غوث سیوانی، نئی دہلی
ہندوستان کے عظیم محسنوں کی فہرست تیار ہوگی تو اس میں سرفہرست ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کا نام آئے گا جنہوں نے آئین کی تدوین کرکے ملک کے مستقبل کا راستہ طے کیا۔ انہوں نے ہندوستانیوں کو بتایا کہ آگے کا سفر کیسے کرنا ہے۔ امبیڈکر نے اپنی پوری توانائی آئین ہند کی تدوین میں لگا دی۔ نہ دن کو دن سمجھا نہ رات کو رات لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ جس آئین کو بنانے کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا، ایک وقت ایسا آیا جب انھوں نے اسے جلانے کی باتیں شروع کر دی تھیں۔ امبیڈکر نے کہنا شروع کردیا تھا کہ وہ اسے جلانے والے پہلے شخص ہوںگے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستانی آئین کا مدون ہی ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا؟ وہ اتنے ناراض کیوں تھے کہ جو آئین بنایا تھا اسی کو جلانے کی بات کرنے لگے تھے۔ بات 19 مارچ 1955 کی ہے۔ راجیہ سبھا کا اجلاس جاری تھا۔ چوتھے ترمیمی بل پر بحث جاری تھی۔ امبیڈکر ایوان کی بحث میں حصہ لینے آئے تھے۔ ان سے ایک سوال پوچھا گیا۔ سوال پوچھنے والے ڈاکٹر انوپ سنگھ تھے۔
یہ امبیڈکر کے ایک بیان کے بارے میں تھا۔ امبیڈکر نے پہلے کہا تھا کہ ان کے دوست کہتے ہیں کہ انہوں نے آئین بنایا لیکن، وہ یہ کہنے کے لیے بالکل تیار ہیں کہ اسے نذر آتش کرنے والے وہ پہلے شخص ہوں گے۔ تب امبیڈکر کے اس بیان نے خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ امبیڈکر نے یہ کیوں کہا؟ انوپ سنگھ نے راجیہ سبھا میں پوچھا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا؟
امبیڈکر نے تب کہا تھا - ہم مندر اس لیے بناتے ہیں تاکہ بھگوان آئے اور اس میں بسے۔ لیکن، اگر بھگوان کے آنے سے پہلے شیطان آکر رہنا شروع کر دیں، تو مندر کو تباہ کرنے کے سوا اور کیا راستہ ہو گا۔ کوئی بھی یہ سوچ کر مندر نہیں بناتا کہ شاید اس میں شیطان آکر سکونت کریں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ دیوتا اس مندر میں سکونت کریں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آئین کو جلانے کی بات کی۔ اس پر ایک رکن نے کہا تھا کہ مندر کو تباہ کرنے کے بجائے ہم شیطان کو تباہ کرنے کی بات کیوں نہ کریں۔
تب امبیڈکر نے اس کا سخت جواب دیا۔ انہوں نے کہاکہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اسوروں نے ہمیشہ دیوتائوں کو شکست دی ہے۔ ان کے پاس امرت تھا جس پر لڑائی سے بچنے کے لیے دیوتائوں کو لے کر بھاگنا پڑا۔ امبیڈکر نے کہا تھا کہ اگر آئین کو آگے بڑھانا ہے تو ایک بات یاد رکھنی ہوگی۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اکثریت اور اقلیت دونوں ہیں۔ اقلیتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اکثریت یہ نہیں کہہ سکتی کہ 'نہیں، نہیں، ہم اقلیتوں کو اہمیت نہیں دے سکتے کیونکہ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔' میں یہ ضرور کہوں گا کہ اقلیتوں کو نقصان پہنچانا سب سے زیادہ نقصان دہ ہوگا۔
ڈاکٹر امبیڈکر تب آئین کی کئی دفعات میں ترمیم سے ناراض تھے۔ انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، جب تک اس پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا جائے گا، وہ مفید ثابت نہیں ہوگا۔ وہ یہ ماننے لگے تھے کہ ملک کی پانچ فیصد سے بھی کم آبادی پر مشتمل ایلیٹ کلاس ملک کی جمہوریت کو ہائی جیک کر لے گی۔ جس کی وجہ سے 95 فیصد طبقات کو آئین کا فائدہ نہیں ملے گا۔
ڈاکٹرامبیڈکر 14 اپریل 1891 کو ایک دلت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تب کسی دلت کے لئے تعلیم تک پہنچ آسان نہیں تھی مگر انہوں نے تعلیم حاصل کی اور اپنے دور کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لیڈروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے جدوجہد آزادی میں بھی حصہ لیا۔ وہ قانون داں ہونے کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی دسترس رکھتے تھے۔
ان کے پاس معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی دو ڈگریاں تھیں۔ ایک کولمبیا یونیورسٹی،امریکہ سے تھی اور دوسری لندن اسکول آف اکنامکس سے۔ظاہر ہے کہ اگر ایک دلت کو ڈرافٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا تو اس لئے کہ وہ واقعی اس اہم ترین کام کا اہل تھا۔ انہوں نے ثابت بھی کیا کہ وہی اس کے سب سے زیادہ اہل تھے مگر بعد میں انہیں یہ اندیشہ بھی کھاتا رہا کہ جس آئین کو بنانے میں انہوں نے خون پسینہ ایک کیا اس کا غلط استعمال نہ ہو۔