روڑکی: کانوڑ یوں نے درگاہ کلیر شریف پر چڑھائے عقیدت کے پھول

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 28-07-2024
روڑکی: کانوڑ یوں نے  درگاہ کلیر شریف پر چڑھائے عقیدت کے پھول
روڑکی: کانوڑ یوں نے درگاہ کلیر شریف پر چڑھائے عقیدت کے پھول

 

روڑکی:  ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک اور خوبصورت مثال سامنے آئی جب روڑکی میں مشہور صوفی بزرگ حضرت  خواجہ صابر  کلیر شریف  کی درگاہ پر کانوڑیوں کے ایک گروپ نے حاضری دی اور  عقیدت کے پھول چڑھائے، کا نوڑیوں کا ایک گروپ بدھ کی شام دیر گئے ہریدوار سے کلیر پہنچا تھا، جن کے کندھوں پر جو اپنی اس پہل سے اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام دے رہے تھاکانوڑیوں نے درگاہ صابر پاک پر حاضری دی اور عقیدت و محبت کے پھول چڑھائے۔ اس کے بعد انہوں نے ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے دعا کی۔

اپ کو بتا دیں کہ معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ علاؤالدین علی احمد صابرالمعروف کلیر شریف کا مزار اترا کھنڈ کے ہری دورا میں روڑکی کے پاس واقع ہے، جس کا سالانہ عروس ربیع الاوّل کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ یہ ہندوؤں کے ایک مقدس مقام ہری دوار کے جنوب کی طرف ہے۔ اس جگہ کو ہندو اور مسلم مذاہب کے درمیان اتحاد کی علامت بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ مقامی لوگوں کی اکثریت ہندوؤں کی ہے جب کہ یہاں آنے والے بیشتر زائرین مسلمان ہوتے ہیں

پنجاب، ہریانہ اور چندی گڑھ کے شیو عقیدت مندوں نے درگاہ شریف میں عقدت کے پھول چڑھا کر گنگا جمنی ثقافت کی مثال پیش کی۔ شیو بھکتوں نریش کمار، کرن، لکھن، ببلو شرما، پریم، نکنج، کرم چند نے بتایا کہ وہ گنگا کا پانی جمع کرنے ہریدوار آ ے تھے-جب ہم وہاں سے گزر رہے تھے تو مجھے لگا جیسے درگاہ پر پھول چڑھائے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ درگاہ صابر پاک پر سر جھکا کر اور پھول چڑھا کر ملک کی خوشحالی اور بھائی چارے کے لیے دعا کی جاتی ہے۔
کانوڑ کلیر شریف میں دعا مانگتے ہوئے

ملک میں یہ درگاہ سب سے زیادہ قابل احترام مزاروں میں سے ایک ہے۔تاریخی ریکارڈ کے مطابق اس کی تعمیر دہلی سلطنت کےآخری افغان حکمران ابراہیم لودھی کے حکم پرکی گئی تھی۔یہ درگاہ اپنی صوفیانہ روایات کے لیے بھی مشہور ہے۔ ہر برس ہندوستان اور بیرون ملک سے لاکھوں عقیدت مند اس کی زیارت کرتے ہیں، خاص طور پر عرس کے دوران تو یہاں زبردست مجمع ہوتا ہے

 کون تھے صابر کلیری
علاءالدین علی احمد صابر کلیری بر صغیر پاک و ہند کے ان اولیا میں سے ہیں جن سے سلسلہ چشتیہ کی شاخ سلسلہ صابریہ میں منسوب ہے۔ یہ حضرت بابا فرید گنج شکر کے بھانجے اور محبوب ترین خلفا میں سے ہیں اور ان کے جاں نشیں بھی ہیں اور احباب میں سب سے پہلے مرید ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
ابتدائی تعلیم ہرات میں حاصل کی۔ والدہ سے قرآن اور عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے مامو بابا فرید الدین گنج شکر کے یہاں اجودھن (پاکپتن شریف) تشریف لائے اور باطنی علوم کی متوجہ ہوگئےاور اپنے ماموں بابا فرید گنج شکر اپنے بھانجے کی علاءالدین صابر کی ظاہری اور باطنی تعلیم و تربیت پر دھیان دینے لگے انہوں نے بہت شوق سے علوم صوری و معنوی کو حاصل کیا۔ فقط اگیارہ سال کی عمر میں انہوں نے باباگنج شکر کے ہاتھوں پر اپنی والدہ کی حاضری میں بیعت فرمائی اور یہ بابافرید گنج شکر کی خدمت میں رہ کر روحانی فیوض و برکات حاصل کرتے رہے۔ بابا فرید نے ان کو لنگر تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی جس کو انہوں نے بخوبی نبھایا۔
صابر کلیری نو برس تک لگاتار عالم استغراق میں مستغرق رہے۔آپ کے اسی حالت میں بابا گنج شکر نے ان کو خرقہ خلافت عطا کیا اور اپنی کلاہ مبارک آپ کے سر پر رکھی
بابا گنج شکر نے آپ کو کلیر شریف کا شاہ ولایت مقرر فرمایا  اور آپ کو کلیر جانے کا حکم کیا۔ 1255 میں آپ کلیر تشریف لے گئے۔ وہاں پر لوگوں نے ان کا بہت ہی پرزور طور پر استقبال کیا اور لوگ ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونے لگے اور ان سے بیعت ہو کر دینی اور دنیاوی کامیابی حاصل کرنے لگے۔
ان کے سب سے معتمد اور معتبر شاگرد اور مرید خواجہ شمس الدین ترک تھے ۔ یہ ان سے اکثر سوالات کیا کرتے تھے اور بہت صابر صاحب کے جوابات ان کو متحیر کر دیا کرتے تھے۔ اسی طرح جب ان کا وصال 1291 عیسوی کو ہوا تو ان کی نماز جنازہ پڑھانے والے والے نے خواجہ شمس الدین کو کافی حیرت میں دال دیا تھا اور عرصہ پہلے فنا اور بقا کو لے کر کیے سوال کا جواب ان کو مل گیا۔ان کا مزار کلیر شریف ضلع سہارنپور میں نہر گنگ کے کنارے واقع ہے۔