مولانا احمد بخاری نے کہا کہ یہ وقت تقسیم، نفرت اور فرقہ واریت کا نہیں،بلکہ اتحاد، امن اور قومی یکجہتی کا ہے۔ دہشت گردی کو کسی طور پر بھی جواز نہیں دیا جا سکتا۔ جو لوگ اسلام کے نام پر ایسی درندگی کرتے ہیں، وہ درحقیقت اسلام کے دشمن ہیں۔ ہماری تہذیب اور ثقافت نے ہمیشہ رواداری، بقائے باہمی اور مساوات کا سبق دیا ہے۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر ہم نفرت کے اس اندھیرے کو مٹا سکتے ہیں۔ہم تمام شہداء کے اہلِ خانہ سے دلی تعزیت کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری دنیا کو اس طرح کے المناک واقعات سے محفوظ رکھے۔ہم سب کی مشترکہ آواز یہی ہونی چاہیے: امن، اتحاد، اور انسانیت سب سے پہلے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیغام انسانیت، امن اور یکجہتی کی ایک پکار ہے،ایک ایسا بیان جو نہ صرف پہلگام کے سانحے پر قوم کے دکھ اور صدمے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ آج کے دور میں انسانی رویوں، مذہبی رواداری، اور اخلاقی اقدار کے زوال پر بھی ایک گہرا سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔
نماز جمعہ کے قبل اپنے خطبے میں انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کی وہی آیت — “جس نے ایک انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔۔۔ جبکہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا” — ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسانی جان کی حرمت کتنی عظیم ہے۔ اسلام، جو سراسر امن، رحم اور عدل کا دین ہے، اس کے نام پر بے گناہوں کا خون بہانا، اس کے بنیادی اصولوں کی سنگین توہین ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلگام میں جو ظلم ہوا، وہ انسانیت، مذہب، اور تہذیب سب کی تذلیل ہے۔ مذہبی شناخت کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کرنا، ان کی عزت، جان اور وقار کو پامال کرنا، ایک ایسا ظلم ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں صرف مسلمان یا ہندو نہیں، بلکہ انسان بن کر سوچنا ہوگا۔
امام احمد بخاری نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ہم نفرتوں، فرقہ واریت، اور تعصبات سے بلند ہو کر، اپنے وطن کی عظمت اور انسانیت کی بقا کے لیے متحد ہو جائیں۔ ہمارا ملک، جس کی بنیادیں برابری، بقائے باہمی اور سیکولر اقدار پر قائم ہیں، دنیا کے لیے ہمیشہ ایک مثال رہا ہے، اور ہمیں اسی روش کو برقرار رکھنا ہے۔آپ کے الفاظ میں جو درد، سوالات اور خدشات ہیں — وہ صرف ایک شخص کے نہیں، بلکہ آج ہر حساس دل رکھنے والے انسان کے سوالات ہیں۔
"انسانیت کہاں جا رہی ہے؟"
کیا ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا؟
کووڈ کے دنوں میں جو انسانیت کا بحران ہم نے دیکھا، اس کے بعد تو ہمیں مزید مہربان، مزید متحد، اور مزید ذمہ دار ہونا چاہیے تھا۔ مگر آج پھر سے ہم نفرت، تعصب، اور تشدد کی اندھی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔آخر میں یہ دُعا کہ خدا ہم سب کو ایسے سانحات سے محفوظ رکھے، ایک اجتماعی دعا کریئے ، جو ہر زبان، ہر نسل، اور ہر مذہب کے دل سے نکلے۔ کیونکہ جب دنیا میں امن ہوگا، تبھی ہم سب محفوظ ہوں گے۔شاہی امام مولانا احمد بخاری نے کہا کہ دہشت گردوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے جو غیر اسلامی اور غیر انسانی طرزِ عمل اپنایا ہے، وہ کس قسم کا اسلام ہے؟ کیا یہ وہی اسلام ہے جو انہوں نے خود پڑھا ہے یا انہیں پڑھایا گیا ہے؟ یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک بات ہے کہ مذہبی شناخت معلوم کرنے کے لیے لوگوں کو مبینہ طور پر برہنہ کیا گیا اور جب یہ ثابت ہوا کہ وہ ہندو ہیں، تو ان نہتے اور بے گناہ انسانوں کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
نہ یہ عمل اسلام کی تعلیمات سے میل کھاتا ہے، نہ تاریخ سے، اور نہ ہی ہماری تہذیب سے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو یہ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ کہاں جا کر رکے گا۔ ہندوستان اور اس کی قدیم روایتی تہذیب کسی بھی صورت میں ایسے رویّے کو برداشت نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت ہندو یا مسلمان ہونے کا نہیں بلکہ ملک کی عزت، خود مختاری اور وقار کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط چٹان کی طرح متحد ہو کر کھڑے ہونے کا ہے۔ جب بھی ملک کی سالمیت اور خودمختاری پر ضرب پڑے گی، تب ہر امن پسند ہندوستانی شہری، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا برادری سے تعلق رکھتا ہو، ملک کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہوگا۔ شاہی امام نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ انسان اور انسانیت آخر کس سمت جا رہے ہیں۔ کچھ ہی سال پہلے دنیا نے وبا جیسے مہلک عذاب کو جھیلا، کروڑوں انسان موت کے منہ میں چلے گئے، بعض کو کفن دفن بھی نصیب نہ ہوا، کہیں لاشیں اٹھانے والے موجود تھے اور کہیں نہیں۔ انسانیت نے جس کرب سے گزر کر اس دور کو عبور کیا، اس کے باوجود دنیا اس سے کوئی سبق نہ سیکھ سکی۔
آج بھی دنیا میں اسلحے کا بازار پوری شدت کے ساتھ جاری ہے، کہیں یہ ہتھیار رضاکارانہ طور پر، تو کہیں تجارتی بنیادوں پر فراہم کیے جا رہے ہیں، جو کہ انسانیت کی ہلاکت کا سبب بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پھر جنگ و جدال اور تشدد کا ماحول ہے، انسانیت ایک بار پھر پامال ہو رہی ہے۔ انسان، انسان کو قتل کر کے اپنی کامیابی تلاش کر رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کسی نہ کسی شکل میں جنگ اور تشدد کی لپیٹ میں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور آپسی اعتماد کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ آخر ہم انسانیت کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ، تشدد اور دہشت گردی سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ شاہی امام نے کہا کہ ہمارے ملک کی کچھ بنیادی خصوصیات ہیں، جن میں مساوات، بھائی چارہ اور پرامن بقائے باہم نمایاں ہیں۔ یہی خوبیاں ہمیں دنیا کی دیگر قوموں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ہماری ہزاروں سال پرانی تہذیب، ہمارا وہ قومی ورثہ ہے جو ہمیں ہر دور میں انسانیت اور رواداری کا علمبردار بناتا رہا ہے۔ آخر میں مولانا احمد بخاری نے تمام ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے متاثرہ خاندانوں سے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور جاں بحق ہونے والوں کی روح کے اطمینان کے لیے دعا کی۔