.jpg)
ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی
لکھنؤ کیمپس۔ لکھنؤ
طب یونانی سے اردو شعرو ادب کا بہت گہرا رشتہ ہے، تاریخی طور سے دیکھا جائے تو ابتدائی دور سے ہی شعرا ان الفاظ اور اصطلاحات کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے رہے ہیں، جنھیں بعد کے دنوں میں طبی مصطلحات سے موسوم کیا گیا۔ طبی تعلیم کا رواج یہاں بہت قدیم ہے، ایک زمانے تک طب کی تعلیم مشرقی نظام تعلیم کا لازمی حصہ تھی۔ ضیاؤالدین عبدالرافع ہروی کو پہلا طبیب کہا جاتا ہے۔ غزنوی سلطنت کا آخری بادشاہ خسرو ملک کے دربار سے بحیثیت طبیب وابستہ تھا۔وہ اس کے عروج کا ز مانہ تھا جب طب کی تعلیم حاصل کرنا باعث فخر تھا۔شعرا اپنے کلام میں نہایت اہتمام سے اس کا ذکر کرتے کہ انھوں نے طب کی بھی تعلیم حاصل کی ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے عمومی مزاج میں طب کو کتنی اہمیت حاصل تھی۔مشہور شاعر شیخ احمد گجراتی نے مثنوی یوسف زلیخا میں اپنی علمی لیاقت کے ضمن میں طب کی تعلیم کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔
اردو کی کلاسکی شاعری کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، علم طب اور حکمت کی ایک بڑی دنیا نظر آتی ہے۔ جس میں طبی اصطلاحات سے خاصاکام لیا گیا ہے۔ کم ہی ایسے شاعر ملیں گے جنھیں اس علم سے واقفیت نہ رہی ہو، لیکن طب اس معاشرے کا رائج علم تھا اس لیے شعرا کے یہاں کسی نہ کسی حیثیت سے اس کا ذکر ملتا ہے۔ فن طب سے متعلق ایسی باریکیاں اور بیماریوں سے متعلق جزئیات وغیرہ بھی اردو شاعری کا اہم حصہ ہے۔ شعرا نے نہ جانے کتنے امراض کے نام غزلوں اور دیگر تخلیقات میں استعمال کیا ہے۔ محض چند طبی الفاظ شاعری کا سرمایہ نہیں ہیں بلکہ ایسے الفاظ کی ایک طویل فہرست ہے،جسے شعرا نے طبی تناظر میں استعمال کیا ہے۔ طبی اصطلاحات کو شعرا نے کئی سطح پر برتا ہے۔ قصائد، مثنوی اور قطعات نگاری میں جن شعرا نے اپنے کمالات کے جوہر دکھائے ہیں ان میں ابراہیم ذوق، شوق لکھنوی، مصحفی، میر حسن،مومن،میر اثر،میر تقی میراور غالب کا نام بہت نمایاں ہے۔ان شعرا کے یہاں طبی الفاظ اور اصطلاحات کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ان کے اشعار کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے محض زبان و بیان ہی نہیں بلکہ مضمون کے لحاظ سے بھی طب پرمختلف النوع تخلیقی ہنرمندی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ذوق کی شعری ہنر مندی کے متعدد پہلو ہیں۔قصیدہ کے تو وہ بادشاہ ہیں مگر ان کے قصائد کا ایک ہنر طبی اصطلاحات کا استعمال بھی ہے۔ان کے بعض قصائد کو طبی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت کاحامل کہا جاتا ہے۔اپنے ایک قصیدے میں انھوں نے جتنی طبی اصطلاحیں استعمال کی ہیں اتنی اصطلاحیں بعض دیگر شعرا کے پورے کلام میں نہیں ملتیں۔بہادر شاہ ظفر کے جشنِ صحت کے موقع پر انھوں نے جو قصیدہ کہا وہ طبی لحاظ سے بھی بامعنی ہے۔ اس قصیدہ کا مطلع ملاحظہ کریں:
واہ واہ کیا معتدل ہے باغ عالم میں ہوا
مثل نبض صاحب صحت ہے ہر موج صبا
حالت صحت میں اطبا کے نزدیک نبض معتدل ہوتی ہے۔ اور مریض کی غیر معتدل، جشن صحت یابی برپا ہے، بہادر شاہ ظفر کی شفا سے پوری دنیا صحت یاب ہوگئی ہے۔ باغ عالم کی ہوا کو معتدل کہا ہے، یعنی دنیا میں صحت کی علامتیں ظاہر ہوگئیں۔اسی طرح سے اس قصیدے کے اشعار میں طبی اصطلاحات سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ بعض حسن تعلیل کے اشعار تو قابل رشک صورت اختیار کر گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن تعلیل اور طبی اصطلاح کا استعمال دونوں میں غیر معمولی فن کاری ہے۔
آگیا اصلاح پر ایسا زمانے کا مزاج
تاززبان خامہ بھی آتا نہیں حرف دوا
یہاں شعر کے پہلے مصرع کو اگر مطلع کے پہلے مصرع کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ زمانے کی اصلاح کا یہ مزاج باغِ عالم کے معتدل ہونے کی وجہ سے ہے۔لوگ اس طرح صحت مند ہوگئے ہیں کہ قلم کی زبان پر دوا کے حرف کا نام تک نہیں آتا۔ اگلا شعر بھی ملاحظہ کریں:
نسخے پر لکھنے نہیں پاتا ہوالشافی طبیب
کہتا ہے بیمار بس کر مجھ کو ہے بالکل شفا
حکما عام طور پر نسخے پر سب سے اوپر ہوالشافی لکھتے ہیں۔اطبا کے یہاں اسے روایت کا درجہ حاصل ہے کیونکہ وہ اس کو لکھے بغیر نسخہ لکھتے ہی نہیں۔ھوالشافی جس کے معنی اللہ تعالی شفا دینے والا ہے،لکھنے کے بعد ہی نسخہ لکھتے ہیں۔اب اس شعرسے محظوظ ہوں۔ذوق کہتے ہیں کہ صحت و تندرستی کایہ عالم ہے کہ حکیم کو نسخہ لکھنے کی نوبت ہی نہیں آنے پاتی بلکہ اس سے پہلے جو وہ ہوالشافی لکھا کرتا تھا اب اس کے لکھنے سے پہلے ہی مریض شفا یاب ہوجاتا ہے۔کہہ سکتے ہیں کہ حکیم ہو الشافی لکھنے کا ارادہ ہی مریض کے لیے صحت و تندرستی کا ضامن بن جاتا ہے۔
شیخ ابراہیم ذوق کے کلام میں فکر و فن کے بہت سے پہلو ہیں۔مگر اسی کے ساتھ جہاں جہاں انھو ں نے طبی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے وہ بے کیف نہیں بلکہ ان میں یک گونہ لطف ہے۔ان کے قصائد میں جہاں انھوں نے طبی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے ان میں دیگر خوبیوں کے علاوہ حسن تعلیل کا ایک سے ایک عمدہ استعمال ملتا ہے۔ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔
موتیا بند آنکھ میں اپنے جو رکھتی ہے صدف
اب رکھے ہے روشنی مثل دل اہل صفا
اس شعر کی دلچسپ تشریح حکیم سید غلام مہدی کی زبانی ملاحظہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:
ہم اپنی زبان میں نزول الماء ( Cataract)کو موتیابند کہتے ہیں ذوق نے یہاں سیپی میں موتی کی پیدائش کو آنکھ میں موتی کا بند ہونا لکھا ہے اور موتی صاف شفاف ہوتا ہے اور بینائی کے لیے سرموں میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لیے صدف میں موتی ہونا یعنی اس میں موتیا بند بصارت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔یہ حسن تعلیل بھی اور طبی اصطلاح کا خوب صورت استعمال بھی۔(طب یونانی اور اردو زبان و ادب،پروفیسر الطاف اعظمی ص:236)
یہ تشریح ایک حکیم کی ہے انھوں نے کس خوبی سے شعرکے اصل جوہر کو دریافت کیا ہے مگر اس میں دونوں رعایتوں یعنی طب اور شعری حسن کا خیال رکھا ہے۔
سودا کے ایک قصیدے کا مطلع ہے ؎
دیا ہے رنج کو دھوتیرے غسل صحت نے
ضمیر خلق سے اے بادشاہ پاک ضمیر
اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ قصیدہ بھی غسل صحت کے موقع پر کہا گے ہے۔اس میں بھی طبی اصطلاحات کو استعمال کیا گیا ہے بعض تشبیہات کو بہت نادر کہا جاسکتا ہے۔مثلاً
نہ موج مے کو ہو پیچش نہ شیشہ لے ہچکی
گئی جہاں سے یہ بیماری فواق و زحیر
نہ برق کو تپ لرزہ نہ ابر کو ہو زکام
نہ آب میں ہو رطوبت نہ خاک میں تبخیر
ہچکی اور پیچش جیسی عوامی بیماریاں بادشاہ کے صحت یاب ہونے سے ختم ہوگئیں۔پہلے شعر میں موج مے کو پیچش اور شیشہ کو ہچکی لینا سے تشبیہ دی گئی ہے۔اس نوع کی تشبیہات کا استعمال عام نہیں ہے۔اس لیے اسے نادر تشبیہ کہا جاسکتا ہے۔یہ بہر حال ذوق کی تخلیقی برتری کی ایک جہت ہے۔دوسرے شعر میں بھی تشبیہ کی ندرت کا کمال موجود ہے۔اس میں بجلی کے چمکنے کو تپ لرزہ اور بارش (بادل کا برسنا)کو زکام سے تشبیہ دی گئی ہے۔ذوق کے ان سلسلہ وار اشعار سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس نوع کی موسمی اور عام بیماریوں کا خاتمہ بادشاہ کی صحت یابی کے سبب ہی ہوا ہے۔اسی طرح ذوق نے ایک شعر میں کہا ہے کہ اب کسی شے میں تلخی باقی نہیں رہی۔یعنی ماحول ایسا خوش گوار ہوگیا ہے کہ وہ ساری تلخی ختم ہوگئی ہے اشیا میں تلخی نام کوبھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔سمیت اور تلخی کو طب یونانی کے تناظر میں خاص طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ذوق کا شعر ہے
نام کو اشیا میں نے تلخی رہی نہ سمیت
بن گئی تریاق افیوں زہر میٹھا ہوگیا
چیچک کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ مرض بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔اور کسی زمانے میں اس کا بہت زور تھا۔اب بھی کبھی کبھی یہ مرض وبائی صورت اختیار کرلیتا ہے۔اس مرض میں شفا کے بعد بھی داغ وغیرہ باقی رہ جاتے ہیں۔اس مرض میں کسی طورپر کوئی شاعرانہ خوبو نہیں ہے مگر اس کے باوجود شعرا نے اس مرض کو بہت خوبی سے شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ذوق خود اس مرض کا شکار تھے آب حیات میں محمد حسین آزاد نے چیچک کے داغوں کو خوبی بنا کر پیش کیا ہے۔شمس الرحمن فاروقی چند اشعار کے تناظر میں لکھتے ہیں:
”چیچک کے داغ، اور خاص کرکے چیچک کے دانے جب و ہ پھوٹے نہ ہوں، وہ بھی کچھ کم تکلیف دہ او ر غیر شاعرانہ مضمون نہیں۔ لیکن ہمارے شعرا نے اس مضمون کو بھی انتہائی تازہ خیالی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ میں تین شعر پیش کرتا ہوں۔ پہلا شعر ناسخ کا ہے جس میں چیچک کے آبلوں کا مضمون ہے اور وہ حالت بیان کی گئی ہے جس میں آ بلے پھوٹے نہیں ہوتے بلکہ پانی سے چھلکتے معلوم ہوتے ہیں۔ دو سراشعر جرات کا ہے جس میں یہ مضمون ہے کہ آبلے پھوٹ کر سوکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ علم طب کے لوگوں کو معلوم ہوگا، چیچک کے مرض کا یہ وہ مرحلہ ہے جب مریض کی جلد پر کھردرے گڑھے سے نظر آتے ہیں۔ تیسرا شعر میر کا ہے۔ اس کا مضمون اس وقت کا ہے جب آبلے پھوٹ کرپوری طرح سوکھ گئے ہیں اور صرف داغ رہ گئے ہیں۔
آبلے چیچک کے نکلے جب عذار یار پر
بلبلوں کو برگ گل پر شبہ شبنم ہوا
ناسخ
چیچک سے نہایا تو ہے اس گل کا بدن یوں
لگ جائے ہے جوں مخمل خوش رنگ میں کیڑا
جرات
داغِ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر
کس نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
میر
(طب یونانی اور اردو زبان و ادب،پروفیسر الطاف اعظمی ص 47)
فی زمانہ جو شاعری کی جارہی ہے اس میں کلاسیکی شعرا کی طر ح اہتمام نہیں ہیں۔ز مانے کا چلن بھی پہلے جیسا نہیں رہا اسی وجہ سے اب اُس سرگرمی سے شعر نہیں کہے جارہے ہیں لیکن صورت حال بالکل خالی بھی نہیں ہے۔چند اشعار یہاں پیش کیے جارہے ہیں جو اس ز مانے کے ہیں بلکہ اس میں بہت سے تازہ کار لہجے کے حامل شعرا کے ہیں۔
نہ ہوا اور نہ مٹی پہ کبھی ہو پایا
جو بھروسہ مجھے بہتے ہوئے پانی پر ہے
جمال احسانی
مٹی سے مشورہ نہ کر پانی کا بھی کہانہ مان
آے آتش دروں مری پابندی ہوانہ مان
ابھیشیک شکلا
مدار سارا ہے آب و ہوا کا مٹی پر
بلند و بالا ہے آتش کابخت مٹی ہے
ارشدجمال صارم
موت نے ساری رات ہماری نبض ٹٹولی
ایسا مرنے کا ماحول بنایا ہم نے
شارق کیفی
اس زمانے کے بعض شعرا نے ان امراض کو سامنے رکھ کر اشعار خلق کیے جسے عہد حاضر کی نمایاں بیماریوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ذبابطیس،بصارت اور بے خوابی یہ نئے مرض نہیں ہیں مگر اس عہد میں ان کی بھیانک صورت حال ہمارے سامنے ہے۔جناب سہیل آزاد پختہ کار شاعر ہیں اس حوالے سے ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں
باقی ہے چشم نازمیں اب بھی وہی مٹھاس
لیکن ہمیں مٹھاس کی عادت نہیں رہی
بڑھ جاتا ہے تھوڑے دن میں اک نمبر
چشمے کا انبار لگا ہے کمرے میں
ان اشعار کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اردو شاعری اور طب کا رشتہ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے اور شعرا نے طبی مصطلحات کو نہایت سلیقے سے اردو شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ان دنوں یہ سلسلہ اس طرح سرگرم نہیں ہے جیسا کہ پہلے تھا تاہم پہلے کے مقابلے میں چونکہ صحت عامہ کے مسائل زیادہ اہمیت اختیارکرچکے ہیں اور اس امر میں معالجین اور مطب کے بڑے اور کارپوریٹ اداروں نے جو صورت حال پیدا کی ہے اور طب کا اخلاقی نظام جس تیزی سے زوال کا شکار ہورہا ہے، ایسے میں ادب اور آرٹ کے فنکاروں پرلازم ہوجاتا ہے کہ وہ قدروں کے تحفظ کے لیے اپنے اشعار اور فن پاروں میں طب و صحت کی فکرمندی پر عوام کو متوجہ کریں۔ یہ عمل ادب اور شعبہئ طب دونوں کی صحت مندی کے لیے مفیدہے۔