یاد جگر: مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 12-09-2024
  یاد جگر: مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
یاد جگر: مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

 

جگر مرادآبادی کو یاد کرتے ہوئے

ڈاکٹر عمیر منظر
جگر مرآبادی کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں کیا جاتا ہے۔مشاعروں میں انھیں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔کہا جاتا ہے کہ مشاعروں میں ان کی آمد کسی بادشاہ کی طرح ہوتی تھی اور جب وہ پڑھتے تھے تو پورا مجمع ہمہ تن گوش ہوتا تھا۔ان کے دلفریب ترنم سے مشاعروں کہرام مچ جاتا تھا۔داد و تحسین اور آفرین کی صداؤں سے مشاعرہ گونج اٹھتا۔ان کے انداز شعر خوانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جگر مرادآبادی شعر نہیں پڑھتے تھے بلکہ جادو کرتے تھے،اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ آج کی رات صرف جگر مردآبادی کی غزلیں سننے کے لیے ہے۔ دنیا مشاعرہ گاہ میں سمٹ کر آگئی ہے اور اب جو کچھ ہونا ہے وہ یہیں ہوگا۔جگر صاحب کو اللہ تعالی نے لحن داؤدی عطا کیا تھا اور اس پر ان کے قیامت خیز اشعار، سننے والاوجد میں آجاتا۔آواز کی خوب صورتی سے ان کی شکل و صورت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔یہاں معاملہ قدرے مختلف تھا۔شمس الرحمن فاروقی نے شبلی کالج کے ایک مشاعرہ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے، جس میں انھوں نے جگر مرادآبادی کو پڑھتے ہوئے سنا تھا وہ لکھتے ہیں:
ایک سیاہ فام،بڑے بڑے بالوں والا،بدقوارہ شخص جھوم جھوم کر غزل پڑھ رہا تھا۔مجھے دھکا سا لگا،یہ کلام اور یہ آوازاور یہ مدقوق بھالو جیسی صورت۔لیکن کچھ دن میں یہ تاثر زائل ہوگیا اور میں نے یہ بات بھی گرہ میں باندھ لی کہ انسان کی صورت شکل اور اس کی اصل قدر وقیمت میں کوئی لازمی رشتہ نہیں۔
(اردو چینل،شمس الرحمن فاروقی نمبر ص 46)
اپنی مسحور آواز میں جب جگر یہ اشعار پڑھتے تو سننے والا دل ہار جاتا اور سوچتا کہ آج دنیا کا سب سے بڑا سچ محبت ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
اک لفظ محبت کا ادنی یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو ز مانہ ہے
مدت ہوئی اک حادثہ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی ادا یاد
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے رو برو
نادیدہ اک نگاہ کیے جارہا ہوں میں
جفا کرنے والوں کو کیا ہوگیا ہے
وفاکرکے ہم بھی تو شرما رہے ہیں  
اگرنہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
یہ اس طرح کے بے شمار اشعار جگر کی زبان سے سن کر ایک مدہوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی اورایسا لگتا کہ جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے۔
شاعری میں مقبولیت اور محبوبیت کے ساتھ ساتھ جگر مراد آبادی کثرت مے نوشی کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے تھے۔ان کی مے نوشی کے بے شمار واقعات ہیں جہاں ایک طرف وہ جھومتے جھامتے اسٹیج پر پہنچتے کبھی کبھی کئی لوگ پکڑ کر لاتے وہیں وہ اپنے اس فعل پر نادم ہوتے۔لوگوں سے کہتے بھی کہ میرے لیے دعا کریں۔مگر اس کے باوجود یہ عجیب بات ہے کہ ان سے علما کی ایک بڑی تعداد قرب رکھتی تھی وہ بھی ان کے عقیدت رکھتے تھے۔وہ مے نوشی کے بعد خاموش ہوجاتے کبھی کسی کو کچھ کہتے نہیں۔خود روتے دھوتے اور دعائیں کرتے۔
واعظ نہ اور نہ زاہد شب زندہ دار نے
مجھ کو جگا دیا میرے دل کی پکار نے
جگر مرادآبادی کا ایک طرف جہاں ادیبوں اور شاعروں سے تعلق تھا وہیں اہل علم اور اہل اللہ سے بھی انھیں عقیدت و ارادت رہی ہے۔وہ شاہ عبدالغنی بنگلوری سے بیعت تھے۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔خود جگر صاحب کی وضع داری اور اعلی ظرفی قابل رشک تھی۔بزرگوں کی صحبت نے انھیں زندگی کا ایک خاص سلیقہ عطا کیا تھا۔زندگی کی بعض ناہمواریوں کے باوجود وہ ایک راسخ العقیدہ انسان تھے۔ادبی اور مذہبی دونوں حلقوں میں جگرکو جو احترام اور محبوبیت حاصل تھی وہ کم شعرا کے حصے میں آئی۔
جگرمرادآبادی چشمے کے تاجر کے طورپر اعظم گڑھ آتے تھے یہیں مرزا احسان بیگ سے ان کا تعارف ہوا۔انھوں نے 1919میں ماہنامہ مخزن میں جگر مردآبادی کا تعارف کرایا۔ 1921میں جگر کا پہلا مجموعہ کلام ’داغ جگر‘ احسان بیگ کے مقدمے کے ساتھ معارف پریس سے شائع ہوا۔دوسرے مجموعے’شعلہ طور‘ کا تعارف سید سلیمان ندوی نے لکھا۔ماہنامہ معارف میں ”شعلہ طور“پر تبصرہ بھی شائع ہوا۔جگر کی غزلیں معارف میں شائع ہوتی تھیں۔شاہ معین الدین احمد ندوی کے بقول ”ان کا تعارف یہیں سے ہوا۔
جگر مراد آبادی اپنے احباب اور دیگر جاننے والوں کو پابندی سے خط لکھتے تھے۔جس میں مشاعروں کے معاوضے،مصروفیت، بیماری اور کاہلی کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ان چیزوں کو انھوں نے کبھی بھی کسی سے نہیں چھپایا۔مشاعروں کے سلسلے میں خود کو لکھاہے کہ ”فٹ بال بنارہتا ہوں“البتہ مشاعروں کے معاملات بہت صاف اور واضح لکھتے تھے کہ کن شرائط پر میں آسکتا ہوں، لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر کسی تعلیمی ادارے یا ان کے کسی نہایت قریبی عزیز کی طرف سے مشاعرہ ہورہا ہے تو بغیر کسی معاوضہ کے بھی شریک ہوجاتے تھے۔ دکنی ادب کے ممتاز اسکالر ڈاکٹر محی الدین قادری زور کو 17فروری 1942کو لکھتے ہیں:
آپ کا ذاتی احترام صحیح معنوں میں اپنے اندر رکھتا ہوں لیکن مشاعرے کی نوعیت ذاتی نہیں اجتماعی ہواکرتی ہے۔شرکت مشاعرہ کے متعلق میں نے چند شرائط اپنے اوپر عائد کررکھے ہیں او رنہایت مضبوطی سے ان پر عمل پیرا ہوں، جن مقامات سے زیادہ سے زیادہ 36گھنٹوں کے اندر واپس ہوسکتا ہوں،ان مقامات کی شرکت مشاعرہ کا معاوضہ اوقات کم ازکم پچاس روپیہ،علاوہ سکینڈ کلاس کرایہ آمد و رفت و اخراجات سفر کے لیتا ہوں۔عجیب معاملہ ہے کہ فی زمانہ علم بیچا جاتا ہے۔انصاف خریداجاتا ہے،لیکن شاعر کے ”اوقات“کی کوئی قیمت ہی نہیں، شاعرسے”علم وادب“کی خدمت کا واسطہ دے کر صرف ایثار طلب کیا جاتا ہے مشاعروں کا یہ عالم ہے کہ وبا کی طرح ہندستان پر محیط ہوتے جارہے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعر تمام عمر”فٹ بال“ہی بنا رہے۔حیدرآباد دوردراز مقام پر واقع ہے کم از کم پندرہ بیس دن سے کم صرف نہیں ہوتے ”شرکت مشاعرہ“کی غرض سے جب کبھی وہاں پہنچ سکتاہوں،میرے شرائط حسب ذیل رہے گے۔کرایہ آمد و رفت (سکینڈ کلاس)کے علاوہ مزید اخرجات بیس روپے معاوضہ اوقات۔ایک سو پچاس روپے امید ہے کہ آپ میری اس صاف بیانی پر ناخوش نہ ہوں گے یہ بھی عرض کرنا بھول گیا کہ اگر صرف ایجوکیشنل کانفرنس میں طلب کیا جاتا تو میرے شرائط میں یقینا کرایہ آمد و رفت میں شامل نہ ہوتا اگر چہ مجھے معلوم نہیں کہ ایجوکیشنل کانفرنس کا عملی کارنامہ کیا ہے اور محض نام کی ایجوکیشنل کانفرنس ہے یا کام کی بھی۔
(جگر کے خطوط،ڈاکٹر محمد اسلام،دانش محل لکھنؤ۔جولائی ۵۶۹۱، ص،۴۸۱-۵۸۱)
اردو کے مشہور ادیب ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اپنا ایک تجربہ ”ہم قلم“کراچی کے سال گرہ نمبر (1961)میں لکھا ہے:
جگر صاحب کا جواب آیا کہ وہ”پانچ سو روپے لیں گے کیونکہ یہ ان کا اصول ہے اور جہاں تک مشاعروں میں شرکت کرنے کا تعلق ہے وہ اس اصول کو توڑنے کو تیار نہیں“جگر صاحب کا جواب پڑھ کر مجھے بہت غصہ آیا میں نے پھر انھیں خط لکھا کہ اردو کے تقریباً تمام چوٹی کے شاعروں نے میری بات مان لی ہے اور وہ بغیر کسی معاوضہ کے اس مشاعرہ میں شریک ہورہے ہیں ایسی صورت میں آپ کو معاوضے کی اتنی رقم کیسے دی جائے عمر بک سوسائٹی کا حال بھی اچھا نہیں ہے ایسی صورت میں میری گزارش یہی ہے کہ آپ ریڈیو کے مشاعرے میں تو دلی تشریف لاہی رہے ہیں اس مشاعرے میں بھی میری خاطر شرکت کرلیجیے گا اس مشاعرہ کامقصد کاروباری نہیں ہے مسلمانوں کے چند تعلیمی اداروں اور مسلمان طالب علموں کی خدمت ہے لیکن جگر صاحب اس کے باوجود نہیں مانے جواب آیا کہ میں اپنے اصول کو نہیں توڑ سکتا اس لیے مشاعرہ میں شریک ہونے سے معذور ہوں..........مشاعرہ کا آغاز ہورہا ہے اور بابائے اردو کے افتتاحی خطبے کے بعدشعرا اپنا کلام سنانے لگے....اتنے میں دیکھتا ہوں کہ جگر صاحب صدر دروازہ سے پنڈال میں داخل ہوئے کئی لوگ ان کے ساتھ تھے میں انھیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ (جگر کے خطوط،ڈاکٹر محمد اسلام،دانش محل لکھنؤ۔جولائی ۵۶۹۱، ص ۴۳تا۵۳)
(ایضاً۔ص،۱۲۱)
جگر مرادآبادی نے اپنے احباب اور متعلقین کو اپنی بیماری کے بارے میں لکھتے تھے۔کچھ عوراض تو عمر کے تھے اور کچھ رندی و سرمستی کے دنوں کے عواقب تھے۔جگر نے تو خود ہی کہا ہے کہ  
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
حبیب صدیقی کے نام ایک خط (۹۱جون ۹۴۹۱)میں لکھتے ہیں:
میں فطرۃًکاہل ہوں عادۃًمریض اور ضرورۃً مصروف و منہمک بس مرنے کے لیے مجبور تاہم اپنے احباب و مخلصین کو کبھی نہیں بھولتا۔ (ایضاً۔ص،۲۷)
ہندستان سے غیر معمولی محبت کا اندازہ اردو کے مشہور ادیب اورماہنامہ نقوش جیسے تاریخ ساز رسالہ کے مدیر جناب محمد طفیل کے نام اس خط سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔یہ خط جس پر کوئی تاریخ نہیں ہے مگر خط سے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آزادی کے فوراً بعد کا ہے۔جگر صاحب لکھتے ہیں:
آپ کا خیال درست ہے کہ بظاہر ہندستان میں مسلمانوں کا رہنا مشکل نظر آتا ہے میں اگر پاکستان آنا چاہوں تو میرے لیے بڑی آسانیاں بھی ہیں لیکن جب میں بھی احباب کی طرح سوچتا ہوں تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے،وہ صرف اس لیے کہ اگر تمام صاحب رسوخ مسلمان پاکستان چلے گئے تو ان تمام بے سہارا مسلمانوں کا کیا ہوگا جو صرف خدا کی ذات پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں جن کے پاس نہ تن ڈھانکنے کو کپڑا ہے نہ ایک وقت کی روٹی۔میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ”جیونگا تو ہندوستان میں اور مرونگاتو ہندستان میں“(ایضاً۔ص،۳۹۱)
جگر ایک باکمال شاعر اور اپنے عہد کے بہت زیادہ مقبول شاعر تھے۔مشاعروں کی کوئی محفل ان کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی۔انھوں نے جو لکھا ہے کہ مشاعروں کی وجہ سے فٹ بال بنا رہتا ہوں اسی وجہ انھوں نے شاید سب سے پہلے مشاعروں میں اعزازیہ لینے کے کچھ اصول و ضوابط اپنے لیے وضع کیے۔لیکن اسی کے ساتھ وہ ایک حساس اور دل درد مند رکھنے والے انسان تھے۔ان کی شاعری کے قدر دان اور اس کو پڑھنے والوں کی تعداد آج بھی بہت ہے۔
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے