محفوظ عالم پٹنہ
آیوروید طریقے علاج دراصل دنیا کی قدیم ترین علاج ہے۔ قبل مسیح سے لیکر 18ویں صدی تک ہندوستان میں آیورویدک طریقے علاج سے لوگ مستفید ہوتے رہے ہیں اور آیوروید نے صحت کو لیکر مکمل رہنمائی کی ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس نے سرجری کو بھی ایجاد کیا اور قدرتی وسائل کے ادویات سے امراض کو ٹھیک کر کے دیسی علاج کا سہرا اپنے نام کیا ہے۔
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے آیوروید کے معروف معالج ڈاکٹر محمد شمیم اختر نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق آیورویدک پیتھی مریض کو ضمنی اثرات سے مکمل طریقہ سے محفوظ رکھنے والا وہ پیتھی ہے جو پوری دنیا میں اپنی ایک منفرد پہنچان رکھتی ہے۔ مشکلوں کے بعد بھی آیورویدک طریقے علاج اپنی جگہ پر قائم ہے اور انسانیت کی خدمت اور علاج و معالجہ کو لیکر پوری طرح سے تیار ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر محمد شمیم اختر ایک میڈیکل اوفیسر بھی ہیں اور بہار کے مغربی چمپارن میں مجھولیا ہیلتھ کیئر سنٹر کے بانی بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد شمیم اختر اپنی اہلیہ ڈاکٹر تبسم جہاں جو طب یونانی کی ڈاکٹر ہیں، ساتھ مل کر دیسی طریقے علاج کو بڑھا دے رہے ہیں۔ وہ آیوروید طریقے علاج سے لوگوں کو جوڑنے کے لیے مختلف طرح کے بیداری پروگرام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ آیوروید نے علاج و معالجہ کے معاملہ میں صدیوں تک لوگوں کی رہنمائی کی ہے۔ ایک سے بڑھ ایک آچاریہ گزرے ہیں جن کی صحت کے معاملہ میں کافی بڑی خدمات رہی ہے لیکن 18ویں صدی کے بعد دیسی طریقے علاج جو ہندوستانی علاج و معالجہ کی پہنچان ہوا کرتی تھی، انگریزی حکومت کی بے توجہی کے سبب حاشیہ پر آ گئی اور اس کی جگہ ماڈرن طریقے علاج نے اپنا جگہ بنا لیا۔ ریسرچ و تحقیق کا سب سے زیادہ کام بھی ماڈرن طریقے علاج کے حصہ میں آیا اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے بیچ پلی بڑھی دیسی طریقے علاج پیچھے چھوٹ گئی۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ آج کی حکومتیں ایک بار پھر سے آیورویدک طریقے علاج کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے جو لائق ستائش ہے لیکن ابھی بھی اس تعلق سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کی قدیم ترین علاج ہے آیوروید
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے آیوروید اس دینا میں اس وقت سے ہے جب سے انسان اس دینا میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آیورویدک پیتھی، علاج و معالجہ کے تعلق سے ہندوستان کی بہت بڑی خدمات کی ہے۔ صدیوں تک صحت کے معاملہ میں آیوروید نے لوگوں کی رہنمائی کی ہے اور آج بھی لوگوں کا ایک بڑا طبقہ آیوروید پر بھروسہ کرتا ہے۔ ان کے مطابق آیوروید ایک بہترین طریقے علاج ہے جس کا مقصد لوگوں کی زندگی بچانا ہے۔ دراصل آیورویدک طریقے علاج نہ صرف یہ کہ مرض کو جڑ سے مٹانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ جسم کو مضبوط بنانے اور مدافعتی سسٹم کو بہتر کرنا اس کا خاص مقصد ہے۔ ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ آیوروید کا پورا علاج قدرتی وسائل جیسے جڑی بوٹی، پیڑ، پودے، درخت کی چھال، پھول سے بنے قدرتی ادویات سے کیا جاتا ہے۔ یہ ادویات انسان کے لیے کافی دوستانہ ہوتا ہے جس کے اثرات نہایت ہی بہتر ہوتے ہیں اور صحت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ آیوروید طریقے علاج کے فادر آچاریہ چرک کو کہا جاتا ہے۔ آیوروید کے تاریخ کی کتابوں میں یہ درج ہے کہ قبل مسیح میں ہی آیوروید کے پاس 152 طرح کا سرجری ہوا کرتا تھا، آج لوگ کہتے ہیں کہ آیوروید یا دیسی علاج میں سرجری نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آیوروید اس لیے پیچھے رہ گیا کی اس میں وقت کے ساتھ ساتھ ریسرچ کا کام نہیں ہوا۔ اگر تحقیق بہتر طریقے سے ہوا رہتا تو آج آیوروید صحت کے سلسلے میں پوری دنیا کی رہنمائی کرنے کے لیے کافی تھا لیکن حالات برعکس رہا اس لیے نتیجہ بہت وسیع نہیں دکھائی دیتا ہے۔
ہر مرض کو ٹھیک کرنے کی ہے صلاحیت
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ چونکہ آیورویدک طریقے علاج میں پوری طرح سے قدرتی جڑی بوٹی کے ادویات سے علاج کیا جاتا ہے اس لیے اس کا کوئی ضمنی اثرات نہیں ہے اور مرض میں افاقہ ہوتا ہے۔ آیوروید میں ہر مرض کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس سے جو علاج ہو رہا ہے جیسے ارترائٹس کا درد، گٹھیاں، جوڑوں کا درد، ہارٹ اور کینسر کے امراض، دمہ ان جیسی بیماریوں کا جڑ سے علاج ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بی پی، ذیابیطس یعنی ڈائبٹیز کو پوری طرح سے ختم کرنے کا علاج کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ماڈرن سائنس کے طریقے علاج میں صرف مرض کے روک تھا کی دوا دی جاتی ہے، مریض دوا کھاتا ہے اور ٹھیک رہتا ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ آیوروید کسی بھی بیماری کو جڑ سے ختم کرنے میں یقین رکھتا ہے اور اس کا نظریہ علاج اسی پر منحصر کرتا ہے اور یہ آیوروید کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
کبھی علاج میں تھی آیوروید کی بادشاہت
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کے مطابق آیوروید کی ایک پہنچان یہ بھی ہے کہ اس طریقے علاج میں اور اس کے ادویات سے صحت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ دور دور تک نہیں ہے۔ بغیر کسی ضمنی اثرات کے مکمل علاج دستیاب ہے یعنی دیسی طریقے علاج کا سب سے بہترین ذریعہ آیوروید ہے۔ ڈاکٹر شمیم کا کہنا ہے کہ اگر آیوروید پر ماضی میں معقول ریسرچ ہوا رہتا تو یہ دنیا کا سب سے بہترین طریقہ علاج ہوتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگریزی سامراجیہ میں اس وقت کی حکومت میں ایلوپیتھ پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔ حکومت کی توجہ ماڈرن علاج پر رہی اور آیورویدک طریقے علاج نظر انداز ہو گیا اور آیوروید میں وقت کے ساتھ تحقیق کا کام نہیں ہوا جس کے سبب آیوروید جو کبھی علاج و معالجہ میں صدیوں سے اپنی بادشاہت قائم رکھا تھا وہ گر کر حاشیہ پر آگیا۔ جبکہ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ایلوپیتھ فوری فائدہ پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے اور آیوروید میں ہر مرض کو جڑ سے ختم کرنے کا علاج کیا جاتا ہے۔
اگر یہ ہوا رہتا تو ایلوپیتھ سے کامیاب رہتا آیوروید
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ آیوروید طریقے علاج کا پورا نظریہ اس بات پر ہے کہ مرض کو پوری طرح سے جسم انسانی سے دور کیا جائے اور جسم کو ایک مکمل صحت مہیا کرائی جائے۔ آج بھی آیوروید اپنی پوری طاقت سے اپنے نظریہ صحت پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آیوروید ایک دیسی اور بھارتیہ طریقے علاج ہے، انگریزی حکومت نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح سے ماڈرن علاج پر توجہ دی جا رہی تھی اگر اسی طرح آیوروید پر بھی یکساں توجہ دی جاتی تو یہ طریقے علاج ایلوپیتھ سے بہت آگے اور کامیاب ہوا رہتا۔
آیوروید نے کی سرجری اور میڈیسن کی شروعات
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ آیوروید سب سے پورانا طریقے علاج ہے۔ یہاں تک کہ سرجری اور میڈیسن کی شروعات بھی آیوروید نے کیا ہے لیکن اس کے بہت بعد آنے والا ماڈرن طریقہ علاج آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور جو قبل مسیح سے چلا آ رہا نظام تھا وہ پیچھے رہ گیا۔ ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ ابھی تو ہارٹ ٹرانس پلانٹ ہوتا ہے، کڈنی اور ہڈی کا ٹرانس پلانٹ ہو رہا ہے لیکن آیوروید کے تاریخ کی کتابوں میں ناقابل یقین اور غیر معمولی واقعات درج ہے کہ قدیم ہندوستان میں اشونی کمار آیوروید کے ایک بہت بڑے سرجن ہوا کرتے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گھوڑا کا سر کاٹ کر اس گھوڑے کا سر اس گھوڑے میں فیٹ کر دیا کرتے تھے۔ اس کہانی پر یقین کرنا آج مشکل ہے لیکن آیوروید کی تاریخ میں یہ بات ملتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پائے کی سرجری آیوروید میں ہوا کرتی تھی لیکن حکومت کی ترجیح نہیں ہونے سے آیوروید طریقے علاج پر سنجیدگی سے کام نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ میڈیسن، سرجری، سرجری انسٹرومنٹ وغیرہ پر توجہ دی گئی رہتی تو آیورویدک طریقے علاج ماڈرن علاج سے میلو آگے رہتا۔ ڈاکٹر شمیم اختر کا کہنا ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں اور آج کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں آیوروید کو بڑھا دینے کے تعلق سے کام کر رہی ہے۔ جس کے سبب لوگوں کا رجھان بھی آیوروید کی طرف بڑھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب آیوروید کی نئی نئی میڈیسن بن رہی ہے اور اس کے لئے مینوفیکچرنگ یونٹ بھی قائم کی جا رہی ہے اور ادویات کی تشکیل بھی ٹھیک سے ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آیوروید میں جان ڈالنے کی حکومت نے کوشش کی ہے لیکن ابھی مزید اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ تقاضوں پر آیوروید
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ بلاشبہ آیورویدک طریقے علاج نے صدیوں تک صحت کے سلسلے میں لوگوں کی رہنمائی کی ہے۔ علاج و معالجہ کو لیکر آیورویدک طریقے علاج کا کوئی سانی نہیں ہے لیکن دیسی طریقے علاج کی جگہ ماڈرن طریقے علاج پر زیادہ توجہ دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل کسی بھی طریقے علاج میں تحقیق ایک بہت بڑا موضوع ہوتا ہے اگر بیماریوں کے روک تھام کے لیے لگاتار تحقیق کا کام ہوتا رہے تو کوئی بھی طریقے علاج اپنے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل بن جاتا ہے اور جب بات آیوروید کی آتی ہے تو آیوروید تو دور قدیم سے ہی علاج و معالجہ کو لیکر کافی مشہور و معروف رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ بھولے نہیں ہیں کہ آیوروید بغیر ضمنی اثرات کے مریض کو ٹھیک کرتا ہے اور آج بھی ٹھیک کر رہا ہے۔ ڈاکٹر شمیم کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کی یہ وہ پیتھی ہے جس نے سیکڑوں سال میں لاکھوں لاکھ لوگوں کو نئی زندگی عطا کی ہے لیکن تحقیق نہیں ہونے اور نظر انداز کئے جانے سے یہ طریقے علاج آج کچھ کمزور پڑتا ہے۔ حکومت کی جانب سے دیسی طریقے علاج پر پھر سے توجہ دی جا رہی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں آیوروید دوبارہ اپنا رطبہ بحال کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔
آیوروید کی طرف لوگوں کو راغب کرانے کی کامیاب پہل
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ بہار کے مغربی چمپارن میں مجھولیا ہیلتھ کیئر سنٹر قائم کر کے ہم لوگوں نے ایک تجربہ کیا اور لوگوں کو دیسی طریقے علاج کی طرف مائل کرنے کی مہم چلائی۔ جب کوششیں کی گئی تو لوگوں کا ایک بڑا طبقہ آیوروید کی طرف لوٹ کر آیا اور کامیاب علاج کرا کر مطمئین ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک آیوروید ڈاکٹر ہوں اور میری اہلیہ اور بھائی طب یونانی کے ڈاکٹر ہیں ایسے میں قدرتی و دیسی علاج کا ہم لوگوں کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج مریضوں کی ایک بڑی تعداد آیوروید طریقے علاج سے ٹھیک ہو رہی ہے اور دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگ آیوروید علاج کی طرف آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شمیم کا کہنا ہے کہ ہم لوگ آیوروید کی طرف عام عوام کو راغب کرنے اور انہیں بیدار کرنے کے لئے صحت کیمپ کا بھی انعقاد کرتے ہیں اور مختلف پروگراموں کو منعقد کر آیوروید کی افادیت اور صحت پر ہونے والے مثبت اثرات کو ان کے سامنے رکھتے ہیں، نتیجہ کے طور پر تھوڑی سی کوشش سے لوگوں میں بیداری آئی ہے اور سستا اور دیسی علاج کی طرف لوگ آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شمیم کا کہنا ہے کہ ایک تو آیوروید ایک سستا علاج ہے اور دوسرا یہ طریقہ علاج مریض کو صحت یاب بنانے کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن دواؤں کو کھا کھا کر لوگ اپنا صحت خراب کر لیتے ہیں، ہم لوگ ایسے مریضوں کو آیوروید کی دوائیں کھلاتے ہیں اور وہ مریض ٹھیک ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آیوروید کی دواؤں کا رزلٹ بہتر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں مریض اب اس طرف آ رہے ہیں۔
تھک کر مریض آیوروید کی طرف آتے ہیں
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ آیوروید پر لوگوں کا یقین دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھاسی، دمہ، جوڑو کا درد، بی پی، ڈائبٹیز اور پورانی بیماریوں کا علاج کرا کر لوگ تھک چکیں ہیں اس طرح کی مریض آیورویدک طریقے علاج کے لیے آتے ہیں اور آیوروید سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ کافی مطمئین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ڈائبٹیز ایک عام بیماری ہو گئی ہے۔ آیوروید میں اس کا کافی اچھا علاج ہے، جو مریض یہاں دکھا رہے ہیں انہیں آرام مل رہا ہے۔ اس لیے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آتے ہیں، لوگوں کو سستا علاج ملتا ہے۔ آیوروید مریض کو دوا دینے کے ساتھ ساتھ پرہیز کا طریقہ بتاتا ہے اور آسانی سے ان کے مرض کو بغیر کسی ضمنی اثرات کے ٹھیک کرتا ہے۔
بڑے پیمانے پر بیداری کی ضرورت
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ ضرورت ہے بڑے پیمانے پر لوگوں کو آیوروید کی طرف لانے اور بیدار کرنے کی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کے صحت کا سب سے بڑا رول ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صحت ہی دولت ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے آیوروید پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر ایک محدود دائرے میں آیوروید سے جڑے لوگ بیداری مہم چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم لوگ خود بھی مختلف علاقوں میں صحت کیمپ لگاتے ہیں اور دیہی علاقوں میں جا کر آیوروید کا تشہیر کرتے ہیں۔ اس کوشش سے لوگ آیوروید کی طرف راغب ہوتے ہیں اور کھانا، پینا اور پرہیز سے لوگ ٹھیک بھی ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو سمجھانے اور بتانے کا اثر ہوتا ہے اور وہ آیورویدک طریقے علاج کو پھر ترجیح دینے لگتے ہیں لیکن یہ کوشش بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آیوروید کو قومی سطح پر لے جانے کے لیے حکومت کی جانب سے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل لوگوں کو جانکاری نہیں ہے، لوگ جانیں گے تو اس طریقے علاج کو ترجیح دیں گے۔
آیوروید کی ترقی کے لیے اس کام کی ضرورت
ڈاکٹر محمد شمیم اختر کا کہنا ہے کہ آیوروید ڈاکٹرس سماج کو مل سکے اور اس کی تعداد میں اضافہ ہو اس تعلق سے کالج قائم کئے جائے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ کالج کھولے جائیں اور زیادہ سے زیادہ طلبا کو آیوروید پڑھایا جائے گا تو حالات بدلیں گے، اس کے علاوہ دواؤں کا مینوفیکچرنگ بھی کرائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی آیوروید ڈاکٹر کی بحالی تو ہو جارہی ہے لیکن ٹھیک سے دواؤں کی سپلائی نہیں ہو رہی ہے۔ جس کے سبب جہاں ڈاکٹر ہیں بھی وہاں آیوروید کی دوائیں نہیں ہے ایسے میں کس طرح سے مریض کا علاج ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کیا جائے تو لوگوں میں یہ پیغام جائے گا کہ آیوروید طریقے علاج میں ڈاکٹر بھی ہیں، علاج بھی ہے، اسپتال بھی ہے اور دوائیں بھی ہے۔