مبسوط کتاب دارلعلوم کی بدولت ہمارے پیش نظر ہے۔فن موسیقی کے علاوہ موسیقی کے باکمالوں کا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔...حجۃ الاسلام غزالی کی تصنیفات میں ”جواہرالقرآن“ایک بے نظیر کتاب ہے جو اگرچہ چھپ کر شائع ہوچکی ہے مگرکامل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے علمی اشتیاق کو پورا نہیں کرسکتی۔سید صاحب نے جواہر القران کا ایک قلمی نسخہ عنایت فرمایا ہے جو صحیح اور صاف ہونے کے ساتھ مکمل بھی ہے“۔
لائبریری کے ذمہ داروں نے وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے اس سے استفادہ کی صورتوں کو بہتر سے بہتر بنایا۔ ڈیجٹل کے اس دور میں یہاں کی لائبریری سے استفادہ کرنا آسان ہے۔کتابوں کی تلاش و جستجو کے لیے قدیم طریقہ یعنی کار ڈ سسٹم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹرائز سہولت بھی ہے۔ اسکالر کے لیے خاصی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔کسی موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے اس لائبریری سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہاں ایک کتاب کے متعدد نسخے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ڈاکٹریٹ کے بہت سے قدیم مقالے اصلی حالت میں یہاں دستیاب ہیں۔لائبریری کی آن لائن سہولت اور دیگر ڈیجیٹل سہولت کے باوجود اس لائبریری کا بدل نہیں ہے۔مولانا محمد فیضان نگرامی ندوی جو کہ کتاب خانہ علامہ شبلی نعمانی کے ناظر ہیں انھوں نے 28صفحات پر مشتمل لائبریری کا ایک تعارف بھی تیار کیا ہے جو خاصا معلوماتی ہے۔راقم نے نہ صرف اس سے استفادہ کیا ہے بلکہ اس کی معلومات بھی یہاں شامل کی گئی ہیں۔علامہ شبلی کے نام نامی سے منسوب یہ کتب خانہ ندوۃ العلما کے فکری منشورکی علامت ہے۔