ڈاکٹر شبانہ رضوی
13 رجب اسلامی تاریخ کا ایک ایسا دن ہے جو بے نظیر حیثیت رکھتا ہے۔ جب کائنات نے ایک عظیم المرتبت ہستی کی آمد کا مشاہدہ کیا۔ یہ وہ دن ہے جب خانہ کعبہ، جو توحید کا مقدس مرکز ہے، حضرت علیؑ کی ولادت کے لیے منتخب ہوا۔حضرت علیؑ کی ولادت 13 رجب کو خانہ کعبہ کے اندر ہوئی، جو آپ کی شان اور مرتبے کو ظاہر کرتی ہے۔ تاریخ میں یہ منفرد واقعہ کسی اور کے ساتھ نہیں ہوا۔ آپ کی والدہ، جناب فاطمہ بنت اسد، خانہ کعبہ میں داخل ہوئیں اور اللہ کے حکم سے وہاں آپ کی ولادت ہوئی۔یہ واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ حضرت علیؑ کا تعلق نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی توحید اور دینِ اسلام کی بنیادوں سے مضبوط ہے۔
حضرت علیؑ وہ خوش نصیب ہستی ہیں جنہوں نے اپنی آنکھیں رسول اللہﷺ کی آغوش میں کھولیں۔ آپؑ نے اپنی ابتدائی زندگی رسول اللہﷺ کے زیر سایہ گزاری اور علم، اخلاق، اور روحانیت کی وہ تعلیمات حاصل کیں جو بعد میں امتِ مسلمہ کے لیے مشعل راہ بنیں۔حضرت علیؑ کی یہ منفرد ولادت اور آپ کی زندگی کا آغاز اس بات کی علامت ہے کہ آپؑ کا ہر پہلو اسلام کی خدمت اور حق کے قیام کے لیے وقف تھا۔ 13 رجب کا یہ مبارک دن حضرت علیؑ کی عظمت اور کردار کو یاد کرنے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
مختصر تعارف:
حضرت علیؑ، رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ آپؑ کی شخصیت تاریخِ اسلام میں بے مثال ہے۔ آپؑ کو ’’امیرالمومنین‘‘، ’’اسد اللہ‘‘ اور ’’بابِ مدینہ العلم‘‘ جیسے القابات سے نوازا گیا۔ حضرت علیؑ نے اپنی پوری زندگی دینِ اسلام کی خدمت اور حفاظت میں گزاری۔ آپؑ کی زندگی شجاعت، علم، عبادت، اور عدل و انصاف کا کامل نمونہ ہے۔حضرت علیؑ کا تعلق قریش قبیلے کی معزز شاخ بنی ہاشم سے تھا۔ آپؑ کے والد حضرت ابوطالبؑ، نبی کریمﷺ کے چچا اور آپؑ کے بڑے حامی تھے۔ آپؑ کی والدہ فاطمہ بنت اسدؑ تھیں، جنہوں نے نبی اکرمﷺ کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔ آپؑ کے خاندان کو علم، سخاوت اور شجاعت میں منفرد مقام حاصل تھا۔حضرت علیؑ کی ابتدائی زندگی میں کئی واقعات نے آپ کی شخصیت کو نمایاں کیا، جن میں غارِ حرا میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ وقت گزارنا اور مکہ میں اسلام کے ابتدائی دور میں رسول اللہﷺ کا ساتھ دینا شامل ہیں۔
خلافت اور حکمرانی کے اصول:
حضرت علیؑ کا انتخاب خلافت کے لیے نبی اکرمﷺ کی وصیت اور غدیر خم کے واقعے کی بنیاد پر ہوا۔ غدیر خم کے خطبے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
"مَن کُنتُ مَولاهُ فَهذا علیٌّ مَولاهُ"
(منابع: کتاب "الغدیر" از علامہ امینی، جلد 1)
رسول اللہﷺ نے حضرت علیؑ کو دین کا وارث اور مسلمانوں کا قائد مقرر کیا تھا، مگر خلافت ظاہری طور پر آپؑ کے لیے تاخیر کا شکار ہوئی۔ عثمان بن عفان کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے حضرت علیؑ سے خلافت قبول کرنے کی درخواست کی، جسے آپؑ نے امت کے اتحاد کی خاطر قبول کیا۔
عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی کی جھلک:
حضرت علیؑ کی حکمرانی عدل و انصاف کی بنیاد پر تھی، جیسا کہ آپؑ کا مشہور خط جو آپ نے مالک اشتر کو لکھا:
"لوگ دو قسم کے ہیں: یا تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں یا تمہارے جیسے انسان ہیں۔"
(منبع: "نہج البلاغہ"، خط نمبر 53)
آپؑ نے بیت المال کی تقسیم میں مساوات پر زور دیا اور کسی کو بھی ذاتی حیثیت میں فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ آپؑ کے دور میں عدلیہ آزاد تھی، اور انصاف کے قیام کے لیے آپؑ خود نمونہ تھے۔ آپؑ نے فقراء، یتیموں، اور مظلوموں کے حقوق کے تحفظ کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح بنایا۔
اختلافات اور جنگوں کا سامنا: جمل، صفین اور نہروان کی جنگیں
حضرت علیؑ کو اپنے دورِ خلافت میں کئی داخلی اختلافات اور فتنوں کا سامنا کرنا پڑا:
جنگِ جمل:
یہ جنگ حضرت عائشہؓ، طلحہؓ، اور زبیرؓ کی قیادت میں بصرہ میں ہوئی۔ حضرت علیؑ نے اس جنگ کو امت کے اتحاد کے لیے ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن فریقِ مخالف کے اصرار پر جنگ ناگزیر ہو گئی۔ آپؑ نے فتح کے بعد معافی اور مصالحت کا راستہ اپنایا۔
(منبع: "الامامة والسياسة" از ابن قتیبہ، جلد 1)
جنگِ صفین:
یہ جنگ حضرت معاویہ کے ساتھ ہوئی، جو شام کے گورنر تھے اور عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے کے بہانے آپؑ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ جنگ کے دوران حکمیت کا واقعہ پیش آیا، جو مسلمانوں میں مزید انتشار کا سبب بنا۔
(منابع: "تاریخ طبری"، جلد 4؛ "نہج البلاغہ")
جنگِ نہروان:
یہ جنگ خوارج کے ساتھ ہوئی، جو حضرت علیؑ کے خلاف بغاوت پر اتر آئے تھے۔ آپؑ نے ان سے بارہا بات چیت کی کوشش کی، لیکن جب وہ ظلم و فساد پر اتر آئے تو آپؑ نے جنگ کا فیصلہ کیا۔
(منبع: "تاریخ یعقوبی"، جلد 2)
حضرت علیؑ کے حکمرانی کے اصول اور طرزِ خلافت آج بھی عدل و انصاف کی مثال ہیں۔ آپؑ کی حیاتِ طیبہ سے ہمیں دین، سیاست، اور اخلاق کا بہترین سبق ملتا ہے۔
علم اور حکمت:
آپ کے فرمودات اور حکیمانہ اقوال
حضرت علیؑ کو "بابِ مدینہ العلم" کہا جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"أنا مدینة العلم وعلیٌّ بابُها"
(منبع: مستدرک حاکم، جلد 3، صفحہ 126)
حضرت علیؑ نے ہمیشہ علم و حکمت کو دین اور دنیا کی کامیابی کی بنیاد قرار دیا۔ آپ کے فرمودات میں علم کی اہمیت، انسان کی کامیابی، اور معرفتِ الٰہی کے لیے حکمت کے اصول واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:
"علم مال سے بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے، جب کہ مال کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے۔"
(منبع: نہج البلاغہ، حکمت 147)
نہج البلاغہ:آپ کے خطبات، خطوط اور اقوال کی کتاب
نہج البلاغہ حضرت علیؑ کے خطبات، خطوط، اور حکیمانہ اقوال کا مجموعہ ہے، جو سید رضی نے جمع کیا۔ یہ کتاب اسلامی فلسفہ، حکمت، سیاست، اور اخلاقیات کا شاہکار ہے۔
خطبات:دین کی تبلیغ، عدل و انصاف، اور انسانی حقوق پر مبنی ہیں۔
خطوط: گورنرز اور عوام کے لیے اصولی رہنمائی فراہم کرتے ہیں، جیسے مالک اشتر کے لیے مشہور خط۔
اقوال: زندگی کے ہر پہلو پر گہرے فلسفیانہ نکات پیش کرتے ہیں، جیسے حکمت، صبر، اور شکرگزاری۔
(منبع: نہج البلاغہ، سید رضی)
فقہ اور اسلامی تعلیمات میں آپ کی شراکت:
حضرت علیؑ نے اسلامی قانون (فقہ) اور تعلیمات کی بنیاد رکھی۔ آپ نے قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح میں گہرا علم پیش کیا۔ آپؑ کے فیصلے اور اجتہادات اسلامی فقہ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپؑ نے فرمایا:
"قرآن میں ہر چیز کا جواب موجود ہے، لیکن اسے سمجھنے کے لیے عقل اور تدبر کی ضرورت ہے۔"
(منبع: نہج البلاغہ)
اخلاقی تعلیمات: تقویٰ، عبادت اور زہد کی مثال
حضرت علیؑ زہد و تقویٰ کی زندہ مثال تھے۔ آپؑ راتوں کو عبادت میں گزار دیتے اور دنیاوی مال و دولت کو کبھی ترجیح نہیں دی۔ آپؑ نے فرمایا:
"دنیا ایک زہر ہے، اسے وہی کھاتا ہے جو جاہل ہو۔"
(منبع: نہج البلاغہ، حکمت 131)
صبر، شجاعت اور عفو و درگزر کی اعلیٰ مثالیں :
حضرت علیؑ کی شجاعت جنگ بدر، احد، خندق، اور خیبر میں نمایاں تھی، جہاں آپؑ نے اسلام کے دفاع میں عظیم قربانیاں دیں۔ باوجود شجاعت کے، آپؑ عفو و درگزر میں بھی بے مثال تھے۔ جنگِ جمل کے بعد آپؑ نے فرمایا:
"میں نے تمہیں معاف کر دیا، کیونکہ میرا مقصد انتقام نہیں بلکہ اصلاح ہے۔"
(منبع: تاریخِ طبری)
عام لوگوں کے ساتھ برتاؤ:مساوات اور انسانی حقوق
حضرت علیؑ نے ہمیشہ مساوات اور انسانی حقوق کی پاسداری کی۔ آپؑ کے نزدیک سب انسان برابر تھے.آپؑ نے فقراء، یتیموں، اور غلاموں کے حقوق کی حفاظت کی اور ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ آپؑ نے حکم دیا کہ کسی بھی گورنر کو عوام پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حضرت علیؑ کی زندگی اور تعلیمات آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں، جو دین، اخلاق، اور حکمت کی عظیم مثال پیش کرتی ہیں۔
حضرت علیؑ کی شجاعت:
غزوہ بدر، احد، خندق اور خیبر میں بہادری کے قصے
حضرت علیؑ کی شجاعت اسلامی تاریخ میں ایک بے مثال حقیقت ہے۔ آپؑ کی بہادری ہر غزوہ میں نمایاں رہی، اور آپؑ نے ہمیشہ دینِ اسلام کے دفاع کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔
غزوہ بدر:
غزوہ بدر میں حضرت علیؑ نے کفار کے بڑے بڑے جنگجوؤں کو شکست دی، جن میں ولید بن عتبہ بھی شامل تھا۔ آپؑ نے میدانِ جنگ میں اپنی بہادری سے اسلام کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔
(منبع: سیرت ابن ہشام، جلد 2)
غزوہ احد:
غزوہ احد میں جب مسلمانوں کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی، حضرت علیؑ نے رسول اللہﷺ کے گرد ڈٹ کر دفاع کیا۔ آپؑ نے کئی کفار کو قتل کیا اور اپنی شجاعت سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند کیا۔
(منبع: تاریخ طبری، جلد 3)
غزوہ خندق:
غزوہ خندق میں عرب کے مشہور پہلوان عمرو بن عبدود نے مسلمانوں کو مقابلے کا چیلنج دیا۔ حضرت علیؑ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور چند لمحوں میں عمرو کو شکست دے کر اسلام کی عزت کو بلند کیا۔
(منبع: نہج البلاغہ، خطبات)
غزوہ خیبر:
غزوہ خیبر میں حضرت علیؑ نے ایسی شجاعت دکھائی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"کل میں اس شخص کو علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔"
حضرت علیؑ نے خیبر کے قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر کفار کو شکست دی۔
(منبع: صحیح مسلم، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2406)
"ذوالفقار" تلوار اور خیبر کے دروازے کا واقعہ:
"ذوالفقار" حضرت علیؑ کی مشہور تلوار تھی، جو آپؑ کی شجاعت اور بہادری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ غزوہ بدر اور دیگر جنگوں میں یہ تلوار دشمنوں کے لیے قہر بن کر نازل ہوئی
خیبر کے دروازے کا واقعہ:
غزوہ خیبر میں جب قلعہ قموص فتح نہ ہو سکا تو رسول اللہﷺ نے حضرت علیؑ کو بلایا۔ آپؑ نے اللہ کا نام لے کر حملہ کیا اور قلعے کا بھاری دروازہ اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ دیا۔ آپؑ نے اس دروازے کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ اس واقعے نے حضرت علیؑ کی غیر معمولی جسمانی قوت اور اللہ پر توکل کو ظاہر کیا۔
(منبع: مستدرک حاکم، جلد 3، حدیث نمبر 4850)
حضرت علیؑ کی شجاعت کی یہ داستانیں نہ صرف مسلمانوں کے لیے حوصلے کا ذریعہ ہیں بلکہ اسلام کے دفاع میں آپؑ کی قربانیوں کا زندہ ثبوت بھی ہیں۔
حضرت علیؑ کی تعلیمات:آج کے دور کے لیے رہنمائی
عدل، مساوات اور اتحاد کی تعلیمات
حضرت علیؑ کی زندگی عدل و انصاف، مساوات، اور اتحاد کی عملی مثال ہے۔ آپؑ نے فرمایا:
"عدل سب سے اعلیٰ فضیلت ہے، کیونکہ یہ ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے۔"
(منبع: نہج البلاغہ، حکمت 437)
آپؑ نے اپنے عہدِ خلافت میں عوام کے ساتھ یکساں سلوک کیا اور کسی کو بھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا۔ آپؑ نے فرمایا:
"لوگوں کے ساتھ ایسے برتاؤ کرو جیسے تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں۔"
(منبع: نہج البلاغہ، خط 53)
آپؑ نے مسلمانوں کو اتحاد کی تلقین کی اور فرقہ واریت کو اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔
نوجوانوں کے لیے سبق: علم حاصل کرنا اور حق کے لیے کھڑا ہونا
حضرت علیؑ نے فرمایا:
"علم حاصل کرو، کیونکہ علم دولت سے بہتر ہے۔"
(منبع: نہج البلاغہ، حکمت 147)
آپؑ نے نوجوانوں کو ہمیشہ حق کی حمایت کرنے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی ترغیب دی۔ آپؑ نے فرمایا:
"حق کے لیے کھڑے رہو، چاہے تمہیں تنہا ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔"
(منبع: نہج البلاغہ)
نوجوانوں کے لیے آپؑ کی تعلیمات اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ علم، اخلاق، اور حق پرستی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔
امن اور صلح کی اہمیت:
حضرت علیؑ نے امن اور صلح کو ہمیشہ ترجیح دی۔ آپؑ نے فرمایا:
"اختلافات کو دور کرنے کے لیے سب سے بہترین راستہ صلح ہے۔"
(منبع: نہج البلاغہ، خط 53)
آپؑ نے جنگوں کے باوجود ہمیشہ کوشش کی کہ معاملات بات چیت اور افہام و تفہیم سے حل ہوں۔ جنگِ صفین کے دوران آپؑ نے اپنے ساتھیوں کو امن کی دعوت دی اور فرمایا کہ مسلمانوں کے درمیان خون خرابے سے بچنا ضروری ہے۔
اسلامی تاریخ میں آپ کی خدمات کا مقام:
حضرت علیؑ نے دینِ اسلام کی خدمت میں جو قربانیاں دیں، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ آپؑ کی شجاعت، حکمت، اور قیادت نے اسلام کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ آپؑ کی تعلیمات آج بھی دنیا بھر کے انسانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔حضرت علیؑ کی زندگی درس دیتی ہے کہ عدل، علم، اور انسانیت کی خدمت کے ذریعے دنیا کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ آپؑ کا کردار ایک مشعل راہ ہے جواندھیروں میں روشنی دکھاتا ہے۔
آپ کی شخصیت کو مشعل راہ کے طور پر اپنانے کی ضرورت
حضرت علیؑ کی زندگی انصاف، علم، اخلاق، اور شجاعت کا ایک کامل نمونہ ہے۔ آج کے دور میں جہاں ظلم، ناانصافی، اور فرقہ واریت کا سامنا ہے، حضرت علیؑ کی تعلیمات کو اپنانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ آپؑ نے فرمایا:
"لوگوں کے دل محبت اور انصاف سے جیتے جا سکتے ہیں، نہ کہ سختی سے۔"
(منبع: نہج البلاغہ)