علی گڑھ،:دارا شکوہ کی خدمات سرحدوں اور ثقافتوں سے ماورا ہیں، جس سے وہ عالمی امن اور بقائے باہمی کی علامت بن کر سامنے آتے ہیں اور ان کی تخلیقات’مجمع البحرین‘ اور 52 اپنشدوں کے سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ، جسے انہوں نے ’سرِّاکبر‘ کا نام دیا ہند-فارسی ادب کا خزانہ ہیں۔ ان تاثرات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کی کوآرڈینیٹراور شعبہ تاریخ کی چیئرپرسن پروفیسر گلفشاں خان نے کیا جو انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹڈیز، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر کے زیر اہتمام ’دار شکوہ: عالمی امن اور بقائے باہمی کے نقیب‘ موضوع پر منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار میں کلیدی خطبہ دے رہی تھیں
پروفیسر گلفشاں خان نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ کی زندگی، خدمات اور ورثہ پر روشنی ڈالی۔اہلیہ نادرہ بانو کو تحفے کے طور پر پیش کردہ ’دار شکوہ البم‘ کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر گلفشاں خان نے بتایا کہ کس طرح دارا شکوہ اپنے عنفوان شباب میں مصوری اور خطاطی کے فن میں گہری دلچسپی رکھتا تھا اور اس کا ’مرقع‘ واحد مغلیہ البم ہے جو ابھی تک محفوظ ہے جس میں متعدد خاکے، 68 پینٹنگز، خطاطی اور اوریجنل کوور شامل ہیں۔ اس البم میں نوجوان شہزادوں، کنبہ کے افراد، اساتذہ، پھولوں اور مذہبی شناختی علامات (ہندو اور مسلم دونوں) کے پورٹریٹ موجود ہیں، جس سے نوعمری میں ہی داراشکوہ کی مذہب اور فلسفے میں دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔