کشمیر۔1947 میں قبائلی حملہ آوروں کا سیاہ دور اور بدلتا جموں و کشمیر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-10-2023
کشمیر۔1947 میں قبائلی حملہ آوروں کا سیاہ دور اور بدلتا جموں و کشمیر
کشمیر۔1947 میں قبائلی حملہ آوروں کا سیاہ دور اور بدلتا جموں و کشمیر

 

سرینگر۔ منظور ظہور

 سال 194میں  22 اکتوبر کو پاکستان کے قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ آور ہو کر جس درندگی،غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا مظاہرہ کیا اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی ہے ۔ہمارے ہی بزرگوں نے" حملہ اور ہوشیار ۔ہم کشمیری ہیں تیار" کے نعرے بلند کر کے انہیں  بھاگ جانے پر مجبور کر دیا ۔1947 سے اب تک بہت عرصہ ہوا مگر آج اب بھی کئی بزرگ ان دن کے واقعات سناتے ہیں تو رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

جموں کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے شیر کشمیر کنوکیشن سنٹر میں آج جموں و کشمیر وائس فار پیس اینڈ  جسٹس نامی معروف و متحرک این جی او نے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔دونشستوں پر مشتمل اس سیمینار کے موضوع کشمیر میں 22 اکتوبر 1947 کا قبائلی حملہ  ایک سیاہ دور  اور نیابدلتا جموں وکشمیر، ڈیجیٹل جموں و کشمیر ،کرپشن سے پاک جموں کشمیر، ترقی پسند جموں کشمیر تھا ۔

سیمینار میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے علاوہ اسکولی و کالج طلبا و طالبات اور معزز شہریوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی ۔معزز شرکا نے کہا کہ ہمیں وہ دن نہیں بھولنا چاہیے جب 1947 میں آج ہی کے دن پاکستان کے تربیت یافتہ قبائلی حملہ آور ں نے رات کے اندھیرے میں جموں کشمیر میں داخل ہو کر لوٹ مار قتل غارت اور دہشت گردی کا ایسا بازار گرم کیا۔ جس سے انسانیت کی روح کا نپ گئی۔ یہ وہ دن تھے جب برصغیر ہند پاک کو تقسیم ہوئے دو مہینے ہی ہوئے تھے سرحد پار بیٹھےبعض آقاوں جنہوں نے کشمیر کو بلیک چیک سمجھا تھا نے،اپنی شاطرانہ ارادوں کو پورا کرنے کے لیے قبائلی طبقے سے تعلق رکھنے والے  مجرمانہ  ذہنیت کے لوگوں کو یکجا کرکے انہیں کشمیر پر یلغار کرنے کے لیے بھیجا۔اور جموں و کشمیر کی سرحد میں داخر ہو کر انہوں نے ایسا انسانیت سوز ننگا ناچ کیا جس کو بتانے میں بھی شرم ہو رہی ہے ۔

وادی کشمیر کے معروف ٹریڈ یونین  اور تاجرلیڈر محمد الطاف ڈار اور ایڈوکیٹ آصف نے سیمینار میں بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے قبائلی حملہ آوروں کے متعلق کئی ایسے بھیانک واقعات سنے ہیں کہ وہ کس طرح ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے اوڑی کے راستے کشمیر میں داخل ہوئے  ۔اس سے قبل کہ وہ سرینگر شہر کی طرف پیشقدمی  کرتے بارہموہ میں کشمیر کے سپوت مقبول شیروانی نے ان کا راستہ روک کر انہیں سرینگر پہنچنے کے لیے دوسرا راستہ دکھا کر ان کے مذموم ارادوں کو روک دیا ۔اور جب قبائلیوں کو پتہ چلا کہ انہیں غلط راستہ یعنی سڑک دکھائی گئی ہے تو انہوں نے  مقبول شیروانی کو بے دردی سے شہید کیا ۔اس دوران  جموں و کشمیر کے مہاراجہ مرحوم ہری سنگھ نے اپنی ریاست کو بچانے کے لیے ہندوستان سے مدد طلب کی ۔اور وہ ہندوستان کے ساتھ  الحاق کرنے اور ضم ہونے پر راضی ہو گیا ۔ ہندوستانی فوج 27 اکتوبر 1947 کو سری نگر ایئرپورٹ پر اتری اور قبائلی حملہ آوروں سے کشمیر کو صاف پاک کیا ۔ کشمیری عوام میں ہی نوجوان رضاکاروں نے ہندوستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔ اس طرح سارا کشمیر حملہ آور خبردار۔ ہم کشمیری ہیں تیار "کے نعروں سے گونج اٹھا ۔

سابق اعلی پولیس افیسر فاروق احمد ریشی نے  سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کس 1947 میں جب ہم نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تو کشمیر میں حالات بدلنے شروع ہوگئے تھے تعمیر ترقی اور امن کا دور دورہ تھا مختلف سیاسی حلقوں نے یہاں افراد تفری پھیلانے کی کوشش کی مگر امن اور خوشحالی چاہنے والوں کے آگے ان کی ایک نہ چلی ۔وقت کا پرندہ پرواز کرتا گیا کشمیر میں مختلف ادوار آئے تعمیر وترقی جاری تھی کہ اس دوران 1990 میں علاحیدگی  پسندی اور شدت پسندی نے ایسا سر اٹھایا کہ ہم سب اس کے نیچے دب کر رہ گئے ۔مگر اب جہلم میں  کافی پانی بہہ چکا ہے۔ گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے کی طرف موڑا نہیں جا سکتا ہے ۔آگےبڑھنے میں ہی دانائی، حکمت عملی اور بہتری ہے ۔گزرے بھیانک واقعات اور حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔نئی نوجوان نسل کو تعمیری راہوں پر چلنا ہوگا ۔اور ان طاقتوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہیے جو امن کے قیام میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہمارے ہمسایہ ملک اور کشمیر کے دوسرے حصے جو اس کے غیر قانونی قبضے میں ہے آج تک  ترقی اور خوشحالی نہیں آئی ہے ۔

awazurdu

معروف سماجی کارکن بلال احمد نے کہا کہ وائس فار پیس اینڈ جسٹس این جی او کی طرف سے آج کے سیمینار میں ایک پیغام نکلنا چاہیے کہ جموں کشمیر میں گزشتہ دہشت گردی کے شکار افراد اور خاندانوں کی باز آباد کاری ہونی چاہیے ۔اس کے علاوہ سماج میں پائے جا رہے ہیں  بدعات اور منشیات کے خاتمے کے لیے بھی ہمیں ایک ہونا پڑے گا ۔ان  بدعات اور ناسور کو ختم کرنے کے لیے حکومت یا انتظامیہ عوامی سپورٹ کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی ہے ۔

تاجر پیشہ خاتون محترمہ صبا نے سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کشمیر  میں زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کا کردار روز بروز نمایاں ہو رہا ہے ۔ ہم نے آزادی حاصل کی ہے مگر ہم نے اپنی سوچ کو بھی آزاد رکھنا ہوگا ایک دوسرے کے تعاون سے آگے بڑھنا ہوگا کشمیر میں تعمیراتی شعبوں کے علاوہ دوسرے شعبوں سیاسیات، اقتصادیات، سماجیات، ماحولیات اور سوچ میں ترقی ہونی چاہیے ۔انہوں نے اس سب کے حصول کے لیے امن کو شرط اول قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک یہاں مکمل امن و امان  قائم نہ ہو تعمیر ترقی اور دیگر شعبوں میں بدلاؤ ناممکن ہے ۔

سیمینار میں کئی شرکا نے اس بات کا برملا اعتراف کیا بقول ان کے دفعہ 370 اور 35 اے کشمیر میں تعمیر ترقی کے لیے رکاوٹ تھی اور 5 اگست 2019 کو اس کے خاتمے کے بعد  جموں وکشمیر میں تعمیر ترقی کا ماحول قائم و دائم رہنا لازمی بنتا ہے ۔

معروف آر ٹی آئی کارکن غلام محمد وانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کے 1990 میں کشمیر میں جو حالات پیدا کیے گئے ۔ ہمیں نہیں لگتا تھا ہم کبھی ان سے باہر نکل پائیں گے ۔اگر آج کے حالات اکثر دوسرے ہیں مگر ہم نے بحثیت مجموعی فیصلہ کرنا ہے کہ ہم بدلاو کو مثبت طریقے سے آگے کی اور بڑھائیں گے ۔ پیچھے کے بجائے آگے کی طرف دیکھیں اور بڑھیں گے ۔انہوں نے کشمیر میں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)کے ذریعے نچلے سطح پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے این جی اوز کو اس بارے میں جواب دہ بنانے کا مشورہ دیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے صنعتی کارخانےقائم کرنے پر بھی زور دیا ۔

محترمہ تسلیمہ  نامی کشمیری خاتون جو حال ہی میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ایک کنونشن میں  ملک کی نمائندگی کر کے لوٹی ہیں، نے کشمیر میں خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی دکھانے کے مواقع فراہم کرنے  کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خواتین سماج اور قوم کو موجودہ  دور میں آگے بڑھنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں اور کشمیری ان میں بالکل پیچھے نہیں ہیں ۔

معروف صوفی سکالر ڈاکٹر توصیف وانی اور پیس مومنٹ کے سربراہ فیاض احمد بٹ نے اپنے زرین خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کشمیری مجموعی طور ہمیشہ امن سکون بھائی چارے کے داعی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مہمان نوازی میں دنیا بھر میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے ۔1947 میں آج ہی کے دن قبائلی ہمارے یہاں داخل ہوئے ۔ لوٹ مار کرتے ہوئے سری نگر شہر میں دستک دینے کی کوشش کی جو ہمارے بزرگوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر ناکام بنا دی۔انہوں نے کہا کہ ہم  دائمی اور پائیدار امن کے متلاشی ہیں ہم پتھر پھینکنے والوں کو نہیں پھول برسانے والوں کو پسند کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1947 میں جب ہمارا ملک آزاد ہوا اور ہم کشمیریوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ  ہندوستان کے ساتھ جوڑ دیا تب سے اب تک کشمیریوں نے ہر اس موقع پر اپنا ٹیلنٹ دکھایا جب ملک و قوم کو اس کی ضرورت پیش آئی۔کشمیر کی سرزمین پر اب کسی معصوم کی جان نہ چلی جائے  یہ ہمارا خصوصی مقصد اورمدعا ہے۔

وائس فار پیس اینڈ جسٹس جسٹس جس نے اس ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا تھا کے چیئرمین فاروق گاندر بلی نے شرکاء کا سیمینار میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے جذباتی تقریر میں کہا کہ سال 1947 آج کا ہی دن یعنی 22 اکتوبر تھا جب ایک منظم سازش کے تحت پاکستان نے قبائلیوں کے ذریعے کشمیر پر حملہ آور ہو کر اس کو ہم سے چھیننے کی ناکام کوشش کی ۔اور تب سے یہ ہمسایہ ملک  کئی طرح کی سازشیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کشمیر صوفیوں کی سرزمین ہے اور ہمارے یہاں کے صوفیوں کو اپنے ملک ہندوستان جو صوفیوں اور سنتوں کا گہوارہ ہے سے  بے پناہ محبت  ہے۔ کشمیر میں موجود صوفی آج بھی اپنے مریدوں اور چاہنے والوں کو اپنے ملک ہندوستان کے ساتھ محبت کرنے کا مشورہ،تعلیم اور ہدایت دیتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وہ دن گئے جب سرحد پار بیٹھے سیاستدان، حکمران اور دیگر لوگ کشمیریوں کو مختلف فرسودہ نعروں اور باتوں سے بہکاتے تھے ۔کشمیری جاگ چکا ہے اور اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں وہ سب کچھ ہے جو مغربی یا عرب ممالک میں نہیں ہے ۔یہاں کے آبشار، لالہ زار، سرسبز پہاڑ اور وادیاں ساری دنیا کے سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دیتی ہیں ۔سری نگر شہر میں جی 20 اجلاس کے دوران بھی مختلف ممالک کے نمائیندوں نے اپنے شہریوں کو کشمیر کی سیاحت پر بھیجنے کا اعلان کیا جس کے بعد سینکڑوں غیر ملکی سیاح کشمیر کی سیاحت پر آئے ۔ اس سیمینار میں جن دیگر شخصیات اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں سماجی کارکن غلام رسول پروانہ، مولوی بشیراحمد صوفی،منظور ظہور شاہ چشتی، حاجی محمد اشرف،بلال بٹ، پروفیسرمحمد ابراہیم،ایڈوکیٹ فاروق احمد،ایڈوکیٹ توصیف احمد ، ڈاکٹر آصف رسول،  ایڈوکیٹ بشیر احمد،ڈاکٹر بلال احمد ڈار،شہر یارمجید، ایڈوکیٹ جی این وانی اور ٹریڈ یونین لیڈر محمد یوسف وانی شامل ہیں ۔ سیمینار میں کئی دیگر شخصیات اور طالب علموں کو بھی اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس کے دوران انہوں نے کشمیر میں ڈیجیٹل  ترقیاتی مزید وسعت دینے پر زور دیا ۔ سیمینار کے آخر پروائس فار پیس اینڈ جسٹس کی طرف  سے بعض معزز شرکاء اور طالب علموں کو مومیٹوز سے نوازا گیا۔