ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
جہاں تک مسجد میں نماز کے لیے خواتین کے جانے کا سوال ہے ، یہ سلسلہ خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں منقطع ہو چکا ہے ۔ انھوں نے اس پر پابندی عائد کردی تھی
اب اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں عورتیں مسجد میں جاکر نماز پڑھتی تھیں تو آج انہیں اس کی اجازت کیوں نہیں؟ '' تو اس کا یہ جواب دیا جائے گا کہ جب حضرت عمر نے مسجد میں عورتوں کے جانے پر پابندی عائد کردی تھی تو تمام صحابہ و صحابیات نے اسے قبول کرلیا تھا اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا _ اُس وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور دیگر ازواج مطہرات باحیات تھیں _ حضرت علی اور دوسرے دوسرے جلیل القدر صحابہ بھی موجود تھے _ جب سب نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو قبول کرلیا تھا تو آج کل کے انسانوں کی کیا اوقات کہ اس قانون کو توڑ کر ایک نیا فتنہ ایجاد کیا جائے _ اس فتنہ کو روکنا تمام صحیح العقیدہ مسلمانوں کے اوپر لازم ہے۔
جواب : ایک مفتی صاحب کی یہ تحریر مجھے میری اس پوسٹ کے جواب میں موصول ہوئی ہے جس میں میں نے مساجد میں خواتین کے داخلہ کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کے لیے مطلوبہ سہولیات فراہم کیے جانے کی بات کہی ہے _ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غلط بات کو بھی کتنے اعتماد اور جرأت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے؟ اور کتنی دیدہ دلیری سے شرعی طور پر ایک جائز کام کو فتنہ قرار دے کر اس سے روکنے اور وہ کام کرنے والوں کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے؟!
عورتیں نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہ جائیں ، یہ حضرت عمر کی خواہش تو ہوسکتی ہے ، لیکن کسی صحابی کی خواہش ، جسے دین کی سند حاصل نہ ہو ، واجب الاتباع نہیں ہے _ رہی یہ بات کہ حضرت عمر نے خواتین کی مسجد میں حاضری پر پابندی عائد کردی تھی اور اسے تمام صحابہ و صحابیات نے قبول کرلیا تھا اور اس پر عمل کیا جانے لگا تھا ، بالکل جھوٹ اور غیر تحقیقی بات ہے ۔
صحابیات اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں ، بعد میں حضرت ابو بکر کے عہد خلافت میں ، اس کے بعد حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں بھی برابر مسجد نبوی میں جاتی رہیں _ حضرت عمر خواہش کے باوجود انہیں روک نہ سکے _ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانے والی خواتین میں حضرت عمر کی بیوی حضرت عاتکہ بنت زید بھی تھیں _ وہ برابر مسجد جاتی رہیں _ جب حضرت عمر اپنے بیوی کو مسجد جانے سے نہ روک سکے تو دیگر عورتوں پر کیسے پابندی عائد کرتے؟
روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت عاتشہ سے دریافت کیا کہ"جب آپ کے شوہر کو عورتوں کا مسجد جانا پسند نہیں ہے تو آپ کیوں جاتی ہیں؟ "انہوں نے جواب دیا : "پھر وہ مجھے روک کیوں نہیں دیتے؟ " پوچھنے والے نے کہا کہ" انہیں معلوم ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے :" اللہ کی باندیوں (یعنی عورتوں) کو اللہ کے گھروں (یعنی مسجدوں) میں جانے سے نہ روکو _"(بخاری : 900) تب انھوں نے فرمایا : "جب تک وہ مجھے صاف الفاظ میں نہیں روکیں گے ، میں مسجد جاتی رہوں گی _" بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عاتکہ برابر مسجد جاتی رہیں _جس دن فجر کی نماز میں حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ ہوا اس نماز میں بھی وہ مسجد نبوی میں موجود تھیں
یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ حضرت عمر کے حکم امتناعی کے بعد مسجد نبوی میں خواتین کی حاضری موقوف ہوگئی تھی ۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے سے آج تک کبھی مسجد نبوی میں عورتوں کا نماز پڑھنے کے لیے جانا نہیں رکا ۔مسجد نبوی ہی نہیں ، مسجد حرام ، مسجد اقصٰی ، مسجد اموی دمشق اور دیگر تاریخی مساجد میں عورتوں کا داخلہ کبھی ممنوع نہیں ہوا ۔
بعد کے زمانوں میں محض اندیشوں کی بنیاد پر عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکا جانے لگا اور ایسا ماحول بنادیا گیا کہ مسجد جانے کی خواہش رکھنے والی خواتین وہاں جاہی نہ سکیں _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسجدیں اس طرح بنائی جاتیں اور ایسی سہولیات فراہم کی جاتیں کہ جو خواتین وہاں جانا چاہتیں، جاسکتیں _ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں کیا گیا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ خواتین کو ان حقوق سے محروم نہ کیا جائے جو شریعت نے انہیں عطا کیے ہیں اور انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ چاہیں تو ان سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں