محوظ عالم : پٹنہ
یونانی طریقہ علاج دینا کی وہ عظیم ترین نظام ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبہ حیات میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ معالج کے طور پر کوئی بھی حکیم کسی بھی بیماری کو لا علاج بتا کر اپنا پلہ نہیں جھاڑ سکتا کی طبی یونانی میں اس کا علاج نہیں ہے۔ دراصل تحقیق اور کھوج سے یونانی طریقہ علاج اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہر بیماری کا مکمل علاج قدرت نے اس دنیا میں دستیاب کرایا ہے۔ طبی یونانی ماضی میں مشکل ترین بیماریوں کا بھی علاج کیا ہے اور جڑ سے اس کو مٹانے کی کامیاب کوششیں کی ہے۔ یہ کہنا ہے گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ کے پرنسپل، ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا۔ آواز دی وائس سے خاص بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر محفوظ الرحمن نے کہا کہ بلاشبہ گزشتہ کچھ سو سالوں میں ایلوپیتھک سسٹم نے یونانی طریقہ علاج پر ایک ضرب لگایا ہے باوجود اس کے طبی علاج اور حکومت کا تعاون ہندوستان میں یونانی میڈیسن کو اور یونانی طریقہ علاج کو فروغ دے رہا ہے۔
بیماریوں کو جڑ سے ختم کرنا یونانی میڈیسن کی خصوصیت
ڈاکٹر محفوظ الرحمن خود ایک ڈاکٹر ہیں اور گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ کے پرنسپل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی کے مختلف بیماریوں کا علاج حکیموں کے ذریعہ سیکڑوں برسوں سے کیا جا رہا ہے، کچھ ناگفتبہ حالات کے سبب یونانی طریقہ علاج اس جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکا جس طرح سے ایلوپیتھک نظام نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے رکھا۔ اس میں خاص طور سے پیکجنگ کا ایک بڑا رول ہے۔ یونانی میڈیسن آج بھی پورانے روش کے ساتھ سماج میں اپنی افادیت کو بنائے رکھنے کی کوششوں میں جٹا ہے جبکہ ایلوپیتھک کا نظام اپنے پورے ماڈرن اور جدید تقاضوں کے ساتھ معاشرہ میں موجود کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یونانی دواؤں کا اگر مکمل اور صحیح طریقہ سے پیکجنگ کیا جائے تو اس کا کافی مثبت اثر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ان کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ یونانی دواؤں کا انسانی زندگی پر کوئی ضمنی اثرات نہیں ہوتا ہے جبکہ ایلوپیتھک دواؤں کا ضمنی اثرات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کا لیور خراب ہو رہا ہے تو کسی کا کڈنی اور کسی کو ہارٹ اٹیک کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ ڈاکٹر محفوظ الرحمن کے مطابق یونانی میڈیسن میں وہی دوائیں ہوتی ہے جو انسان اپنے روز مرہ کی زندگی میں خود ہی استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے ادرک، لہسن، پیاز، لونگ یا دوسرے پلانٹ سے بنی جڑی بوٹیاں یا پھر مختلف معجون اور سفوف وغیرہ۔ ان چیزوں کا انسان آدی ہے اور یونانی دوائیں ایسی ہی چیزوں سے تیاری کی جاتی ہے، ظاہر ہے اس میں سائڈ افیکٹ کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اور مریض کو شفا بھی دستیاب ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ یونانی طریقہ علاج کسی بھی بیماری کو جڑ سے ختم کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ مریض کو اس کے لیے تھوڑا صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے پھر جس مرض میں وہ مبتلا ہوتا ہے اس کا یقیناً اور مکمل تدارک ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ہم یہ بات یقین سے کہ سکتے ہیں کہ یونانی میڈیسن کو مزید بڑھاوا دینے اور سماج کو اس تعلق سے بیدار کرنے کی نہایت ضرورت ہے۔
یونانی طریقہ علاج اپنی پرانی روش پر قائم ہے
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ سچائی یہ ہے کہ طبی یونانی ایک قدرتی علاج ہے اور قدرت کے بنائے ہوئے پلانٹ سے دوائیں تیار کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ علاج یوں تو گریس سے آیا لیکن مسلم بادشاہوں اور سلطانوں نے اس نظام کو ترقی دینے میں کافی اہم اور غیر معمولی خدمات انجام دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کی بادشاہت جہاں جہاں بھی اور جن جن علاقے میں رہی ان علاقوں میں ہمارے بیحد تجربہ کار حکیموں نے دورہ کیا اور وہاں کے پلانٹ سے اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق کر کے مختلف بیماریوں کے علاج کا طریقہ تلاش کیا۔ پلانٹ کی خوبیوں کو اپنے مریضوں پر تجربہ کیا اور بعد میں دنیا کو روشناس کرانے کے لیے اس کو قلم بند کیا۔ زیادہ تر وہ کتابیں عربی زبان میں ہے۔ بعد میں ان ذخیرہ کا فارسی ترجمہ ہوا اور فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ڈاکٹر محفوظ الرحمن کے مطابق آج ان زبانوں کے جاننے والوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے اس کا بھی یونانی علاج پر کہیں نہ کہیں ایک اثر پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے تجارت کے غرض سے ایلوپیتھک کا نظام پھلتا پھولتا رہا لیکن در حقیقت ایلوپیتھک نظام نے اپنے آپ کو ایڈوانس بنایا اور یونانی طریقہ علاج اپنے روایتی انداز میں کام کرتا رہا۔ یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ یونانی طریقہ علاج میں زمانے کے مطابق وہ وسعت نہیں آ سکی جس کا تقاضہ یہ نظام کرتا تھا۔
دنیا کو طبی یونانی علاج کی سخت ضرورت
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ بلاشبہ طبی یونانی آج کے دور میں اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسان کے لیے سانس لینا اور پانی پینا ضروری ہے۔ آج لوگ ماڈرن دوائیں لے رہے ہیں یا اس کا عادی بن چکیں ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ جسم کے مختلف حصوں میں پریشانیاں ہو رہی ہے۔ گردے، جگر کی خرابی، آنکھوں کی روشنی کا کم ہونا، مٹاپا کا بڑھ جانا اور ایسیڈیٹی کی پرابلم جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یونانی دوائیوں میں وہی چیز استعمال کی جاتی ہے جو روزانہ کی استعمال کی چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا میں جتنے بھی مسالہ ذات ہے جیسے مگریلا، ادرک، پیاز، لہسن یا اس طرح کے دوسرے مسالہ جیسے دال چینی، لونگ، الائچی، کالی مرچ ان سب کا یونانی دواؤ میں استعمال ہوتا ہے۔ ادرک کو لیجئے تو ادرک کا استعمال ہم لوگ کھاسی کے مرض کے لیے کرتے ہیں اسی طرح کالی مرچ کو ایسیڈیٹی یا ہاضمہ کی خرابی میں استعمال کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے اور مریض کے مرض میں بھی شفا ہو۔
یونانی میڈیسن کو مرکزی سطح پر فروغ دینے کی کوشش
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کی بقا اور اس کے اچھے صحت و طاقت کے لیے آج یونانی میڈیسن کی سخت ضرورت ہے۔ یہ کافی اچھا ہے کہ ریاستی اور مرکزی سطح پر یونانی میڈیسن کو فروغ دینے کی حتالامکان کوششیں کی جارہی ہے لیکن اس سمت میں مزید پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ کی مٹی ایک جیسی لگتی ہے لیکن اس کا تاثیر الگ الگ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محققین نے مختلف علاقوں میں اور مختلف پلانٹ سے علاج کا طریقہ تلاش کیا۔ ان کے ریسرچ کی بنیاد پر پھر سے وہ کام کیا جائے اور دوائیں تیار ہو تو یونانی میڈیسن کا دن بدل سکتا ہے اور وہ ماضی کی عظیم وراثت، حال میں بھی اپنا زبردست اثر دکھا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ آج بھی یونانی دواؤں پر لوگوں کو اعتماد ہے اور اس کا فائدہ بھی ہورہا ہے لیکن بدلتے وقت میں اس تعلق سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یونانی طریقہ علاج یہ مانتا ہے کہ انسان کا صحت سب سے اہم ہے اور اس کے صحت کو بحال کرنے کے سلسلے میں قدرتی وسائل کا ہی استعمال کیا جانا ضروری ہے اور قدرتی وسائل مسالہ میں یا جڑی بوٹیوں میں چھپا ہے۔ ہمارے محققین نے اس راز کو دنیا سے روشناس کرایا ہے اور اس کو عملی اعتبار سے مریضوں پر تجربہ کر کے دیکھا ہے۔ ایسے میں اس نظام کو چست درست کیا جائے اور جن علاقوں میں اور ملکوں میں مختلف جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہے وہ دستیاب کرائی جائے تو تمام طرح کی بیماریوں کا علاج طبی یونانی میں موجود ہے۔ محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ اس سمت میں کوششیں کی جارہی ہے اور اب ہمارے ملک میں ہی الگ الگ جگہوں پر تحقیق ہو رہا ہے، پلانٹ کے عرق کو نکال کر اسے لیبارٹری میں بھیجا جا رہا ہے، ایسے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یونانی طریقہ علاج لوگوں کے لیے اور بھی مفید ہوگا۔
ماڈرن تقاضوں پر یونانی میڈیسن
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ یونانی میڈیسن آج کے تقاضوں کو یقیناً پورا کرتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یونانی میڈیسن ایک جگہ کمزور پڑتا ہے اور وہ ہے امرجنسی کے حالات۔ مثال کے طور پر کسی کو ہارٹ اٹیک آ گیا اس وقت اس شخص کا اوکسیجن لیول کافی کم ہو جاتا ہے ایسے میں جسم کو فوری طور پر اوکسیجن پہنچانے کے لیے ماڈرن دواؤں کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے جسم میں خون اور اوکسیجن لیول فوری طور پر سپلائی کیا جا سکے۔ اس میں ایلوپیتھک کا رول بڑھ جاتا ہے۔ امرجنسی کے معاملہ میں ہماری دوائیں زیادہ اثر نہیں کرتی ہے لیکن اس سلسلے میں بھی کام ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ آپریشن یا سرجری کا جہاں تک لوگ سوال کرتے ہیں کہ یونانی طریقے علاج میں آپریشن کی کیا صورت حال ہے۔ تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپریشن یونانی طریقے علاج نے ہی شروع کیا تھا۔ قریب پانچ ہزار سال پہلے سے یونانی نے ہی آپریشن کے جتنے بھی آلات ہوتے ہیں اس کا ایجاد کیا تھا۔ اس وقت کا انسان ہاتھی، گھوڑے اور اونٹ پر سفر کیا کرتا تھا آج کا انسان ہوائی جہاز اور بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ یعنی دنیا تیز سے تیز تر ہو رہی ہے لیکن یونانی میڈیسن ابھی وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔ اس کے طریقہ علاج میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ اب جا کر یونانی کے نظام کو ایڈوانس بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ آہستہ آہستہ یونانی طریقہ علاج کو بھی دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اگر یہ سوال کریں گے کہ یونانی میں سرجری کتنا کامیاب ہے تو میں کہوں گا کہ ابھی صفر ہے۔ سرجری کے معاملہ میں طبی یونانی پچھڑ رہا ہے لیکن اس کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے اور اس کمی کو بھی جلدی دور کر لیا جائے گا۔
لوگ قدرتی علاج کی طرف مائل ہونگے تو ہوگا فروغ
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں سب سے اچھا پھل کشمیر کا سیب ہے اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کا سیب ہے۔ عام طور پر ہندوستان میں کشمیر کے سیب کو لوگ کھانا پسند کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کشمیر کا سیب بھی مٹی سے پیدا ہوتا ہے اور دوسری جگہوں کا سیب بھی مٹی سے ہوتا ہے۔ لیکن ہر جگہ کی مٹی کی خصوصیت قدرت نے الگ رکھی ہے اور اس کا تاثیر بھی الگ رکھا ہے۔ اس بنیاد پر ہر جگہ کے پلانٹ کی خصوصیت بھی الگ الگ ہے۔ ہمارے حکیموں نے جہاں جہاں طبی افادیت والا پلانٹ دیکھا اس کو حاصل کیا اور اس سلسلے میں اپنی کتابوں میں تفصیل بیان کر دیا۔ جیسے دار چینی ہم لوگ روز کھاتے ہیں تو دار کا مطلب ہوتا ہے چھال اور چینی کا مطلب ہوتا ہے چین۔ یعنی دار چینی، ملک چین کی سب سے بہتر ہے جس کا ذکر ہمارے حکیموں نے کیا ہے۔ چین کی دار چینی کو جو خصوصیت ہوگی وہ کہیں دوسری جگہ کے دار چینی کی نہیں ہوگی۔ ایسے میں مسئلہ یہ ہے کہ ان مختلف جگہوں سے جو چیزیں دوا کے لیے چاہئے وہ دستیاب نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بھی یونانی طریقہ علاج میں مزید وسعت کا فقدان ہوتا ہے۔ حالانکہ حکیموں کی تعداد ٹھیک ہے، لوگ حکیم بن رہے ہیں اور طالب علم طبی یونانی کو اپنا کیریر بنا بھی رہے ہیں۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ وہ دوائیں ان مقامات سے پہنچ نہیں پاتی ہے جہاں اس کی سب سے بہتر کوالٹی ہے۔ اگر پہنچ جاتی ہے تو دوائیں فروخت نہیں ہو پاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یونانی دواؤں کی مدت کار دو سال کی ہوتی ہے، دوا بکتی نہیں ہے تو وہ رکھے رکھے سڑ جاتی ہے۔ ایسے میں اس جانب لوگوں کی توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور قدرتی علاج کو لیکر لوگ بیدار ہونگے تو طبی یونانی کا فروغ ممکن ہو سکے گا۔
کس طرح کے مریض کا سب سے اچھا علاج ہے
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ آج کے وقت میں یونانی مختلف مرض کا کافی بہتر علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس میں خاص طور سے پیٹ سے جڑے مرض ہیں۔ جیسے معدے، قبض کی خرابی، بھوک کا نہیں لگنا، لوج موشن وغیرہ میں طبی یونانی کی دوائیں کافی اثر دار ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کا بانجھ پن اور مردو کے بانجھ پن میں یونانی کی دوائیں بہت متاثر کن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کے مخصوص مرض کا کافی بہتر علاج بغیر کسی ضمنی اثرات کے یونانی میں موجود ہے۔ لیور یا کڈنی میں اسٹون ہو اس کو دوا کے ذریعہ کافی آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہارٹ کی مضبوطی اور جسم کی مضبوطی کے لیے کافی بہتر دوائیں موجود ہے جس کا نتیجہ بہت مثبت ہوتا ہے۔
طبی یونانی علاج میں مریض کی تعداد
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کے کہنا ہے کہ ہمارے یہاں مریض آتے ہیں وہ متاثر بھی ہوتے ہیں اور انہیں شفا بھی ملتی ہے باوجود اس کے جو تعداد مریضوں کی ہونی چاہئے اس میں کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ بہتر پیکجنگ کا نہیں ہونا ہے۔ ایلوپیتھک میں جس طرح کی پیکجنگ کی جاتی ہے اس طرح کی پیکجنگ یونانی میں نہیں ہے جس کے سبب نفاست پسند لوگ اسے پسند نہیں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں سفوف ہے یہ جسم انسانی کے لیے کافی مفید ہے لیکن نفاست پسند لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسری دوائیں جیسے معجون، مرکبات یا خمیرہ وغیرہ دواؤں میں شکر کا استعمال ہو رہا ہے۔ پہلے یونانی دوائیں خالص شہد سے تیار کی جاتی تھی، قدرت نے شہد میں ایسے ہی شفا رکھی ہے لیکن اب خالص شہد ملتا نہیں ہے اور یونانی دواؤں کو بنانے میں شکر کا استعمال ہو رہا ہے۔ شکر اپنے آپ میں مختلف بیماریوں کو دعوت دیتی ہے یہ سبب بھی ہے کہ دواؤں کا تاثیر پہلے کے مقابلے کم ہوتا ہے۔
یونانی میڈیسن کا مستقبل
ڈاکٹر محفوظ الرحمن کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ یونانی طریقہ علاج کا مستقبل تابناک نہیں ہے لیکن تابناک بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب سبھی لوگ اپنے علاج کے لیے حکیموں سے رجوع کرتے تھے۔ اس وقت حکیم بھی اچھے تھے اور دوائیں بھی کافی اچھی تھی۔ آج بھی حکیم بیحد صلاحیت مند ہیں اور دوائیں بھی اچھی ہے لیکن ایلوپیتھ کے چکچوندھ میں لوگ کہیں نہ کہیں یونانی طریقہ علاج یا قدرتی علاج کو فراموش کر رہے ہیں۔ دراصل دنیا کی رفتار کافی تیز ہے اور ایلوپیتھ اپنے آپ کو جدیدیت سے جوڑے رکھا ہے اور اسے ہی لوگ ایڈوانس علاج مانتے ہیں۔ ایسے میں یونانی طریقہ علاج کو بھی ایڈوانس بنانا ہوگا اور اس کی آج کی تاریخ میں سخت ضرورت ہے۔