ڈاکٹر تابش مہدی کلاسیکی اندازکے شاعر اور پہلو دار شخصیت رکھتے تھے۔پروفیسر شہپررسول
لکھنؤ :ڈاکٹر تابش مہدی ڈاکٹر تابش مہدی کلاسیکی اندازکے شاعر تھے اور ان کے ترنم میں بڑا رچاؤ تھا۔ وہ مہذب انداز میں اپنی بات رکھنے کی جرآت رکھتے تھے۔ان خیالات کا اظہار دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین پروفیسر شہپر رسول نے بزم تابش کے زیر اہتمام ڈاکٹر تابش مہدی کے سلسلے میں منعقد آن لائن تعزیتی نشست میں کیا۔تعزیتی نشست کے آغاز ڈاکٹر محمد خالد خاں نے قرآن پاک کی تلاوت کی اورجناب سحر محمود نے ڈاکٹر تابش مہدی کی ایک نعت ترنم سے پیش کی۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیا۔جناب مظفر نایاب(قطر)نے قطعہ تاریخ وفات پیش کیا۔دانش نور پوری اور نور العین قیصر نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
صدارتی کلمات میں پروفیسر شہپررسول نے کہا کہ وہ ایک بہترین فن کار اور شخص تھے۔انھوں نے اپنے آداب کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ان کی سچی اور اچھی شخصیت دیر تک ان کی یاد دلاتی رہے گی وہ بلند اوصاف کے حامل تھے۔
پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ ان کی ذات علم و عمل کے امتزاج کا اعلی نمونہ تھی۔ان کے خلوص اور محبت کے بیان کے لیے ایک دفتر چاہیے۔مولانا محمد طاہر مدنی نے اپنی طویل رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جامع الکمال تھے۔ایک درد مند دل رکھتے تھے۔محبت رسول میں انھیں درجہ کمال حاصل تھا۔پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ شاعری کے فن پرانھیں دسترس حاصل تھی۔ان کی شخصیت میں تصنع بالکل نہیں تھا۔پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ اپنی طرح کے وہ بے مثل انسان تھے۔حوصلہ افزائی ان کا شعار تھا۔مولانا بدرالاسلام قاسمی (دیوبند)نے کہا کہ وہ تابش مہدی ہر طبقے میں مقبول تھے۔روابط سب سے تھے۔بے حد مخلص اور علم دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے موقف پر جمے رہنے کی ہمت اور استقامت میں بھی دور دور تک ان کا ثانی نہیں ملے گا۔ڈاکٹر محمد ارشد (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ)نے کہا کہ تابش مہدی کے انتقال سے خرد نوازی اور حوصلہ افزائی کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ان کی زندگی عزم وحوصلے اور غیر ت و خود داری کا نمونہ تھی۔ڈکٹر محمد اکرم السلام (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہئ عربی دہلی یونی ورسٹی)نے کہا کہ ان میں ادب آموزی کا انتہائی انداز تھا۔ان کی نعتوں میں خلفائے راشدین اور مدح صحابہ کا پہلو بہت نمایاں رہتا تھا۔ڈاکٹر محمد خالد خاں (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ)اپنے دیرینہ روابط کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کا اصلاحی اور تربیتی پہلو مثالی تھا۔ممتاز صحافی ڈاکٹر منور حسن کمال نے کہا کہ ان میں غیر معمولی سلیقہ مندی تھی نیز ان کا انداز مشفقانہ تھا شعبہ اردوکلکتہ یونی ورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر امتیاز وحید نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی اپنے عہد کے نمایاں اسلوب کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کے عہد کی تفہیم میں ان کا ذکر خیر ناگزیر ہے۔اس موقع پر انھو ں نے یہ بھی کہا کہ تابش مہدی نے تدریس اور فن تجوید کو سکہ بند اور ذمہ داریوں سے اوپر اٹھ کر ایک مشن کے طورپر متعارف کرایا۔ڈ اکٹر طارق احسن(ممبئی)نے انھیں ایک عظیم شخصیت قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے بلا کا حافظہ پایا تھا۔ڈ اکٹر عمیر منظر نے کہا کہ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ان کے نثری کارنامے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔جناب عبدالمنان مظہر نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنے وقت کا انقلابی استعمال کیا۔ان کے اندر قرآن کی خدمت کا بے پناہ جذبہ موجود تھا۔دانش ریاض (ممبئی)نے کہا کہ ان جیسا مخلص اور مربی میں نے نہیں دیکھا۔سب کا خیال رکھتے تھے۔
رمیصا رحمن (دلی)نے کہا کہ ان کی حیثیت میرے مربی کی تھی اور نہایت بلند خیال کے مالک تھے۔جناب سحر محمود(نیپال)نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی شعرو ادب پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے۔ان کے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں ان سے سیکھنے اور اپنے اشعار کی اصلاح کا موقع ملا۔تعزیتی جلسہ کا اختتام پروفیسر سراج اجملی کی دعا پر ہوا۔