ہلدوانی فساد معاملہ:50 ملزمین کی رہائی کے لئے ضمانت کی عرضی پر بحث شروع

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 25-07-2024
ہلدوانی فساد معاملہ:50 ملزمین کی رہائی کے لئے ضمانت کی عرضی پر بحث شروع
ہلدوانی فساد معاملہ:50 ملزمین کی رہائی کے لئے ضمانت کی عرضی پر بحث شروع

 

 نئی دہلی:  ہلدوانی فساد معاملے میں پولس زیادتی کے شکار بیس مسلم نوجوانوں کی ضمانت کی عرضی پر گذشتہ کل اترا کھنڈ ہائی کورٹ میں سماعت عمل میں آئی۔یہ اطلاع جمعیۃ علماء ہند کی جاری ریلیز میں دی گئی ہے۔

 جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کوبتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے ملزمین کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے ملزمین کی گرفتاری کے اٹھائیس دنوں کے بعد ان کے خلاف یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کے روک تھام کا قانون) کا اطلاق کردیا تاکہ ملزمین کو ضمانت سے محروم کیا جاسکے اور تفتیشی ایجنسی کو تفتیش کرنے کے لیئے مزید وقت مل سکے۔ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری کو سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے مزید بتایاکہ سیشن عدالت نے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت عرضداشت خارج کرتے ہوئے یہ وجہ بتائی کہ لوک سبھا انتخابات کی وجہ سے ملزمین کے خلاف وقت پر چارج شیٹ داخل نہیں کی جاسکی لہذا پولس کو مزید وقت دینا غیر قانونی نہیں ہے

 رام کرشنن نے عدالت کو مزید بتا یا کہ سیشن عدالت کا یہ جواز غیر آئینی ہے اور غیرواجبی ہے۔قانون کے مطابق گرفتار شدہ ملزمین کے خلاف وقت پر چارج شیٹ داخل کرنا ضروری ہے ورنہ ملزمین ڈیفالٹ ضمانت کے حق دار ہونگے۔ڈیفالٹ ضمانت کے لیئے ملزمین پر الزام کی سنگینی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ اور متعدد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈیفالٹ ضمانت ملزم کا آئینی حق ہے جسے اس سے محروم نہیں جاسکتا ہے۔ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کیئے جانے کے باوجود ڈیفالٹ ضمانت کا حق ملزمین کو ملتا رہے گاکیونکہ اس مقدمہ میں ہائی کورٹ میں ڈیفالٹ ضمانت داخل کرنے کے بعد پولس نے سیشن عدالت میں چارج شیٹ داخل کردی ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے مزید بتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے نوے دنوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد عدالت میں چارج شیٹ نہیں داخل کی اور ملزمین اور ان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر عدالت سے مزید اٹھائیس دنوں کی مہلت طلب کرلی جو قانوناً غلط ہے لہذا کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 167 اور یو اے پی اے قانون کی دفعہ 43D(2) کے تحت ملزمین کو ڈیفالٹ ضمانت کے تحت جیل سے رہا کیا جانا چاہئے۔ دوران سماعت سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت کو مزید بتا یا کہ پولس کی زیادتی کی انتہا ہوگئی ہے، 65؍ سالہ مسلم خاتون سیمیت دیگر7؍ خواتین کو بھی جیل کے اندر بند کرکے رکھا گیا ہے اوران کے خلاف بھی یو اے پی اے قانون کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ نتیا راما کرشنن نے عدالت سے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت پر رہائی کی عرضداشت پر جلد از جلد سماعت کیئے جانے کی گذارش کی جس پر عدالت نے سرکاری وکیل کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی اگلی سماعت پر بحث کریں۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بحث کے آغاز پر اطمینان اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وکلاء نے آج بہت جامع اور مدلل بحث کی ہے۔انہوں نے فاضل عدالت یہ قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مقدمے میں پولس نے قانونی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملزمین کے ساتھ امتیازی رویہ اپنایا تا کہ ان کی فوری ضمانت کا امکان نہ ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ 90 دن کی مدت گزرجانے کے بعد چارج شیٹ نہ داخل کرنا یہ بتاتا ہے کہ پولس اور تفتیشی ایجنسی نے قانون و انصاف کی جگہ صریح جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ ملزمین اور ان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر عدالت سے مزید 28 دنوں کی مہلت طلب کرلی گئی تھی اوراب الیکشن کا بہانا بنایا جارہا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے،مسلمانوں سے جڑے اکثر معاملات میں کچھ اسی طرح کا طرز عمل اپنایا جاتا ہے،مقررہ مدت گزر جاتی ہے اور چارج شیٹ داخل نہیں کی جاتی اس کی وجہ سے ملزمین کی ضمانت میں تاخیر ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ تاکہ ملزمین اپنی ضمانت کے لئے قانونی چارہ جوئی نہ کرسکے۔انہوں نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ ملزمین میں 65سالہ مسلم خاتون سمیت سات عدد خواتین بھی ہیں،ان پر بھی یواے پی اے قانون کا طلاق کردیا گیا ہے۔یہ پولس کی بے رحمی اور اس کے تعصب کا کھلا ثبوت ہے۔دوسری جانب پولس کی بلاجواز فائرنگ سے سات بے گناہ افراد مارے گئے ان کے بارے میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا،گویا پولس اور حکومت دونوں کی نظر میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت ہی نہیں،حالانکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے جڑا ہوا ایک سنگین معاملہ ہے، اور اس پر انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد اور اداروں کی خاموشی بھی ایک بڑا سوال ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی گزارش پر سپریم کورٹ کی سینئر ایڈوکیٹ محترمہ نیتا راما کرشنن نے نینی تال جاکر بحث کی۔ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی تمام گرفتارشدگان کی رہائی کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔کانوڑ روٹ پر واقع دکانوں ،ہوٹلوں اور ڈھابوں پر مالکان کا نام لکھنے کے ریاستی حکومتوں کے حکم پر سپریم کورٹ کے ذریعہ روک لگائے جانے کے تعلق سے مولانا مدنی نے کہا کہ ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ عدالت کا یہ فیصلہ نفرت پر سیکولرزم،جمہوریت اور محبت کی جیت ہے۔
عدالت نے تمام عرضداشتوں کو سماعت کے لیئے قبول کرلیا ہے۔دو رکنی بینچ نے ڈپوٹی ایڈوکیٹ جنرل جے ایس ورک کو حکم دیا کہ وہ 13؍ اگست کو سماعت کے لیئے تیار رہیں ، دفاعی وکیل کی بحث کے بعد ان کے اعتراض پر عدالت سماعت کریگی۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کے ہمراہ ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ ستوتی رائے، ایڈوکیٹ نتین تیواری، ایڈوکیٹ وجئے پانڈے، ایڈوکیٹ آصف علی، ایڈوکیٹ دانش علی، ایڈوکیٹ ضمیر احمد، ایڈوکیٹ محمد عدنان ، ایڈوکیٹ سی کے شرما و دیگر پیش ہوئے ۔ دوران سماعت عدالت میں ملزمین کے اہل خانہ کے ہمراہ مولانا مقیم قاسمی (صدر جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد قاسم(ناظم اعلی جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد عاصم (شہر صدرجمعیۃ علماء ہلدوانی)، مولانا محمد سلمان(شہر ناظم جمعیۃ علماء ہلدوانی)ڈاکٹر عدنان ، عبدالحسیب کو دیگر موجود تھے۔