علی احمد : نئی دہلی
کیا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ لیے روزہ رکھنا افضل ہے یا روزہ نہ رکھنا افضل ہے؟
اگر سفر کی مسافت کی مقدار کم سے کم اڑتالیس میل (سو ستتر کلومیٹر) یا اس سے زیادہ ہے تو ایسے شخص کو اپنے شہر کے حدود سے نکلنے کے بعد روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہوگا، اور نہ رکھنے کی صورت میں بعد میں اس روزہ کی قضا کرنا لازم ہوگی، تاہم اگر سفر کے دوران روزہ رکھنے میں سہولت ہے، دشواری نہیں ہے تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے، اگر روزہ رکھنے میں مشقت اور دشواری ہے تو اس صورت میں روزہ نہ رکھنے کی بھی اجازت ہے، اور اگر شرعی سفر میں مشقت بہت زیادہ ہو (جس کا تحمل روزہ دار کے لیے مشکل ہو) تو روزہ نہ رکھنا بہترہے، بہر دو صورت بعد میں اس روزہ کی قضا کرلے۔ اور شرعی طور پر اس شخص کے لیے سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے جو صبح صادق کے وقت سفر میں ہو اور شرعی مسافر بن چکا ہو( یعنی شہر کی حدود وغیرہ سے نکل چکاہو)، اور اگر کوئی شخص صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو اس کے لیے روزہ چھوڑناجائز نہیں اگرچہ دن میں اس کا سفر میں جانےکاارادہ ہو۔ شرعی مسافر اگر اپنے سفر کی منزل پر پہنچ جائے اور وہاں اس کا پندرہ دن سے کم قیام ہو تو وہاں بھی مسافر ہی شمار ہوگا، اور اگر پندرہ دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو پھر وہ مسافر نہیں ہوگا، بلکہ مقیم ہوجائے گا اور اس پر روزہ رکھنا لازم ہوں گے۔ باقی مسافر جب سفر کے بعد اپنے وطن پہنچ جائے تو اس پر پھر باقی ایام کے روزہ رکھنا لازم ہوں گے اور سفر میں روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے ان روزوں کا ثواب کم نہیں ہوگا، البتہ سفر میں جو روزے چھوڑدیے ہیں ان کی قضا کرنا لازم ہوگا۔
سفر کی حالت میں روزہ رکھنا اور روزہ نہ رکھنا دونوں جائز ہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ کیا میں سفر کی حالت میں روزہ رکھوں؟ (یعنی اگر میں رمضان میں سفر کروں تو روزہ رکھوں یا نہ رکھوں اس بارے میں کیا حکم ہے؟) اور حمزہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ روزے رکھا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، کہ یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے چاہو رکھو اور چاہے نہ رکھو۔ (بخاری و مسلم)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں جائز ہیں خواہ سفر صعوبت و مشقت کے ساتھ ہو یا راحت و آرام کے ساتھ تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اگر سفر میں کوئی صعوبت و مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اور صعوبت و مشقت نہ ہو تو پھر نہ رکھنا بہتر ہو گا، نیز حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے یہاں یہ مسئلہ ہر سفر کے لیے خواہ مباح اور جائز امور کے لیے سفر ہو یا معصیت و برائی کے لئے، جب کہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ روزہ نہ رکھنے کی اجازت کا تعلق صرف مباح اور جائز سفر سے ہے اگر معصیت و برائی کے لئے سفر ہو گا تو اس صورت میں رمضان کا روزہ نہ رکھنا جائز نہیں ہو گا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جہاد کے لئے روانہ ہوئے تو رمضان کی سولہویں تاریخ تھی ہم میں سے کچھ لوگوں نے (جو قوی تھے) روزہ رکھا اور کچھ لوگوں نے (جو ضعیف تھے یا یہ کہ دوسروں کے خدمت گار تھے) روزہ نہ رکھا چنانچہ نہ تو روزہ داروں نے روزہ نہ رکھنے والوں کو معیوب جانا کیونکہ انہوں نے رخصت یعنی اجازت پر عمل کیا تھا اور نہ روزہ نہ رکھنے والوں نے روزہ داروں کو معیوب سمجھا (کیونکہ انہوں نے عزیمت پر عمل کیا تھا)۔ (مسلم)
ضعف اور مشقت کی حالت میں روزہ نہ رکھنا ہی لیے بہتر ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت سفر میں تھے کہ ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجمع دیکھا اور ایک شخص کو دیکھا جس پر دھوپ سے بچاؤ کے لئے سایہ کیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ شخص روزہ دار ہے جو ضعف کی وجہ سے گر پڑا ہے آپ نے فرمایا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم)
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر روزہ رکھنے کی صورت میں ضعف و ناتوانی کی وجہ سے روزہ دار کی اتنی خستہ حالت ہو جائے تو اس کے لیے سفر میں روزہ رکھنا کوئی زیادہ بہتر بات نہیں ہے۔ بلکہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے ہم میں سے کچھ لوگ تو روزہ دار تھے اور کچھ لوگ بغیر روزہ کے تھے، جب ہم ایک منزل پر اترے تو گرمی کا دن تھا جو لوگ روزہ سے تھے وہ تو گر پڑے (یعنی ضعف و ناتوانی کی وجہ سے کسی کام کے لائق نہیں رہے) اور جو لوگ روزہ سے نہیں تھے وہ مستعد رہے (یعنی اپنے کام کاج میں مشغول ہو گئے) چنانچہ انہوں نے خیمے کھڑے کئے اور اونٹوں کو پانی پلایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ روزہ نہ رکھنے والوں نے آج ثواب کا میدان جیت لیا۔ (بخاری و مسلم)
یعنی جن لوگوں نے آج روزہ نہیں رکھا زیادہ کامل ثواب انہیں لوگوں کے حصہ میں آیا کیونکہ ایسے وقت میں ان کے لیے روزہ نہ رکھنا ہی بہتر تھا۔
لفظ الیوم سے اس طرف اشارہ ہے کہ روزہ نہ رکھنے کی یہ فضیلت روزہ داروں کی خدمت گاری کی وجہ سے حاصل ہوئی نہ کہ مطلقاً نیز یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کے نیک و صالح بندوں کی خدمت نوافل سے افضل ہے۔
سفر میں روزہ توڑنے کی اجازت ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سفر میں روزہ رکھا یہاں تک کہ جب عسفان (جو مکہ سے دو منزل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پہنچے تو پانی منگوایا پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پانی کو ہاتھ میں (لے کر بہت اونچا) اٹھایا (تاکہ لوگ دیکھ لیں) اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ توڑ ڈالا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ تشریف لائے اور یہ سفر رمضان میں ہوا تھا، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (سفر کی حالت میں) روزہ رکھا بھی اور نہیں بھی رکھا لہٰذا جو چاہے (سفر کی حالت میں) روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک اور روایت جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کے بعد پانی پیا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ میں لے کر یا اونچا اس لیے اٹھایا تاکہ لوگ جان لیں کہ سفر کی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے یا پھر یہ مقصد تھا کہ دوسرے لوگ بھی آپ کی متابعت میں اپنا اپنا روزہ افطار کر لیں۔
حالت سفر میں روزہ کی معافی
حضرت انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے لیے آدھی نماز موقوف کر دی ہے اسی طرح مسافر دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے لیے روزہ معاف کر دیا ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
آدھی نماز موقوف کر دی ہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لیے بھی پہلے چار رکعت نماز فرض تھی پھر بعد میں دو رکعت رہ گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لیے ابتداء ہی سے آدھی نماز فرض فرمائی ہے کہ وہ چار رکعت والی نماز دو رکعت پڑھے اور دو رکعت کی قضا واجب نہیں ہے اسی طرح روزہ کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ حالت سفر میں روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ مگر سفر پورا ہونے کے بعد مسافر جب مقیم ہو جائے گا تو اس روزہ کی قضا اس پر ضروری ہو گی۔
دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان کے لیے بھی جائز ہے کہ اگر روزہ کی وجہ سے بچہ یا خود ان کو تکلیف و نقصان پہنچنے کا گمان غالب ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں لیکن عذر ختم ہو جانے کے بعد ان پر بھی قضاء واجب ہو گی فدیہ لازم نہیں ہو گا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے مسلک کے مطابق ان پر فدیہ بھی واجب ہے۔
سفر میں آسانی اور آرام ہو تو روزہ رکھ لینا مستحب ہے
حضرت سلمہ بن محیق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس ایسی سواری ہو جو اسے منزل تک آسانی اور آرام کے ساتھ پہنچا دے (یعنی اس کا سفر با مشقت نہ ہو بلکہ پر سکون اور پر راحت ہو) تو اسے چاہئے کہ جہاں بھی رمضان آئے روزہ رکھ لے۔ (ابو داؤد)
یہ حکم استحباب اور فضیلت کے طور پر ہے ورنہ تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مسئلہ یہی ہے کہ حالت سفر میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے خواہ سفر کتنا ہی پر سکون اور پر راحت کیوں نہ ہو ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے سال رمضان کے مہینہ میں مکہ کی طرف چلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ رکھا۔ یہاں تک کہ کراع الغمیم (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان عسفان کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) پہنچے تو دوسرے لوگ بھی روزہ سے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیالہ میں پانی منگوایا اور اسے (ہاتھ میں لے کر اتنا) اونچا اٹھایا کہ لوگوں نے دیکھ لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ پانی پی لیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا (یعنی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی متابعت میں روزہ توڑا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ لوگ پکے گنہگار ہیں۔ وہ لوگ پکے گنہگار ہیں۔ (مسلم)
وہ لوگ پکے گنہگار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی انتہائی ناراضگی کے اظہار کے طور پر یہ الفاظ دو مرتبہ ارشاد فرمائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کو اپنے ہاتھوں میں اونچا اٹھا کر اس لیے پیا تھا تاکہ دوسرے لوگ بھی مطلع ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی جو اجازت عطا فرمائی ہے اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی و متابعت کریں مگر انہوں نے روزہ رکھ کر گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فعل کی مخالفت کی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی رخصت (اجازت و آسانی) قبول نہ کی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے اس طرز عمل پر برہمی کا اظہار فرماتے ہوئے اس طرح فرمایا کہ گویا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے۔
سفر میں روزہ رکھنا اور حضر میں روزہ نہ رکھنا، دونوں میں مشابہت
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حضر میں (یعنی اپنے مستقر پر) روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح حالت حضر میں روزہ نہ رکھنا بڑے گناہ کی بات ہے اسی طرح سفر کی حالت میں روزہ رکھنا ایک بہت بڑا گناہ ہے لیکن اکثر علماء فرماتے ہیں کہ یا تو یہ حدیث منسوخ ہے یا پھر اس حالت پر محمول ہے جب کہ سفر میں روزہ تکلیف و نقصان کا باعث بنے یا روزہ دار کی ہلاکت کا اندیشہ ہو۔
سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی اولیٰ ہے
حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں سفر کی حالت میں اپنے اندر روزہ رکھنے کی قوت پاتا ہوں کیا (روزہ رکھنے کی صورت میں) مجھ پر گناہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہ (یعنی سفر میں روزہ نہ رکھنا) اللہ رب العزت کی طرف سے رخصت ہے لہٰذا جس شخص نے یہ رخصت قبول کی اس نے اچھا کیا اور جو شخص روزہ رکھنا ہی چاہے تو اس پر کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ (مسلم)
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ سفر کی حالت میں روزہ رکھنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، لیکن بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ روزہ نہ رکھا جائے۔