ڈاکٹر اطہر حسین کی ماہنامہ معارف کی تحقیقی خدمات (عہد ِ سلیمانی تک)پر ایک نظر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-10-2024
ڈاکٹر اطہر حسین کی ماہنامہ معارف کی تحقیقی خدمات (عہد ِ سلیمانی تک)پر ایک نظر
ڈاکٹر اطہر حسین کی ماہنامہ معارف کی تحقیقی خدمات (عہد ِ سلیمانی تک)پر ایک نظر

 

 وسیم احمد اعظمی

              زیر مطالعہ کتاب ڈاکٹر اطہر حسین(پ:یکم جنوری 1992ء،سنت کبیر نگر،اُتر پردیش) کے سندی تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ]ڈاکٹر آف فلاسفی[ کا ایک حصہ ہے، جو مولانا آزا د نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد سے عطا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عمیر منظر کی نگرانی میں لکھا جانے والا یہ پہلاسندی تحقیقی مقالہ ہے۔ مقالہ کا عنوان غیر معمولی مطالعہ اور تلاش و تحقیق کا متقاضی تھا، جس کو جواں سال مقالہ نگار نے بہ خوبی انجام دیا ہے اور اس کے عزم و اعتماد کو دیکھئے کہ اس کو اشاعت کے مراحل سے گزار اہل علم و دانش کی بصیرتوں کے حوالے کردیا۔ علامہ شبلی نعمانی(ولادت:4/ جون1857ء —وفات:18/ نومبر1914ء)نے ندوۃ العلماء،لکھنؤ سے دست کشی کے بعدماہنامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ کے نام اور اس کے اغراض و مقاصدکا ایک خاکہ1914ء میں تیار کیا تھا۔دار المصنفین میں محفوظ ان کی ایک قلمی یاداشت سے درج ذیل تفصیلات منقول ہیں

۱۔ نام:’معارف‘ ہوگا۔

۲۔ چیف ایڈیٹر: شبلی

۳۔اسٹاف:مولوی سلیمان، مولوی عبد الماجد، مسٹر حفیظ، مولانا عبد السلام

تعداد صفحات،تقطیع و کاغذ: 29x20ضخامت 40، قیمت ہے(؟،کذا)

تنوعات مضامین: فلسفہ،تاریخ قدیم و جدید، سائنس

ادبیات: شعر،اردو شاعری کی تاریخ اور اسالیب متنوعہ

اقتباسات: مجلات علمیہ یورپ،مصر و بیروت

فن تعلیم: کتب نادرہ کا ذکراور ان کے اقتباسات یا ان پر اظہار رائے

تنقید: کتب یا علوم قدیمہ پر

مصر سے المقتطف، الہلال، المنار اور بیروت سے المقتبس منگوائے جائیں، بقیمت۔یورپ کے علمی پرچے منگوائے جائیں۔

علامہ شبلی نعمانی کے اس مشن کو علمی جامہ ان کے جانشین علامہ سید سلیمان ندوی(ولادت:22/ نومبر1844ء  —  وفات:23/ نومبر1953ء)نے پہنایا اور اس کا پہلا شمارہ جولائی۶۱۹۱ء میں منظر عام پر آیا اور کسی انقطاع کے بغیرتا دم تحریر یہ مجلہ شائع ہورہا ہے۔ ماہنامہ ’معارف‘ کے بارے میں ڈاکٹر اطہر حسین لکھتے ہیں:

ماہنامہ ’معارف‘ بنیادی طور پر علمی تحقیقی رسالہ ہے،جس کا مقصد نئے گوشوں کی تلاش اور ادب کا معیار متعین کرنا ہے۔’معارف‘ نے ہمیشہ سے تحقیقی موضوعات کو فوقیت دی ہے۔ادب’معارف‘ کا اوّلین حوالہ نہیں، البتہ اس کے توسط سے علم و ادب کے نئے نئے گوشوں کا نہ صرف انکشاف ہوا ہے،بلکہ بہت سے قدیم اور نایاب مخطوطوں اور کتابوں کی تحقیق اور ان کا تعارف بھی پیش کیا ہے،جس سے علمی و ادبی دنیا واقف نہیں تھی“۔  ]پیش لفظ:ص ۸[

مصنف نے اپنی ’معارف تحقیق‘کو مولانا سید سلیمان ندوی کے دورِ ادارت(1951 — 1916)تک محدود رکھا ہے۔اس کتاب کے محتویات کی فہرست درج ذیل ہے:

پیش لفظ: ڈاکٹر اطہر حسین

تقریظ: پروفیسر شمس الہدیٰ دریا بادی

مقدمہ: ڈاکٹر عمیر منظر

دار المصنفین اور ماہنامہ معارف: اجمالی تعارف

       ۱۔دار المصنفین       ۲۔ماہنامہ ’معارف

ماہنامہ ’معارف‘ کی تحقیقی خدمات  

      ۱۔قلمی نسخوں اور مخطوطات کی بازیافت       ۲۔دکنیات

     ۳۔غالبیات        ۴۔ اقبالیات          ۵۔لسانیات

متفرقات

     ۱۔ادبا و شعرا کے احوال سے متعلق تحقیق

    ۲۔ مختلف لائبریریوں میں موجود مخطوطوں کا تعارف

     ۳۔ شعرا کے تذکروں سے متعلق تحقیق

کتابیات

اس ذیل میں ۵۸مصادر کی جملہ اشاعتی تفصیلات،جن سے اس کتاب کی تصنیف میں مدد لی گئی ہے۔

ماہنامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ سے کئی اوّلیات وابستہ ہیں۔اس میں قدیم متون اور خطّی نسخوں کی دریافت اوربازیافت، دکنیات،غالبیات اور اقبالیات کے حوالہ اے اوّلین تحریریں شائع ہوئی ہیں۔لسانیات کا بڑا سرمایہ بھی اس کے اوراق میں محفوظ ہے۔اس میں شائع مقالات اور مضامین نے متعدد علوم و فنون کو تحقیق کا نیا نہج اور منہج دیا ہے۔ڈاکٹر اطہر حسین تحریر کرتے ہیں:

”....ابتدائی تحقیق سے آج تک کی روایت پر اگر نظر ڈالی جائے تو ’معارف‘ کی یہ تحریریں اس روایت کا خوش گوار پَرتو ہیں۔علم و تحقیق کی دنیا کے بے شمار مباحث یہاں پیش ہوئے، جو آئندہ کی تحقیقی سرگرمیوں کے لیے ایک رہنما اصول کی مثال بنے“۔   (ماہنامہ معارف کی تحقیقی خدمات ،ص۹۹)

خواجہ میر اثرؔ ] خواجہ میر درد ؔکے برادر خُرد[ کی مثنوی’خواب و خیال‘ کے علاوہ مرزا محمد اسماعیل جان طیش ؔ کی ’شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘،شیدائی ؔ کی’صرف اردو‘،میر غلام علی آزادؔ بلگرامی کا’گربہ نامہ‘،اشرف علی فغاں ؔ کے متعدد خطّی دیوان،دیوان سوداؔ کے ایک’نادر نسخہ کی خبر،’مجمع گنج‘]کلکتہ اسکول بک سوسائٹی [،’لوامع الاشراف فی مکارم الاخلاق‘ ] اخلاق جلالی[ کا مولوی امانت اللہ کا اردو ترجمہ’جامع الاخلاق‘،خود نوشت سوانح عمری خواجہ الطاف حسین حالیؔ،شاہ رکن الدین عشقؔ عظیم آبادی کا’تذکرہ ئ عشق‘،‘کلیات عشقؔ‘،شادؔ عظیم آبادی کا’متروکات شاد‘ؔ،میر حسن کی مثنوی ’رموز العارفین‘اورمصحفیؔ کے دیوان پنجم خطّی پر پہلی بار گفتگو ’معارف‘ میں ہی ہوئی۔

دکنی اردو ادب کو علمی ادبی دنیا میں متعارف کرانے میں ’معارف‘ کو اوّلیت حاصل ہے۔ڈاکٹر اطہر حسین لکھتے ہیں:

دکنی مباحث کے بہت سے ایسے پہلو ہیں، جس کو’معارف‘نے سُلجھایا ہے،.....جب علم و تحقیق کی دنیا آباد کی تو دکنیات سے متعلق سے بہت سے گوشوں کو پیش کیا، دکنی کتابوں کا تعارف کرایا“۔(ماہنامہ معارف کی تحقیقی خدمات،ص۳۵۱)

فخر دین نظامی کی مثنوی ’کدم راو پدم راو‘،اردو کی سب سے ضخیم مثنوی کمال خاں رستمی کی’خاور نامہ‘،علی عادل شاہ ثانی شاہی کی ’اردو کلیات‘ کے خطّی نسخے کی بازیافت،شیخ داؤد ضعیفی دکنی کی کتاب’نصیحت مدن‘،اسی طرح بالا جی نایک،سید میران ہاشمی بیجا پوری کی بعض تخلیقات اور ابراہیم عادل شاہ ثانی کا ہندی راگ راگنیوں کا مجموعہ ’نورس‘،اعز الدین نامیؔ کی مثنوی’احوال قادر ولی‘کے بارے میں تحقیق و پیش کش ’معارف‘ کی اوّلیات میں ہے۔اسی طرح ’دکنیات‘ پربیش قدر مضامین کی اشاعت کا تقدم زمانی بھی اسے کے حصہ میں آیاہے۔   

 ’غالب تحقیق‘ کا بڑا کام ’معارف‘کے ذریعہ ہوا،خواہ وہ ’دیوان غالبؔ‘ کی تحقیق ہو، ’خطوط غالبؔ‘ کی بازیابی ہو، تلامذہئ غالبؔ کا تذکرہ ہویا پھر ’غالبؔ تنقید‘۔مطالعہئ غالبؔ میں نسخہئ حمیدیہ کی دریافت دار المصنفین کے فرد فرید مولانا عبد السلام ندوی کی عطا اور ’معارف‘ کی اوّلیات میں ہے۔’اقبالیات‘ بھی ’معارف‘ کا ایک اہم باب ہے۔علامہ اقبال کو دار المصنفین اور معارف سے ایک نسبت خاص تھی،جوعلامہ شبلی سے ہوکر علامہ سید سلیمان ندوی تک پہنچی تھی،اسی تعلق سے اقبال کی تحریریں بھی اس میں چھپیں اور ان پر لکھی گئی تحریریں بھی اس میں شائع ہوئیں۔یہ ادبی سچائی ہے کہ ’تفہیم اقبال‘ میں بھی ’معارف‘ نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔

متفرقات‘ کے ذیل میں ادیبوں اور شاعروں کے احوال سے متعلق تحقیق، مختلف کتب خانوں میں دستیات خطّی نسخوں کا تعارف اور شعرا کے تذکروں سے متعلق تحقیق کے حوالے سے بھی مصنف ِ کتاب کا شوق ِ مطالعہ اورتلاش و تفحص دیدنی ہے۔

ڈاکٹرا طہر حسین دار العلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ سے مستند، انتہائی ذہین اور مطالعہ سے شغف رکھنے والے جواں سال اسکالر ہیں، مشرقی آداب سے آراستہ اورحفظ مراتب کے  پاسدار،نیک خو اور سعادت مندشخص ہیں۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں ڈاکٹر عمیر منظر جیسا نگراں ملا، جوخود بھی کام کرتے ہیں اوراپنے تلامذہ سے کام لینے کا ہنر بھی جانتے ہیں،اسی لیے اس کتاب کی قرأت کے بیشتر مرحلے میں ’کوزے میں سمندر‘ کا احساس ہوتا ہے۔ان کی مرتب کردہ ایک کتاب’آشنا چہرے‘ (۰۲۰۲ء) ادبی علمی حلقے میں پسند کی گئی ہے۔

زیر نظرکتاب میں کچھ تسامحات بھی راہ پا گئے ہیں اور بعض جگہوں پرحوالوں کے اندراج میں اصولی توضیع بھی نہیں ملتی،بایں ہمہ یہ کتاب بہت خوب ہے اور بھر پور قرأت کی متقاضی ہے۔ اس بیش قدر تصنیف کے لیے ڈاکٹر اطہر حسین کو صمیم قلب سے مبارک باد