ہندوستانی علماء نے کی بنگلہ دیش میں مندروں پر حملوں کی مذمت اور حفاظت کی سراہنا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 07-08-2024
ہندوستانی علماء نے کی بنگلہ دیش میں مندروں پر حملوں  کی مذمت اور حفاظت کی سراہنا
ہندوستانی علماء نے کی بنگلہ دیش میں مندروں پر حملوں کی مذمت اور حفاظت کی سراہنا

 

نئی دہلی : بنگلہ دیش میں سیاسی بغاوت کے بعد ملک بھر میں ہندووں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔مندروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہندووں کو خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس صورتحال کی ہندوستان کے ممتاز علما اور دانشوروں نے مذمت کی ہے ۔ ان حملوں کو فورا روکا جائے اور شر پسندوں کو گرفتار کیا جائے ۔ ہندوستانی علما نے بنگلہ دیش کے حالات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے ۔

درگاہ اجمیر شریف کے گدی نشیں اور چشتی فاؤنڈیشن کے چیئرمین حاجی سید سلمان چشتی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم بنگلہ دیش میں حالیہ تشدد اور مختلف مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والی عبادت گاہوں پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ نفرت اور عدم برداشت کی اس طرح کی کارروائیاں انتہائی پریشان کن ہیں اور امن، احترام اور اتحاد کے ان اصولوں کے خلاف ہیں جو ہمیں عزیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنگلہ دیش میں ہندوؤں، نسلی اقلیتوں پر حملوں اور ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ تشدد کی یہ کارروائیاں نہ صرف افراد اور برادریوں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ہماری متنوع اور باہم جڑی ہوئی دنیا کے تانے بانے کو بھی خطرہ لاحق ہیں۔ یکجہتی کے ساتھ، امن، باہمی احترام اور تمام مذہبی مقدسات کے تحفظ کی وکالت کرتے ہوئے آئیے ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی طور پر کام کریں جہاں ہر فرد، خواہ اس کا کوئی بھی عقیدہ ہو، ہم آہنگی اور سلامتی کے ساتھ رہ سکے۔ہم تمام رہنماؤں اور برادریوں سے ان مسائل کو حل کرنے اور ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کی حمایت کرتے ہیں

صوفی حضرت بابا شیخ سلیم چشتی ؒ درگاہ کے نائب پیرزادہ ارشد عظیم فریدی نے بھی ان حملوں کی سخت مذمت کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ اسلام ہو یا کوئی اور مذہب اس میں اس قسم کے تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے ۔ اسلام میں اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی ہنگامہ آرائی میں اگر کوئی ہندووں اور مندروں کو نشانہ بنا رہا ہے تو انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے ۔ پیر زادہ حضرت ارشد فریدی نے مزید کہا کہ ان حالات میں کچھ ایسی خبریں آئی ہیں جو انسانیت کی برتری کی گواہی دیتی ہیں ،انہوں نے کہا کہ ان کشیدہ حالات میں بنگلہ دیش میں جن مسلمانوں نے راتوں کو جاگ کر مندروں اور ہندووں کی حفاظت کی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ یہ ایک مثبت علامت ہے اور ایسے لوگوں کو سلام کرنا چاہیے جو اس ماحول میں بھی خود کو جذبات سے دور رکھتے ہوئے انسانی جان و مال کی حفاظت کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنگلہ دیش سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقلیتوں کی حفاظت کرے اور ان کے جان و مال کی ضمانت دے کیونکہ اس قسم کا تشدد کسی بھی ملک یا قوم کے لیے انتشار لاتا ہے امن و سلامتی نہیں۔

ممتاز عالم دین اور عالم دین مولانا نورالامین قاسمی نے جو غیر معمولی خیالات کے ساتھ صحیح شکل میں اسلام کی تبلیغ کے لیے جانے جاتے ہیں، بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کے واقعات کی مذمت کی ہے۔بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ پڑوسی ملک کا اندرونی مسئلہ ہے۔ لیکن ایک ہندوستانی مسلمان کے طور پر میں بنگلہ دیش کے لوگوں سے صرف یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے ملک میں اقلیتوں کو نشانہ نہ بنائیں۔ چاہے وہ ہندو ہوں، عیسائی ہوں یا بدھ ہوں، معصوم اقلیتی برادریوں پر کسی بھی قسم کا حملہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے-مولانا قاسمی نے کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف ان کی شکایات یا تحریک کو شرارتی قوتوں کے ذریعے ملک میں بسنے والی اقلیتی برادری پر حملے کرکے گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔ہندوستانی حکومت کو بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کو روکنے کے لیے (جو بھی ممکن ہو) کوشش کرنی چاہیے۔

قاضی شہر دہلی مفتی افروز عالم نے ایک بیان میں تمام لوگوں سے اپیل کی ہے کہ بنگلہ دیش سے فرقہ وارانہ قسم کی خبروں پر رد عمل کا اظہار نہ کریں کیونکہ بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کی تبدیلی ان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس سے ہم ہندوستانیوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے اگر وہاں کسی نے مندروں کی بے حرمتی کی ہے تو ان کی ہم مذمت کرتے ہیں اور امن قائم رکھنے کی اپیل کرتے ہیں انہوں نے حکومت سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ شر پسند عناصر پر نظر رکھے جس سے امن و امان برقرار رہے واضح رہے کہ بنگلہ دیش سے خبریں ا رہی ہیں کہ وہاں بعض لوگوں نے مندروں کو نقصان پہنچایا ہے لیکن ایسی خبریں بھی ارہی ہیں کہ مظاہرین دوسرے فرقے کی عبادت گاہوں کی خود حفاظت کر رہے ہیں۔

 بنگلہ دیش میں تشدد کے واقعات پر ہندوستان کے مذہبی رہنماؤں نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ شیعہ مذہبی لیڈر مولانا امانت حسین نے کہا کہ بر سر اقتدار پارٹی جب غلط فیصلے کرنے لگتی ہے تو ملک میں لوگ بغاوت کر بیٹھتے ہیں اور سڑکوں پر اتر جاتے ہیں لیکن ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو غیر سماجی عناصر ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب کے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچانا نہایت ہی غلط ہے۔ ایسے غیر سماجی عناصر مذہبی مقامات کو نقصان پہنچا رہے ہیں چاہے وہ مندر ہو، مسجد ہو یا گرجا ہو یہ بیحد افسوس کا مقام ہے۔ امانت حسین نے کہا مندروں کو توڑنا غیر اخلاقی کام ہے، اس بات کی جتنی بھی مذمت ہو کم ہے۔ مذہبی مقامات سے ہر شخص کا عقیدہ وابستہ ہوتا ہے اور جب مندروں کو نقصان پہنچایا جائے گا تو ظاہر ہے لوگوں کی عقیدت پر ٹھیس پہنچے گا۔ انہوں نے کہا جو سر پسند ہوتا ہے اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، مذہبی مقامات کو نقصان پہچانے والوں کی سخت مذمت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو سبھی مذہب کے لوگوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مندروں کو نشانہ بنایا جانا افسوس ناک صورت حال کو بیان کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر جن مسلم بھائیوں نے مندروں کی حفاظت کی ہے وہ قابل مبارک باد ہیں۔

عالم دین مولانا عمران عالم کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں یہ چیزیں بیحد خطرناک ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں جس طرح سے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ مندروں کو مسمار کرنا اور انتشار کی صورت اختیار کرنا کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوتا ہے۔ مولانا عمران عالم کا کہنا ہے کہ جس طرح سے پڑوسی ملک میں لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر اترے ہیں اور اسی بہانے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچا رہے ہیں اسی کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو سبھی مذاہب کا احترام کرنا چاہئے اور مذہبی مقامات کو توڑنا تو اپنے آپ میں ہی ایک ظلم کی بات ہے، ایسا کرنے والے غیر سماجی عناصر ہیں۔ مولانا عمران عالم کا کہنا ہے کہ کئی جگہوں پر لوگوں نے مندروں کی حفاظت بھی کی ہے ایسے مسلمانوں کو ہم مبارک باد دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ایک بات ہے اور کسی بھی مذہب کے مذہبی مقامات کو توڑنا بیحد غلط اور غیر اخلاقی کام ہے۔ مولانا عمران عالم نے کہا کہ اس موقع پر جو لوگ مظلوموں کی مدد کررہے ہیں وہ مبارک باد کے مستحق ہیں اور جن لوگوں نے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہے وہ قابل مذمت ہیں

 

 

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد،صدر،انٹر فیتھ ہارمونی فاؤنڈیشن آف انڈیا نے بھی بنگلہ دیش میں بے گناہ ہندوؤں کے قتل کی مذمت کی ہے ۔تہذیب اور سمجھداری کسی بھی مہذب معاشرے کے لازمی اجزاء ہیں! تشدد کمزوروں کا ہتھیار ہے!بے قصور ہندو اقلیتی برادری کا بغیر کسی قصور کے قتل مجرموں کی اخلاقی پستی ہے ۔ یہ دراصل ان کے آقا جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں، کسی بھی بہانے یا بنیاد پر بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا!انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت پر حملوں کی تازہ خبریں نہ صرف سخت الفاظ میں قابل مذمت ہیں بلکہ توڑ پھوڑ کی ان بدترین اور شرمناک کارروائیوں میں بنگلہ دیش کے گمراہ نوجوانوں کی طرف سے کیے جانے والے اس گھناؤنے جرم کی حمایت کرنے کی کوئی دلیل قابل قبول نہیں ہے۔

ہماری حکومت کو ڈھاکہ میں حکومت کرنے والوں کو سخت وارننگ جاری کرنی چاہیے کہ یہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہمارا ان کے گھریلو سیاسی انتشار میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ہندوستان اور وہاں کی ہندو اقلیت کے خلاف کسی قسم کی کوتاہی اور کمیشن کی کارروائی ہماری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مناسب ردعمل کی دعوت دے سکتی ہے۔ ہم بنگلہ دیش کو اپنا دوست اور اسٹریٹجک اتحادی سمجھتے ہیں۔ حالیہ پیش رفت سے ایسا لگتا ہے کہ ایک بڑا ایجنڈا ہے جسے بھارت مخالف قوتیں فروغ دینا چاہتی ہیں۔ ہمیں ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔مجھے یقین ہے کہ ہماری قومی قیادت، حکومت اور وزارت خارجہ اس معاملے سے گرفت میں ہے اور وہاں کے حالات کو معمول پر لانے میں گہرائی سے مصروف عمل ہے۔ ہماری سرحدی فورس اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وہاں کی انتہائی غیر مستحکم زمینی صورتحال سے سیکورٹی یا دراندازی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تمام اقوام کے ساتھ دوستی اور امن کی ہماری پالیسی کے مطابق، خاص طور پر پڑوسیوں کے ساتھ ہماری سفارتی برادری وزیر اعظم مودی کی قیادت میں جلد ہی اس روایتی خیر سگالی کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جو پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے ساتھ ہمارے تعلقات کی پہچان ہے۔ این ایس اے اجیت ڈوول کی حسینہ واجد کے ساتھ ملاقات ہماری سفارت کاری کی خوبی اور قد کاٹھ کی بات کرتی ہے۔ میں اس کے ساتھ اس کی بات چیت کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ ہم بنگلہ دیشی لوگوں کے ساتھ زبان، ثقافت، تاریخ اور تہذیب میں بہت مشترک ہیں۔ میں وہاں کی ہماری ہندو بہنوں اور بھائیوں کے خلاف غنڈہ گردی اور بے گناہوں کے قتل کی ایک بار پھر مذمت کرتا ہوں۔