دانشوروں سے مذہبی رہنماوں تک ۔پیغمبر اسلام کو دنیا کا سلام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 17-09-2024
دانشوروں سے مذہبی رہنماوں تک ۔پیغمبر اسلام کو  دنیا کا سلام
دانشوروں سے مذہبی رہنماوں تک ۔پیغمبر اسلام کو دنیا کا سلام

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 
رسول اللہ  کی شخصیت اور پیغام کے بارے میں ہر زمانے میں اور دنیا کے ہر خطے میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔مختصر اور متوسط بھی اور ضخیم مجلّدات کی شکل میں بھی ،سنجیدہ علمی و تحقیقی انداز میں بھی اور ناول کے طرز پر بھی ، بڑوں کے لیے بھی اور بچوں اور نو عمروں کے لیے بھی ۔ یہی نہیں ،بلکہ پیغمبر اسلام  کی شخصیت کے ایک ایک پہلو اور ایک ایک گوشے پر سینکڑوں کتابیں موجود ہیں ۔تصنیف و تالیف کا کام برابر جاری ہے ،پھر بھی طباعتیں سیر نہیں ہوتیں اور قلم کو تکان کا احساس نہیں ہوتا۔حضرت محمد  کے بارے میں غیر مسلم دانش وروں کے ان تأثرات و احساسات سے واضح ہے کہ انہوں نے مذہبی تعصبات سے بالا تر ہو کر اسلام کی تعلیمات اور پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیا ہے 
 مائیکل ہارٹ نامی ایک یہودی مصنف نے’’ 100عظیم آدمی‘‘نامی ایک کتاب لکھی ہے ؛جس پر اس نے (28) سال تحقیق کی اور دنیا کی تاریخ میں اپنے دیرپا نقوش چھوڑنے والی 100 اہم ترین، قد آور شخصیات کے بارے میں بنیادی معلومات لکھ کر اپناتجزیہ تحریر کیاہے ۔ یہودی ہونے کے باوجود اس نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کا نام ان تمام اہم ترین شخصیات میں سر فہرست رکھا ۔(اگرچہ اس کے مندرجات سے اسلامی نقطئہ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اشتیاق)اور مضمون کا آغاز ان الفاظ میں کیا :

            ’’ممکن ہے کہ انتہائی موثر کن شخصیات کی فہرست میں محمد(ﷺ)کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہواور کچھ معترض بھی ہوں ؛لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی ۔محمد(ﷺ)نے عاجزانہ طور پراپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا۔وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنما بھی ثابت ہوئے ۔آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں ‘‘۔(سوعظیم آدمی:مائیکل ہارٹ

سیرت نبوی پرایک ایسی ادبی اور محققانہ انداز میں کتاب عرب کا چاند موجود ہے۔ جواپنی شان و انفرادیت کا ایک عجیب و  غریب علمی شاہکار ہے۔جس کے مصنف ایک غیر مسلم نوجوان ادیب دانشور سوامی لکشمن پرشاد ہے،جس نے قومی تعصب سے بالاتر ہو کر حقیقت شناسی کے جزبے کو پران چڑھایا ہے۔خاتم الانبیاء محمد کی سیرت کو ایسے انداز میں قلم بند کیا ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ  کرنے سے داد تحسین بلکہ رشک آتا ہے،سوامی لکشمن پرشاد بے حد محنتی،حق گو،بااخلاق،دلیر اور بہترین خلق کے انسان تھے۔  سوامی لکشمن پرشاد چھبیس سال کی عمر میں اس دار فانی کو  الوداع کہہ گئے اور سیرت رسول پر قلم  اٹھانے والے  مصنف غیر مسلموں کی صف میں اپنے لئے مستقل جگہ بنالی،اور عرب کا چاند کتاب کی سطر سطر عشق رسول  میں ڈوبی ہوئی ہے،اور ہر مسلم  اور غیر مسلم  کو اسوہ حسنہ پر عمل پیراں ہونے کی دعوت دے رہی ہے،جس میں ساری انسانیت  کی فلاح و بہبود کا راز مضمر ہے۔

ایک نام ہے سوامی لکشمی شنکراچاریہ کا جن کی  ولادت(1953) کان پور کے ایک برہمن خاندان میں ہوئی ۔ سوامی جی نے کان پور اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی ، مگر کچھ عرصہ کے بعد مادیت کو چھوڑ کر روحانیت کی طرف مائل ہو گئے ۔ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپگنڈے سے متأثر ہو کر انہوں نے’ اسلامک آتنک واد کا اتہاس‘ نامی کتاب لکھی ،جس کا انگریزی ترجمہ 
The History of Islamic Tolerence
 کے نام سے شائع ہوا۔’حضرت محمد ﷺ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے پایا کہ پیغمبر محمد نے توحید کی سچائی کو قائم کرنے کے لیے انتہائی مصائب جھیلے ۔ مکہ کے کافر دین حق کی راہ میں روڑے ڈالنے کے لیے آپؐ کو اور اور آپ کی پیش کردہ سچائی کی راہ پر چلنے والے مسلمانوں کو مسلسل تیرہ(13) سالوں تک ہر طرح سے ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور ذلیل کرتے رہے ۔ اس ظلم عظیم کے بعد بھی محمد ﷺ نے صبر کا دامن تھامے رکھا ،یہاں تک کہ ان کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا ۔
ان کے ساتھ ایک نام ہے راجیندر نارائن لال کا (ولادت 1916ء)جن کا تعلق بھرت پور (راجستھان) سے تھا،البتہ ان کی تعلیم و تربیت وارانسی (یو۔پی) میں ہوئی ۔کیونس کالج سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد کاشی ہندو یونیورسٹی بنارس سے 1940ء میں قدیم ہندوستانی تاریخ اور سنسکرت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ انہیں شروع ہی سے مذہب سے لگاؤ تھا ۔ امن و شانتی کی تلاش میں انہوں نے ہندو مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کیا ۔ انہوں نے ہندی میں’اسلام۔ ایک سویم سدھ ایشوریہ جیون ویوستھا‘ (اسلام۔ایک خدائی نظام حیات )کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس میں انہوں نے ابتدا میں بدھ ازم ،عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔پھر اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا نہایت مدلل انداز میں ازالہ کیا ہے ۔ اسلام کا تعارف کراتے ہوئے ابتدا میں پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔
فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر اسلام  کی جانب سے عفوِ عام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جناب راجندر لال نے لکھا ہے۔۔۔۔۔۔
اسلام لانے کے بعد جو کایا پلٹ ہوئی وہ گویا اس کی تاریخی حیاتِ نو ہے ۔سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ محمد  کی قیادت میں فتحِ مکہ کے وقت ایک شخص کی بھی جان نہیں گئی اور پیغمبر اور ان کے پیروؤ ں نے اپنے اپنے دشمنوں کے مظالم کا بدلہ و انتقام لیے بغیر انہیں چھوڑ دیا ۔ تاریخ میں جنگ کے بعد فاتحین کے ذریعہ مفتوحین کو اس طرح اجتماعی طور پر معافی دینے کی کوئی نظیر نہیں ملتی
ان کے ساتھ مغربی دانشوروں نے بھی پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو سراہا ہے ۔ تھامس کارلائل نے حضرت محمد  کو جھوٹا قرار دینے والوں کی مخالفت کی اور ان کے مذہب کی حقیقت اور سچائی کو تسلیم کیا۔
رچرڈ بیل نے اسلام کو یورپ کی نجات کا واحد راستہ قرار دیا، اس کے مقابلے میں یورپ کی موجودہ حالت کو تباہ کن قرار دیا۔
مہاتما گاندھی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اپنی پاکیزگی اور قربانی کے جذبے کی بدولت پھیلا۔
ایڈورڈ گبن نے قرآن کی تعلیمات کو انسانیت کے لیے راہ نما تسلیم کیا اور مسلمانوں کی یکجہتی اور جذبے کی تعریف کی۔
پاؤلو کوایلو نے حضرت محمد  کے دیے ہوئے اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔
لیو ٹالسٹائی نے حضرت محمد  کی قیادت اور ان کے انسانیت کے لیے عظیم کارناموں کی تعریف کی۔
اوٹو بسمارک نے حضرت محمد  کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے آگے خشوع سے جھکنے کا اظہار کیا۔
یہ آراء مختلف ادوار اور خطوں سے تعلق رکھنے والے مشہور مفکرین اور رہنماؤں کی ہیں، جنہوں نے حضرت محمد کی تعلیمات، ان کے کردار اور اسلام کے اثرات کو بہت گہرائی سے جانچا اور سراہا۔
 یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم بھی رسول اکرم کی سیرت طیبہ کا غیر جانب داری وبے تعصبی سے مطالعہ کرتا ہے تو بے ساختہ آپؐ کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج انسانیت بے شمار روحانی اور سماجی مسائل کا شکار ہے ان جملہ روحانی اور معاشرتی مسائل کاواحد حل سیرت طیبہ کے عملی پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور ان کو رہنما بنا کر ان پر عمل کرنے میں پنہاں ہے ۔
یہ اقتباسات عالمی سطح پر مشہور شخصیات اور دانشوروں کی آراء کو پیش کرتے ہیں جنہوں نے اسلام، حضرت محمد اور ان کے پیغام کی عظمت اور اثرات کو تسلیم کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک شخصیت نے اپنے الفاظ میں حضرت محمد  کی تعلیمات اور کردار کی عظمت کا اعتراف کیا، اور بعض نے اس بات کا ذکر کیا کہ اگر آج دنیا میں ایسے رہنما ہوتے تو عالمی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے۔