شاعری کے پیکر میں زندگی کی تلخیوں کو ڈھالنے والا --- فہمی بدایونی

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 06-11-2024
  شاعری کے پیکر میں زندگی کی تلخیوں کو ڈھالنے والا --- فہمی بدایونی
شاعری کے پیکر میں زندگی کی تلخیوں کو ڈھالنے والا --- فہمی بدایونی

 

         ڈاکٹر عمیر منظر 

           شعبہ اردو 
      مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
 
 بالٓاخر فہمی بدایونی بھی چلے گئے۔شعرو ادب سے بدایوں کے گہرے تعلق کی ایک جیتی جاگتی نشانی بھی ختم ہوگئی۔اب فانی بدایونی،شکیل بدایونی،عزیز بانو داراب وفا،بیخود بدایونی،محشر بدایونی،عرفان صدیقی،اسد بدایونی وغیرہ کی طرح فہمی بدایونی بھی اردو شاعری کی تاریخ کا ایک روشن حصہ ہوگئے۔

فہمی بدایونی سوشل میڈیا کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر ان کی غزلیں،اشعار اور ان کے ویڈیو خاصی دلچسپی سے دیکھی اور سنی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری کے مختلف پہلو ہیں مگر ان کے اشعار کی نمایاں خوبی سادگی اور ان کا عام فہم ہونا ہے۔لیکن ایک اور وصف جوان کی غزلوں میں پایا جاتا ہے وہ نشتریت اور طنزہے۔یہ کہنا چاہیے کہ اس میں انھیں کمال حاصل تھا۔معاشرہ کی تلخ سچائیوں کو شعر ی پیکر میں بڑی خوبی سے ڈھال دیتے تھے۔کاٹ دار لہجے اور الفاظ کے بے تکلف استعمال کی وجہ سے انھیں مقبولیت اور شہرت دونوں حاصل ہوئی۔ اور ایک بڑے حلقے میں ان کے کلام کو پسند کیا گیا۔

کاش وہ راستے میں مل جائے

مجھ کو منہ پھیر کر گذرنا ہے

 

مرگیا ہم کو ڈانٹے والا

اب شرارت میں جی نہیں لگتا

 

بہت کہتی رہی آندھی سے چڑیا

کہ پہلی بار بچے اڑ رہے ہیں

 

کہاں پہنچائے گی دنیا کو جانے

ذہانت میں جو وحشت مل گئی ہے

 جن مضامین کو نہایت آسانی کے ساتھ ان اشعار میں باندھا گیا ہے عام طورپرلوگوں کی توجہ اس طرف کم جاتی ہے۔دراصل تخلیق کار سماج کا نباض بھی ہوتا ہے۔اور اس کے محسوسا ت سماج سے ہی نمو پاتے ہیں۔جدید شاعری کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ انسانی صورت حال پرسوال قائم کرتی ہے۔اس کے تخئیل سے کوئی چیز پرے نہیں۔وہ سماج کی نت نئی تعمیر بھی اپنی تخلیقات کی روشنی میں کرتا ہے اور اس کو نمو دیتا ہے۔تخلیق دراصل قوت کا سرچشمہ ہے اور اسی سرچشمے کی قوت تخلیق کار کو بلند سے بلند مرتبہ عطاکرتی ہے کہ وہ میر و غالب اور اقبال بن جاتا ہے۔ قوت کی اپنی ایک الگ کشش ہے اس کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔جدید شعرا کی ایک بڑی خوبی یہ بھی رہی ہے کہ انھوں نے بڑے سے بڑے مضامین کوکھلنڈرے اور طنزیہ انداز میں باندھا ہے۔ یا اس میں یہ پہلو نمایاں ہے۔شجاع خاور اور محمد علوی کے یہاں اس کے بہت سی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔اس نوع کے مضامین باندھنے والوں میں بے حد نمایاں نام ظفر اقبال کا ہے۔ ان کے یہاں بھی کھلنڈرانہ پن بہت پایا جاتا ہے۔ لفظوں اور مضامین دونوں سے کھل کھیلنے کا رویہ ان کے یہاں عام ہے۔فہمی بدایونی نے اسی روایت سے فائدہ اٹھایاکیونکہ اردو غزل میں یہ لہجہ نیا نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اس اسلوب اور انداز میں اس سے پہلے شعر نہیں کہے گئے ہیں۔اردو غزل کی سرگرم روایت میں بہت سے تجربے کیے گئے جہاں ایک طرف غزلوں کے اسلوب میں شائستگی کا وقار ان کی پہچان ہے تو دوسری طرف وہ شعرا بھی ہیں جنھوں نے زندگی کی کڑی دھوپ کو وادی غزل کا حصہ بنا یا ہے۔ذات و کائنات کے ایسے کون سے مسائل ہیں جو غزل کا حصہ نہیں بن سکے ہیں یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہ بہر حال اطمینا بخش بات ہے کہ زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا تجربہ ہو جو غزل کے دائرہ بیان سے باہر ہو۔فہمی بدایونی نے غزل کی اسی روایت کو اپنے طورپر کچھ اس طرح برتا کہ اس میں بہت کچھ ایجاد بندہ کے ذیل میں آگیا ہے۔فہمی بدایونی کے یہاں بڑی تعداد میں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جو بقول حسرت

شعر دراصل ہیں وہی حسرت

سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

فہمی بدایونی نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ایک معمولی انسان کے طور پر گذارا۔ان کے یہاں تمکنت اور زندگی کا کروفر نہیں تھا بلکہ وہ ایک عام انسان کی طرح زندگی کے صبح و شام بسرکرتے رہے البتہ ان کی تخلیقی دنیا کا زور بڑھتا رہا اور ان کی غزلیں کمال اور ہنر مندی کا سفر طے کرتی رہیں۔زندگی کے بہت سے تجربوں کو انھوں نے انھوں نے اس طرح برتا ہے کہ اس میں تاسف اور طنزکا رنگ زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ان نوع کے اشعار کے بڑی خوبی یہی ہے کہ فہمی کے تجربوں نے اس ایک رنگ کو اس طرح نمایاں کردیا ہے کہ وہ حسرت کے درج بالاشعر کے ترجمان بن گئے۔

عید کے روز ہم پھٹی چادر

پہلی صف میں بچھا کے بیٹھ گئے

 

جسم لمبے تھے چادریں چھوٹی

رات بھر کھینچ تان چلتی رہی

 

سکوں سے دن گزرتا ہے ہمارا

منگاتے ہی نہیں اخبار کوئی

 

جس کی خاطر چراغ بنتا ہوں

گھورتا ہے وہی ہوا کی طرح

 
 ان اشعار میں کسی بڑے مضمون کو نہیں باندھا گیا ہے اور نہ اس میں ایسا کوئی بڑا فلسفہ ہی ہے بلکہ روزمرہ کے تجربے  سیدھے سیدھے شعری پیکر میں ڈھال دیے گئے ہیں۔پہلے شعر میں پھٹی چادر سے کہیں زیادہ ”پہلی صف“ قابل توجہ ہے۔تشریح کرنا چاہیں تو یہ شعر پورے معاشرے کا المیہ قرار پاسکتا ہے۔یہ بھی قابل توجہ ہے کہ متکلم کسی کی پروا نہیں کرتا اور وہ پھٹی چادر بچھا کر پہلی صف میں بیٹھ جاتا ہے۔اسے ڈھٹائی سے تعبیر بھی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ اب معاشرہ میں وہ حساس لوگ نہیں رہے،جو ایک ایک چیز کی خبر رکھتے تھے اب کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ چاہے کوئی پہلی صف میں آئے یا کہیں اور بیٹھ جائے۔حالانکہ پہلی صف تو سب سے نمایاں ہے۔ایک آسان اور سادہ سے شعرسے اس طرح کے بہت سے مطلب برآمد ہوسکتے ہیں۔اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ شعر ہمارے معاشرے کی بے حسی پر ایک تلخ تبصرہ ہے۔

دوسرے شعر کا دوسرا مصرعہ نہایت بلیغ ہے ”رات بھر کھینچ تان چلتی رہی“۔زندگی ایک کشمکش ہے اور اسی کشمکش کا اظہار یہ شعر ہے۔ذرائع ابلا غ پر اس سے بہتر تبصرہ نہیں ہوسکتا۔حالیہ ایک دہائی کے دوران اظہار وابلاغ کی جو صورت سامنے ہے اس سے کو ن واقف نہیں ہے۔کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ پیسہ دے کر ہم اپنے ہی خلاف ایک محاذ تیار کررہے ہیں۔اس صورت حال پر اس سے بہتر تبصرہ کیا ہوسکتا ہے۔چراغ اور ہوا پر نہ جانے کتنے شعر کہے گئے ہیں۔اور معنی کے بے شمار پہلو نکالے گئے ہیں۔زخم کے مندمل ہونے کی ایک صوررت کو بھی چراغ کہا جاتا ہے۔یہاں اس معنی میں نہیں ہے بلکہ یہاں تو روشنی اور قوت کا استعارہ ہے۔

فہمی بدایونی کی شاعری مشاہدات انسانی اور تجربوں کی ایک جولان گاہ ہے۔ان کی غزلوں کے مطالعہ سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت زاویہ نگاہ رکھنے والے تخلیق کار ہیں۔نگاہ کی یہ ہمہ جہتی دراصل تخلیقی تجربوں کاتنوع ہے جو قاری کو یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔اس کا اندازہ ان اشعار سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

عدالت فرش مقتل دھورہی ہے

اصولوں کی شہادت ہوگئی کیا

 

میں نے مسجد میں جانا چھوڑ دیا

روز مل جاتاہے خدا کوئی

وہ جو پچھلی قطار میں خوش تھا

آگئی آج اس کی باری بھی

 

سارا افسانہ رنگ و بو کا ہے

کچھ نہ نکلا گلاب کے اندر

 

تسلی دے رہے ہیں چارہ گر کو

سمجھ لو حال ہے کیسا ہمارا

 

خالی برتن بجنے لگے تھے

میں نے سب میں مٹی بھر دی

 

سائل سمجھا پیسے دے گا

شیخ نے جب تسیح نکالی

فہمی بدایونی کی مختلف غزلوں کے ان اشعار سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے یہاں اس نوع کے بے شمار ہیں۔مضامین کاتنوع اور اندازو اسلوب دونوں دیدنی ہے۔فہمی کے یہاں عشق و محبت کی دنیا میں بھی ایک الگ طرح کا طنطنہ اور زور ہے۔

وفا کے سفر پر اکیلا نہیں ہوں

میرے ساتھ تیری کمی چل رہی ہے

 

زمانہ ہوگیا دنیائے دل میں

وہی گزرا زمانہ چل رہا ہے

 

عبادت کے طریقے طے شدہ ہیں

محبت میں یہ آسانی نہیں ہے

 

مجھ پہ ہوکر گذر گئی دنیا

میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں

پہلا شعر مضمون آفرینی کی اچھی مثال ہے۔دوسرا شعر بھی کمال کا ہے۔بات صرف اتنی ہے کہ پرانی یادیں دل کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔یادیں کہاں رخصت ہوتی ہیں۔دل کی دنیا یادوں سے عبارت ہوتی ہے بہت کچھ نیا ہوجاتا ہے مگر اس میں وہی سب کچھ پرانا چلتا رہتا ہے۔اسی مضمو ن کو کیا خوب ادا کیا گیا ہے۔صرف دو لفظ عبادت اور محبت سے شعر کو بنایا گیا ہے اور خوب مضمون پیدا کیا ہے۔تمام شعر سادہ اور آسان ہیں مگر ان میں غور وفکر کرنے کے بہت سے اسباب ہیں۔

 
 عشق و محبت کی دنیا کے بہت سے مضامین فہمی بدایونی نے ایک نئے زاویے سے باندھنے کی کوشش کی ہے۔ہجر کے مضمون کو کرفیو سے جوڑ دیا ہے۔نئی امنگوں اور احساسات کو فہمی بدایونی نے اپنے جانے پہچانے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔دراصل ان اشعار میں کوئی نہ کوئی ایسا لفظ ضرور ہے جو پنی طرف توجہ کھینچ لیتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی ایک عمومی پسند بھی سامنے آجاتی ہے۔

نہیں ہو تم تو ایسا لگ رہا ہے

کہ جیسے شہر میں کرفیو لگا ہے

کاش تمہارے پاؤں کا موزہ

فہمی کا دستانہ ہوتا

 

ایک بیمار آرزو دل میں

روز بن ڈھن کے بیٹھ جاتی ہے

 

بلا کی بھیڑ ہے اس کی گلی میں

طرف داروں کی گنتی ہورہی ہے

 

نگاہیں کرتی رہ جاتی ہیں ہجے

وہ جب چہرہ سے املا بولتا ہے

 

پریشاں ہے وہ جھوٹا عشق کرکے

وفاکرنے کی نوبت آگئی ہے

شعروادب کی دنیا میں بہت سے مسائل ادب بھی ہوتے ہیں۔فہمی بدایونی نے اس نوع کے مسائل کو نہ صرف شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے بلکہ اس پر نہایت تلخ تبصرہ بھی کیا ہے۔اس نوع کے بعض اشعار تو بہت مشہور ہیں۔مثلاً

ابھی چمکے نہیں غالب کے جوتے

ابھی نقاد پالش کررہے ہیں

ہمارے ادبی معاشرہ پریہ ایک بلیغ طنز ہے۔اسی طرح ان کا ایک اور شعر ہے جس سے ادبی معاشرہ کی ایک صورت سامنے آتی ہے۔اوپر یہ بات کہی گئی تھی کہ وہ ہمہ جہت زاویہ نگاہ کے مالک ہیں۔ادبی مسائل و معاملات میں بھی ان کے یہاں مختلف صورتیں اسی کی عکاس ہیں۔مثلا ً یہ شعر ملاحظہ کریں۔

سخت مشکل تھا امتحان غزل

میر کی نقل کرکے پاس ہوئے

فہمی بدایونی اگرچہ مشاعروں میں بہت زیادہ مقبولیت یا شہرت نہیں رکھتے تھے۔لیکن ان کے لیے ایک جگہ مخصوص تھی اور اپنے ایک منفردانداز کی وجہ سے بہت پسند کیے جاتے تھے۔زندگی کے سیدھے سادے تجربوں کو وہ جس طرح بیان کرتے تھے اس پر انھیں خوب داد ملتی تھی۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مشاعروں میں ادبی اشعار کو اس طرح داد نہیں ملتی جیساکہ ان کاحق ہوتا ہے۔اب صورت حال پر فہمی بدایونی نے کیا خوب صورت تبصرہ کیا ہے اور اپنے ایک خاص طنطنے کے ساتھ۔ملاحظہ فرمائیں۔

گر نہیں سکتے ستارے تیری جھولی میں کبھی

آسمانی شعر پڑھ کر بیٹھ جا اپنی جگہ

ستارہ گرنا دراصل کلام پر داد ملنے کے معنی میں ہے اور آسمانی شعر سے مراد وہ اشعار ہیں جو سامعین کی سمجھ میں نہ آسکیں۔درج بالا شعران کے گہرے مشاہداتی قوت کا غماز کہا جاسکتا ہے۔ مشاعروں اور ادبی صورت حال پر دوشعر ملاحظہ کریں۔

رات بھر ہم نے ہی صدارت کی

بزم میں اور کوئی تھا ہی نہیں

 

شعر ناظم نے جب پڑھا میرا

پہلا مصرعہ ہی دوسرا نکلا

دراصل فہمی بدایونی کے یہاں بہت سے اشعار واقعہ اور مشاہدہ کے امتزاج سے خلق ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی تخلیقی شان بھی نمایاں رہتی ہے۔واقعہ،مشاہدہ اور تخلیقی کارکردگی ان کے اشعارمیں اس طرح حل ہوجاتی ہے کہ بہت سے اشعار خالص واقعہ ہوتے ہوئے بھی مشاہدہ کے ذیل میں آجاتے ہیں۔ان کے بہت سے اشعار پڑھتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ ان کاذاتی تجربہ تو نہیں لیکن اگلے ہی لمحہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں انھوں نے غزل کے فن سے فائدہ اٹھایا ہے۔ذات و کائنات آپ بیتی اور جگ بیتی کی شکل میں ان کی غزلوں کا ایک توانا حصہ بن گئی ہے۔ان کی یہی توانائی ان کے چاہنے والوں کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔

خوشی سے کانپ رہی تھیں یہ انگلیاں اتنی

ڈلیٹ ہوگیا اک شخص سیو کرنے میں