مولوی اسماعیل میرٹھی کی برسی پر خراج عقیدت
مولوی اسماعیل اردو زبان و ادب کے ایک بڑے شاعر ہیں، اگرچہ انہوں نے متعدد کتب و رسائل تحریر فرمائے تاہم وہ بچوں کے شاعر کے طور پر زیادہ معروف ہوئے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بچوں کے لیےجن اردو شعرا کرام نے خود کو وقف کر رکھا تھا، ان میں ایک اہم ترین نام مولوی اسماعیل میرٹھی کا ہے،ان کی وفات کو اگرچہ ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے،تاہم ان کے کلام کی معنویت آج بھی برقرار ہے۔
متعدد درسی کتابوں کے مصنف، غزلوں کے علاوہ، بچوں کی اخلاقی نظموں کے خالق اور معروف شاعراسمٰعیلؔ میرٹھی کا اآج ہی دن یکم نومبر 1917 کو انتقال ہوا تھا۔
مولوی محمداسمٰعیل میرٹھی کی پیدائش12نومبر1844ء کومیرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گلستاں، بوستاں اور شاہ نامہ وغیرہ اسکول کا امتحان دیا تھا۔
اس کے بعد وہ 1867ء سے 1870ء کے عرصے میں سہارن پور کے ضلع اسکول میں مدرس فارسی رہے۔ تھوڑے عرصے بعد ترقی کرکے فارسی کے ہیڈ مولوی مقرر ہوئے۔ پہلے سہارن پور پھر میرٹھ میں ایک عرصے تک اس عہدہ پر فائز رہ کر 1888ء میں سنٹرل نارمل اسکول، آگرہ منتقل ہوگئے۔
آگرہ میں بارہ برس مدرس فارسی کے عہدے پرمامور رہے۔ 1899ء میں وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔
اس کے بعداپنے وطن میرٹھ آگئےاوربقیہ عمرتصنیف وتالیف میں گزاردی۔ ان کی اعلا قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں انہیں ’خان صاحب‘ کا خطاب ملا۔
وہ بچوں کے متعدد درسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ایک کلیات ان کی یادگار ہے۔ غزلیات کے علاوہ انھوں نے اخلاقی نظمیں، قصے ،کہانی کے طور پرلکھی ہیں جن سے عمدہ اخلاقی نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔
مولوی اسمٰعیلؔ میرٹھی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
آغازِ عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
اظہارِ حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا دل
اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
جس نے چشمِ مستِ ساقی دیکھ لی
تا قیامت اس پہ ہشیاری حرام
دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں
دلبری جذبِ محبت کا کرشمہ ہے
فقط کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا کہ
جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا
کھولا ہے مجھ پہ سرِ حقیقت مجاز نے یہ
پختگی صلہ ہے خیالات خام کا
کیا فکرِ آب و نان کہ غم کہہ رہا ہے
اب موجود ہوں ضیافتِ دل اور جگر کو میں
وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزل اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو