مذہبی مقدس صحائف کے تراجم ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے میں معاون۔۔۔ڈاکٹر اجے مالوی
شاہ تاج خان - پونے
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہا تھا کہ‘‘اردو کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ ایک مخلوط اور تہذیبی اعتبار سے تکثیری زبان ہے۔اس میں اسلامی رنگ گہرا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو اسلامی اور ہندی تہذیبوں کے درمیان ثقافتی پل بناتی ہے اور مشترک ہندوستانی تہذیب کی تو یہ بہترین نمائندہ ہے۔اردو میں جہاں دوسرے مذاہب کا وقیع مقدس سرمایہ موجود ہے، ہندوؤں کے مذہبی صحائف و وضائف کے لیے بھی یہ زبان خوب خوب استعمال ہوئی ہے۔’’ تو شارب ردولوی نے اردو میں دیگر مذاہب کے متعلق مواد کی فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘‘دوسرے مذاہب کے پیغمبروں،اوتاروں یا مذہبی رہنماؤں کے بارے میں اس عقیدت اور شدت کے جذبات کے ساتھ نکلے ہوئے شہ پارے اردو کے علاوہ کسی زبان میں اس افراط کے ساتھ ملنا بہت مشکل ہے۔’’ڈاکٹر اجے مالوی سے آواز دا وائس کی ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی ۔ ان کا کہنا ہے کہ مہابھارت،رامائن،بھگوت گیتا اور اپنیشد کے سب سے زیادہ تراجم اردو زبان میں ہوئے ہیں۔
فکر،تجربہ اور صداقت کا گیان
سر پر ہماچلی ٹوپی سجائے دور سے پہچانے جانے والے ڈاکٹر اجے مالوی نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ‘‘ہندویت پر مبنی مذہبی و ثقافتی مطبوعات کا تنقیدی مطالعہ’’کے موضوع پر مقالہ لکھا ۔جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ۔ان کی اب تک 21کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔رامائن ،مہابھارت،وید اور اپنشدوں کو اپنے مطالعے کا موضوع بنانے والے اجے مالوی نے ہندوؤں کے مقدس صحائف اور ان کے تراجم پر دلجمعی سے کام کیا ہے۔ گفتگو کے دوران وہ کہتے ہیں کہ ‘‘رامائن ہندوستان کا مہا بیانیہ ہے جو ہندوستان کی اجتماعی تہذیبی اور مذہبی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔ سناتن دھرم کی تبلیغ و تشہیر کے لیے رشیوں اورمنیوں نے سنسکرت زبان کو اپنایا۔وید رامائن اور مہابھارت جیسے مقدس صحائف سنسکرت زبان میں ہی لکھے گئے۔لیکن کوئی بھی مذہب زبان کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی کتابیں بہت جلد زبان کے حصار سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو جاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق اردو زبان میں تقریباً ڈیڑھ سو رامائن اب تک شائع ہو چکی ہیں ۔اردو زبان میں لکھی گئی پہلی رامائن گنگا بشن نے 1766میں تحریر کی تھی۔یہ مخطوطہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری میں محفوظ ہے۔انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سناتن دھرم کا زیادہ تر تبلیغی ادب اردو زبان میں ہے۔
اجے مالوی کا قلم یوں تو کسی خاص صنف تک محدود نہیں ہے لیکن اردو زبان و ادب میں ہندو مذہب کے قدیم ادب کے پارکھ اور ترجمان کی حیثیت سے وہ اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں ۔اردو میں رام کتھا لکھنے والے اجے مالوی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شموئل احمد نے کہا تھا کہ ‘‘ایسے دور میں جب کہ معاشرہ مادیت سے پامال ہو رہا ہے،اقدار سیال ہو رہے ہیں، انسان ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہا ہے اجے مالوی کی تحریر امید کی کرن بن کر ابھرتی ہے۔’’ اردو صرف ایک طبقہ کی نہیں بلکہ ہندوستان کے سبھی لوگوں کی زبان ہے۔اجے مالوی کہتے ہیں کہ مذہبی مقدس صحائف کے تراجم ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے میں معاون ومددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اجے مالوی نے حالانکہ جب اپنا قلمی سفر شروع کیا تو ہندو مذہب کو اردو میں پیش کر کے نہ صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی بلکہ اردو ادب میں ایسے موضوع کا انتخاب کیا جس پر بہت کم ادبا اور شعرا نے توجہ دی ہے۔لیکن اسی منفرد موضوع نے انہیں بہت جلد اردو ادب کی محفلوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔اردو زبان میں موجودہ دور میں ہندو مذہبی صحائف کے متعلق گفتگو کرنا ہو تو ڈاکٹر اجے مالوی کے حوالے کے بنا بات مکمل نہیں ہو سکتی۔یہ جگ ظاہر ہے کہ اردو زبان کی شعری و نثری تخلیقات میں ہندو مذہب اور فلسفے کی کارفرمائی ابتدائی زمانے سے ہی نظر آتی ہے۔اردو زبان وادب کے متعدد قلم کاروں نے ہندوستان کے مختلف مذاہب کے رموز و نکات میں دلچسپی لی اور اس کے میں حصّٰہ بھی لیا ہے۔ہندومذہب کی کتابوں کے تراجم اس بات کا بین ثبوت ہیں۔
آنا ہمارے شہر میں سنگم گھمائیں گے
ڈاکٹر اجے مالوی اردو زبان و ادب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے شاعری کا ذوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا۔ایونگ کرشچن کالج الٰہ آباد میں دوارانِ طالب علمی پہلی غزل کہی ۔جس کا مطلع یوں تھا
دل سے اپنے جنہیں بھلاتے ہیں
کیوں ہمیں پھر وہ یاد آتے ہیں
ڈاکٹر اجے مالوی شاعری کی دنیا میں بہَار الٰہ آبادی کے نام سے مشہور و مقبول ہیں۔اردو زبان کے دلدادہ اجے مالوی پیشے سے معلم اردو ہیں۔اگر چہ ان کی دلچسپی ہندوستان کی کلاسیکی فکر و نظر سے ہے اور انہیں دنیائے اردو ادب میں اسی تعلق سے جانا جاتا رہا ہے لیکن وہ ایک حساس شاعر کا دل بھی رکھتے ہیں۔حالانکہ
فوقتاًاپنا کلام سامعین کی نذر کرتے رہے ہیں مگر جب ان کی کتاب ‘‘احساس کی خوشبو’’منظرِ عام پر آئی تو انہیں ویدک ادب کے حوالے سے جاننے والوں کو انہوں نے حیران کر دیا۔ان کی شاعری کافطری اور دھیما پن لوگوں کو بے ساختہ اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔
مرے مکان کی تعمیر میں شریک تھا جو
جو وقت آیا تو شامل تھا وہ گرانے میں
خود اپنی ذات پہ تھا اعتماد جس کو بہت
شکست خوردہ ملا ہے وہ کھنڈروں کی طرح
چلو! اردو سیکھیں
ڈاکٹر اجے مالوی نے اگر ‘اردو میں ہندو دھرم، ویدک ادب اور اردو، ہے رام کے وجود پر ہندوستان کو ناز، نئی فکریاتی جہات،اردو میں رام کتھا، شری مد بھگوت گیتا،غبارِ فکر وغیرہ جیسی متعددکتابوں کے ذریعے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا ہے تو وہیں انہوں نے اردو زبان سیکھنے کے خواہش مند حضرات کے لیے‘ اردو سیکھیں’ کتاب بھی تیار کی ، جو کہ ہندی زبان میں بھی شائع ہوئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ میں چونکہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوں ۔اس لیے جب مجھے محسوس ہوا کہ اردو زبان سیکھنے والوں کے لیے بھی
کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے تو میں نے اس جانب توجہ دی۔
تنقید کی زبان بھی لائیں ہیں مختلف
اجے مالوی کا2000 سے شروع ہوا ادبی سفر لگاتار جاری ہے۔تحقیق،مقالات،مضامین،شاعری کے ساتھ ساتھ جب انہوں نے تنقید ی مضامین تحریر کیے تو وہاں بھی ان کے قلم کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کتاب ‘غبارِفکر’ میں انہوں نے اپنے تحقیقی مضامین کے ساتھ تنقیدی مضامین کو بھی شامل کیا ہے۔جہاں وہ متعدد ادبی شخصیات،نظیر اکبر آبادی،حالی،فانی بدایونی وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں تو وہیں گاندھیائی فکر،اردو شاعری میں حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے عناصر ، خواتین ادب:تاریخ و تنقید کا فکری و فنی مطالعہ وغیرہ جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے ہندوستانی صحافت کے تناظر میں اردو صحافت نگاری کے عنوان کے تحت جب اپنی بات شروع کی تو اردو صحافت کے تعلق سے کہا کہ ‘‘صحافت کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ صحافت شاعری نہیں ہے،صحافت داستان سرائی بھی نہیں ہے،صحافت خطابت کا بھی نام نہیں ہے، صحافت سیاست بھی نہیں ہے مگر صحافت دراصل بیک وقت ادب ،شاعری،داستان گوئی،سیاست بازی ، خطابت کی شعلہ سامانی وغیرہ سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔’’ حقانی القاسمی نے ان کی تحقیق اور تنقید کے حوالے سے کہا ہے کہ ‘‘اجے مالوی کا تحقید(تحقیق +تنقید)سے گہرا رشتہ ہے۔ان کی تحریریں محض مستعار افکار پر مرکوز نہیں ہوتیں بلکہ وہ اپنے طور پر بھی نتائج کا استخراج اور استنباط کرتے رہتے ہیں۔نئے زاویوں اور جزیروں کی جستجو ان کے تحقیقی تنقیدی جنون میں شامل ہے۔’’ اجے مالوی نے اپنی کتاب ‘غبارِفکر ’کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ غبارِفکر ترتیب دیتے ہوئے کئی اہم مضامین کتاب میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں جو کہ کافی اہم تھے۔
یہ حسین زبان مشترکہ ہے
ناظر کاکوروی لکھتے ہیں کہ‘‘یہ امر مسلم ہے کہ ہماری زبان جو شیخ و برہمن کی مشترکہ ملکیت ہے۔اس کی عزت افزائی ہمایوں کے عہد سے شروع ہوئی اور اکبری دور کے آتے ہی اس نے ایسی متحدہ صورت اختیار کر لی کہ اگر کسی بزم میں عرفی و نظیری سرگرم سخن نظر آتے تھے توتلسی داس اور سورداس کی نغمہ سنجیاں بھی گرمی پیدا کر رہی تھیں۔ اردو ادب اس محبت کے سائے میں نشو و نما پاتا رہا حتٰی کہ ہندوستان کی سیاسی بساط کانقشہ بدلا لیکن باوجود اس انتشار کے شیخ وبرہمن کا مسئلہ کہیں بھی رونما نہ ہو سکا۔’’
شاعری ہو یا ادیب، تنقید ہو یا تحقیق،ڈرامہ ہو یا رپورتاژ اردو ادب کے ہر میدان میں غیر مسلم دانشوروں کی خدمات اردو زبان کو حاصل رہی ہیں۔رہنمائے تعلیم کے ایڈیٹر سردار جگت سنگھ نے لکھا تھا کہ‘‘اردو زبان کی جو بھی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بلا مبالغہ اول سے آخر تک ہندو مصنفین،مولفین،ہندو ادیبوں اور انشا پردازوں سے بھری پائیں گے۔سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں معرکتہ الآراہ کتابیں ہندوؤں نے اردو میں ایسی لکھیں کہ مسلمان ویسی نہیں لکھ سکے۔’’اردو زبان کے مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کرنے والے غیر مسلم ادباء اور شعرا کی ایک طویل فہرست ہے ۔ منشی پریم چند،رتن ناتھ سرشار، راجندر سنگھ بیدی ،گوپی چند نارنگ،گلزارآنند نارائن ملا ، چکبست وغیرہ جیسے متعدد شعرا اور ادبا ء ہیں جن کے ذکر کے بغیر اردو زبان و ادب کی تعریف اور تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان کو پروان چڑھانے میں ہندو ،مسلم، سکھ ،عیسائی سب کا برابر کا حصّٰہ ہے۔
ڈاکٹر اجے مالوی کا قلم اردو زبان و ادب کی مختلف اصناف پر خامہ فرسائی کر رہا ہے۔قوی امید ہے کہ اردو ادب میں ان کی نگارشات اسی تواتر سے شائع ہوتی رہیں گی اور اردو ادب کے دامن میں بیش بہا اضافہ کا سبب ہوں گی۔