سرسید کی برسی : ہمیں احتساب اور تعلیمی انقلاب کو مزید آگے لے جانے کی ضرورت ہے- وی سی
علی گڑھ،: سر سید احمد خان کی برسی ایک ایسا موقعہ ہے جب ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیے
ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے کیا، انہوں نے سر سید کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے ان کے تعلیمی انقلاب کو مزید آگے بڑھانے کا عہد کرنا چاہیے۔
جمعرات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اساتذہ، طلبہ اور عملے کے اراکین نے بانیئ درسگاہ سر سید احمد خاں علیہ الرحمہ کی 127ویں برسی پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
یونیورسٹی کی جامع مسجد میں قرآن خوانی اور دعا کا اہتمام کیا گیا، جس کے بعد ان کے مزار پر پھولوں کی چادر پیش کی گئی۔ اے ایم یو برادری نے اس موقع پر سر سید کے تعلیمی، سماجی اور اصلاحی نظریات کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد محسن خاں نے کہا کہ سر سید جدید تعلیم کے داعی تھے اور انہوں نے مذہب اور عقل کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سرسید کی جدوجہد کا ذکر کیا جس کے ذریعے انہوں نے مذہب اور عقل کے امتزاج کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کو فروغ دیا۔
اے ایم یو کے رجسٹرار محمد عمران آئی پی ایس، پراکٹر پروفیسر ایم وسیم علی،ڈی ایس ڈبلیو پروفیسر رفیع الدین، لائبریرین پروفیسر نشاط فاطمہ، ایم آئی سی پی آر او پروفیسر وبھا شرما،پروفیسر ایم شافع قدوائی، ڈائرکٹر سرسید اکادمی، ویمنس کالج کے پرنسپل پروفیسر مسعود انور علوی، ڈاکٹر عبدالرووف، پرووسٹ ایس ایس ساؤتھ، پروفیسر آدم ملک خاں پرووسٹ، ایس ایس نارتھ،، فائننس آفیسر مسٹر نور السلام سمیت دیگر عہدیداران نے بھی سرسید علیہ الرحمہ کی گرانقدر خدمات کو یاد کرتے ہوئے ان کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا
آپ کو بتا دیں کہ سر سید احمد خاں (1817-1898) برطانوی ہندوستان کے ایک عظیم سماجی مصلح، ماہر تعلیم اور مفکرتھے۔ وہ 17اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور انہوں نے روایتی اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ فارسی اور انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مسلمانوں میں جدید سائنسی علوم کے فروغ کے لیے انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی، جس کا مقصد انگریزی میں موجود سائنسی مواد کو اردو میں ترجمہ کر کے عام کرنا تھا۔
سال 1875 میں انہوں نے مدرسۃ العلوم قائم کیا جو 1877 میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج بنا ، پھر 1920میں ترقی کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہوگیا۔ سر سید کا خواب ایک ایسے تعلیمی ادارے کا قیام تھا جہاں مغربی طرزِ تعلیم کو ہندوستانی ثقافتی شناخت کے ساتھ ہم آہنگ کی جاسکے۔
ان کی تصنیفات آثار الصنادید اور اسبابِ بغاوتِ ہند ان کی علمی فہم اور فکری گہرائی کی عکاسی کرتی ہیں۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی بھرپور وکالت کی اور ہندو مسلم کو ایک دلہن کی دو آنکھوں سے تشبیہ دی، جو ان کے ہم آہنگی اور یکجہتی کے نظریے کی عکاس ہے۔ مہاتما گاندھی نے انہیں تعلیم کا پیغامبر قرار دیا، کیونکہ انہوں نے جدیدتعلیم کے ذریعے مسلمانوں کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
17مارچ 1898 کی رات تقریباً دس بجے سر سید احمد خاں کا انتقال نواب اسماعیل خان، رئیس دتاولی کے مکان میں ہوا، جو سرسید کے بے حد قریبی اور اے ایم یو کے نمایاں معاونین میں سے ایک تھے۔ یہ مکان دارالانس کمپاؤنڈ، علی گڑھ میں واقع تھا۔ سر سید کی آخری سانسیں جس کمرے میں لی گئیں، وہاں ایک سنگِ مرمر کی تختی آج بھی ان کی یاد تازہ کرتی ہے، اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ کمرے میں کئی مرتبہ تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ ان کے انتقال سے ایک تعلیمی اور فکری عہد کا خاتمہ ہوگیا، تاہم ان کی علمی اور اصلاحی میراث آج بھی زندہ ہے۔