صدقۂ فطر کس شکل میں ادا کرنا بہتر ہے؟

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-04-2022
صدقۂ فطر کس شکل میں ادا کرنا بہتر ہے؟
صدقۂ فطر کس شکل میں ادا کرنا بہتر ہے؟

 



 

 ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سوال۔ صدقۂ فطر کو اناج کی شکل میں ادا کیا جانا بہتر ہے یا نقد؟

جواب: ۔ ماہ رمضان المبارک کے آخر میں صدقۂ فطر کی ادائیگی واجب ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیاہے

فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ زَکَاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِنَ الَّلغوِ وَالرَّفَثِ وَطُعمَۃً لِلمَسَاکِینَ(ابوداؤد:1609)

رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کو لازم کیاہے ۔ اس سے روزہ دارکا روزہ لغو باتوں اور نامناسب کاموں سے پاک ہوجاتاہے اور غریبوں کو کچھ کھانے کو مل جاتاہے۔

 احادیث میں صدقۂ فطر کے طور پر کھانے کی مختلف چیزوں کو نکالنے کا بیان ملتا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے۔

 اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ فَرَضَ زَکَاۃَ الفِطرِ صَاعاً مِّن تَمَرٍ أوصَاعاً مِّن شَعِیرٍ۔(بخاری:1504)۔

رسول اللہ ﷺ نے صدقۃ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو نکالنے کا حکم دیاہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں:"ہم صدقۂ فطر کے طور پر ایک صاع غلہ(یعنی گیہوں)، یا ایک صاع جَو ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع پنیر ، یا ایک صاع کشمش نکالاکرتے تھے۔"(بخاری:1506)

 صدقۂ فطر کو مذکورہ بالا غذائی اجناس کی شکل میں ادا کیا جائے یا نقدی کی صورت میں؟اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالکؒ،امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاق بن راہویہؒ فرماتے ہیں کہ اسے اجناس کی شکل میں اداکیاجائے گا ، نقدی کی شکل میں اس کی ادائیگی جائز نہیں ہے ۔

یہ حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر میں انہی اجناس کو ادا کیا ہے اور دوسروں کو بھی ایساہی کرنے کا حکم دیاہے۔ اس لیے اس کی پابندی ضروری ہے ۔امام ابوحنیفہؒ اور امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ صدقۂ فطر نقدی کی شکل میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ صدقۂ فطر کا مقصد یہ ہے کہ فقراء ومساکین کو عید الفطر کے موقع پر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ، جیسا کہ حدیث میں ہے:”اَغنُوھُم فِی ھٰذَا الیَومِ(سنن دارقطنی:98/3)”انہیں آج کے دن مانگنے سے بے نیاز کردو۔“

تابعین کے آثار سے معلوم ہوتاہے کہ وہ صدقۂ فطر غذائی اجناس کے بجائے نقد رقم میں اداکرنے کو جائز سمجھتے تھے۔ حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے: 

لابأس أن تُعطیٰ الدَرَاھِمُ فِی صَدَقَۃِ الفِطرِ(مصنف ابن ابی شیبۃ: 398/2)

 صدقۂ فطر کی ادائیگی درہم سے کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 ابواسحاقؒ کہتے ہیں:أدرَکتُھُم وَھُم یُؤدُّون فِی صَدَقَۃِ رَمَضَانَ الدَّراھِمَ بِقِیمَۃِ الطَّعَامِ(مصنف ابن ابی شیبۃ:398/2)”میں نے دیکھاہے کہ وہ صدقۂ فطرمیں غذائی اجناس کی قیمت اداکرتے تھے۔

 موجودہ دور کے نام ور فقہاء نے نقدی سے صدقۂ فطر اداکرنے کو نہ صرف جائز ، بلکہ موجودہ حالات میں بہتر قرار دیا ہے ۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے لکھا ہے 

یہ بات غوروفکر کے بعد مجھ پر واضح ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے غذائی اجناس کے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دو وجوہ سے دیاتھا ۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ غذائی اجناس سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں لوگوں کو آسانی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کرنسی کی قیمتیں مختلف ہوتی رہتی ہیں اور اس کی قیمتِ خرید ہر زمانے کے اعتبار سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس غلّے کا ایک صاع انسانی ضرورت کو پوراکرتا ہے۔

توجس طرح اُس دور میں ان غذائی اجناس سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں دینے والے کے لیے آسانی تھی اور لینے والے کے لیے زیادہ فائدہ تھا ، اسی طرح آج غذائی اجناس کے بجائے قیمت سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں دینے والے کے لیے آسانی ہے اور لینے والے کے لیے زیادہ فائدہ ہے۔“(فقہ الزکاۃ)

شیخ محمود شلتوت ؒسابق شیخ الازہر مصر فرماتے ہیں

 قیمت سے صدقۂ فطر اداکرناکافی ہے ، کیوں کہ بسااوقات قیمت فقیر کے لیے زیادہ باعثِ رحمت اور فائدہ مندہوتی ہے اور اس میں فقیر کی رعایت بھی ہے ، جن کو فقیر خود دوسروں کی بہ نسبت اچھی طرح جانتاہے۔ لہٰذا قیمت کو حاجت دورکرنے میں زیادہ دخل ہے۔

  عہد نبوی اور ابتدائی ادوار میں غذائی اشیاء کا استعمال بہ طور قیمت ہوتاتھا ۔ کوئی شخص کوئی غذائی جنس لےکر بازارجاتا اور اس کے عوض جو چیز بھی خریدناچاہتا تھا، بہ آسانی خرید لیتاتھا۔ لیکن بعد میں حالات مختلف ہوگئے ۔ اب غذائی اجناس کا تبادلہ دوسری اشیاء سے ختم ہوچکا ہے ۔

ہرچیز کو روپے کے عوض ہی بیچا اور خریداجاتاہے ۔ اس لیے موجودہ دورمیں صدقۂ فطر کے طور پر غذائی اجناس کے بجائے نقدی رقم دینا نہ صرف جائز ، بلکہ بہتر معلو م ہوتاہے ۔