نئی دہلی :جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بھارت رتن سے سرفراز،تیسرے صدرجمہوریہ ہند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق امیر جامعہ مرحوم ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک سو اٹھائیسویں سالگرہ تقریب منائی۔اس موقع پر جامعہ کیمپس میں واقع ان کے مقبرے پر خاص دعائیہ مجلس منعقد ہوئی۔پروفیسر مظہر آصف،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی، یونیورسٹی کے عہدیداران، طلبہ اور ڈاکٹر ذاکر حسین کے اہل خانہ دعائیہ پروگرام میں شریک ہوئے۔
ذاکرحسین کی ولادت مورخہ آٹھ فروری اٹھارہ سو سنتانویں میں ہوئی۔ اٹاوہ اسکول میں ابتدائی تعلیم کی تحصیل کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔اے۔کیا۔ پروفیسر ورنر سومبارٹ کی نگرانی میں برلن یونیورسٹی،جرمنی سے معاشیات میں پی۔ایچ۔ڈی کے لیے ستمبر انیس سو بائیس سے فروری انیس سو چھبیس تک قیام پذیر رہے جو انھیں اسی سال امتیازی نمبرات سے منظور کی گئی۔
جرمنی کے اپنے احباب ڈاکٹر عابد حسین اور محمد مجیب کے ساتھ ذاکر حسین انیس سو چھبیس میں جامعہ آئے۔ڈاکٹر ذاکر حسین بائیس برسوں (انیس چھبیس سے انیس سو اڑتالیس تک) تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ رہے۔یہ ان کا ہی وژن تھا جس نے زبردست مالی اور نظریاتی بحران کے دورمیں جامعہ کو سنبھالا اور’لائف ممبرز آف جامعہ‘ بنانے میں قائدانہ رول اداکیا جنھوں نے بیس سال تک جامعہ کی خدمت کا عہد لیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کا کیریئر تعلیم اورقومی تعمیر میں اس کے اہم رول کے تئیں گہرے عہد کو اجاگر کرتاہے۔
بطور وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مدد کے لیے،وہ انیس سو اڑتالیس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے رخصت ہوئے۔بعد میں وہ ریاست بہار کے گورنر، نائب صدر جمہوریہ ہند اور صدر جمہوریہئ ہند بھی بنائے گئے۔ڈاکٹر ذاکر حسین نے مورخہ تین مئی انیس سو انہتر میں جہان فانی کو خیر آباد کہا اور وہ پہلے صدرجمہوریہ تھے جو بطور صدر جمہوریہ مدت کار مکمل کرنے سے قبل انتقال کرگئے۔ان کا دور صدارت،ان کی علمی فضیلت،جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور علم کی طاقت میں یقین راسخ سے عبارت تھا۔
ڈاکٹرذاکر حسین صرف ممتاز سیاسی قائد ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک ماہر تعلیم اور دانشور ومفکر بھی تھے جس کے اثرات سیاسی حدود سے ماورا تھے۔تعلیم کے میدان میں ان کی گراں قدر خدمات نیز زیادہ ہمہ گیر مساوات اور تعلیم یافتہ ہندوستان کا ان کا تصور ہمیشہ متحرک کرتا رہے گا۔