جامعہ ملیہ اسلامیہ:دیار شوق میرا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 27-10-2023
جامعہ ملیہ  اسلامیہ:دیار شوق میرا
جامعہ ملیہ اسلامیہ:دیار شوق میرا

 

قرۃ العین- نئی دہلی 
 
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام 1920میں ہوا،1988میں پارلیا منٹ ایکٹ کے تحت  اسے مر کزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔اس کے بنیاد گزاروں میں مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ  وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان اکابرین حضرات کا خواب ایک ایسے تعلیمی ادارے کا تھا جہاں ملک کی اکثریت کے جذبے کا خیال کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی مظہر ہو۔
چنانچہ اس اعلیٰ مقصد کی حصولیابی عظمت رفتہ کا سراغ دینے کے لیے یہ چند دیوانے اٹھے جن کا خیمہ کبھی علی گڑھ کے گل زاروں میں سجا تو کبھی قرول باغ کے کوہساروں میں اور باالآخر اوکھلا کے بے آب و گیاہ کے ریگزاروں میں آ ٹھہرا۔ جس کی در و دیوار اور آب و ہوا ایک ایسی علمی بستی  میں تبدیل ہو گئی، جس کی فضا میں پہنچ کر علم و عمل میں رغبت رکھنے والے علما ، وکلا، فلاسفہ اور رہبران وطن سے متعارف ہو جاتے ہیں اور اپنی علمی کم مائیگی اس طرح جان لیتے ہیں کہ ان میں علم کی تشنگی بیدار ہو جاتی ہے۔  یہ تحریر ان اکابرین جامعہ سے متعلق ہے جنھوں نے اس چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا۔ میں آپ کو جامعہ کی ایک ایک شاہراہ ، فیکلٹی، شعبہ جات، عمارتیں ، باغات اور درو دیوار کا مشاہدہ اس طرح پیش کروں گا گویا جامعہ کے چپہ چپہ میں موجود اسما نہ صرف ان علما کا تعارف پیش کرتے ہیں بلکہ وہ علما جہان کے علوم و فنون سے جڑنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ علوم فنون کا شاید ہی کوئی ایسا میدان ہوجو جامعہ کے در و دیوار سے مترشح نہ ہو۔
جامعہ کا لوگو
جامعہ کا لوگو سب سے پہلے 1920 میں متعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد دوبارہ 1925میں تعارف ہوا۔ اس کےبعد 1991میں جامعہ کے پہلے آرٹسٹ اختر حسن فاروقی نے تبدیل کرکے پیش کیا۔آخر میں  غضنفر زیدی نے اسے فائنل ڈیجیٹلا ئز کرکے پیش کیا۔جامعہ کے لوگو میں تین جملے ہیں۔ سب سے پہلے اللہ اکبر لکھا ہے جس کا مطلب ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔ یعنی اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہے اور یہ اوپر تارے میں لکھا ہوا ہے۔ دوسرا جملہ جو کتاب پر عربی زبان میں لکھا ہوا ہے وہ ” علم الانسان ما لم یعلم” یعنی انسان کو وہ سکھایا جو  وہ نہیں جانتا تھا۔ مطلب انسان کو اللہ نے وہ علم اور نالج دیا جو انسان نہیں جانتا تھا۔ تیسرا جملہ جو چاند کے نیچے تحریر کیا ہوا ہے وہ بھہی عربی میں ” جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی” ہے۔ جس کا مطلب ہوا کہ قومی اسلامک یونیورسٹی نئی دہلی۔
میں اپنی اس تحریر میں جامعہ کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ میری کوشش ہوگی کہ جامعہ کا ایسا خاکہ پیش کروں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پوری شکل ابھر کر سامنے آئے، لہذا میں نے یہاں جامعہ کے مختلف گیٹ اور بلڈنگ کے ساتھ پارک وغیرہ کا ذکر کررہا ہوں، یہ دیکھنا بے حد اہم ہوگا کہ ذمہ داران جامعہ جامعہ نے کس طرح اپنے بزرگوں کو یاد رکھا ہے
awazurdu
جامعہ کے گیٹ
باب  مولانا محمود الحسن ۔ معروف مجاہدِ آزادی اور جید عالم ِ دین مولانا محمود الحسن کے نام سے منسوب ہے۔ انھوں نے   ہی 29 اکتوبر 1920 کو علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ  کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ انھیں شیخ الہند اور اسیر مالٹا کے القاب سے بھی جانا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے چار شاگردوں کے ساتھ مالٹا کی اسیری برداشت کی ۔ ان کا شمار دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم ، ریشمی رومال تحریک کے روح ِ رواں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے وفات 30 نومبر 1920 ہوا۔
باب مولانا ابوالکلام آزاد ۔یہ گیٹ عظیم مجاہدِ آزادی، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور قومی رہنما کے نام سے منسوب ہے واضح ہو کہ مولانا ایک عمدہ انشا پرداز ، جادوبیاں خطیب ، بے مثال صحافی اور ایک عمدہ مفسرِ قرآن تھے۔ ان کا شمار جامعہ کے بانیان میں ہوتا ہے۔
باب قرۃ العین حیدر۔ان کا شمار اردو کی عظیم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے وہ سید سجاد حیدر یلدرم کی صاحبزادی تھین ۔ آگ کا دریا ان کا شاہکار ناول ہے جس میں ہندوستان کی دوہزار سال کی تاریخ کو سمویا گیا یے۔ انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔وفات 20 اگست 2007 کو نوئیڈا میں ہوا اور ان کی تدفین جامعہ قبرستان میں ہوئی۔ب
باب اے پی جے عبد الکلام ۔عظیم سائنس داں ،میزائل مین، بھارت رتن اور سابق صدر جمہوریہ ہند کے نام سع منسوب ہے۔ واضح ہو کی انھیں کئی ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے
 
Bharat Ratan. 1997
Padam Bhushan. 1981
Padam Vibhushan. 1990
Indra Gandhi Award for national Integration. 1997
Ramanujan Award. 2000
King Charles. 11march2007
International Von Karman Wings Award 2009
Hoover Medal 2009
وفات 27 جولائی 2015 شیلانگ میگھالیہ
جامعہ اسکول
سید عابد حسین سینیر سکنڈری اسکول:یہ عمارت ڈاکٹر سید عابد حسین کے نام سے ہے جہاں سینئر سکنڈری اسکول ہے۔ کن شخصیات نے جامعہ کو اپنا بھر پور تعاون دیا ان میں سید عابد حسین کا نام سر فہرست ہے۔ان کی علمی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع اور متنوع ہے ۔ان کا شمار جامعہ کے ارکان ثلاثہ میں ہوتا ہے۔ یعنی وہ تین شخصیات جنہوں نے جامعہ کو اپنے خون جگر سے سینچا جن میں عابد حسین صاحب کے علاوہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسرمحمد مجیب ہیں ۔ انھوں نے ۱۹۲۵ میں برلن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ عابد حسین بے شمار کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں ۔وہ ایک ذہین دانشور وادیب تھے اورشیخ الجامعہ کی حیثیت سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہے۔
ذاکر حسین میموریل اسکول:اس اسکول کی عمارت جامعہ ارکان ثلاثہ کے اہم رکن ڈاکٹر ذاکر حسین کے نام سے ہے۔ڈاکٹر ذاکر حسین جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاریخ میں کئی حیثیتوں سے جانے جاتے ہیں ۔وہ مفکر، عالم ،فلسفی،سیاست داں ،ماہر تعلیم ،ماہر معاشیت پر مکمل دسترس رکھنے والے انسان تھے۔بچوں کے لیے ان کی کتاب ” ابو خاں کی بکری” نہایت ہی اہم ہے۔واضح رہے کہ یہ اسکول لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جانا جا تا ہے۔
مشیر فاطمہ نرسری اسکول:مشیر فاطمہ اسکول کی ہر دل عزیز استانی تھیں انھیں لوگ آپا جان کہتے تھے۔دراصل آپا جان جامعہ نر سری اسکول کے بنیاد گزاروں میں تھں۔۱۹۵۵ میں پروفیسر مجیب صاحب نے ان ک سرپرستی میں اسکول کی بنیاد رکھی اور مشیر فاطمہ صاحبہ مدرسہ ابتدائی میں پہلی کلاس کی ٹیچر اورذمہ دار تھیں، پھر بعد میں پروفیسر مجیب صاحب نے پورے اسکول کی ذمہ داری ان ککے حوالے کردی۔۲۰۰۴ میں اسکول کے جشن زریں کے موقع پر اس وقت کے نائب شیخ الجامعہ پروفیسر مشیرالحسن صاحب نے ان کی بے لوث خدمات کے عوض خراج عقیدت کے طور پر جامعہ نرسری سکول کا نام ” مشیر فاطمہ نرسری اسکول”کر دیا۔
عبدالغفار مدھولی اسکول لائبریری:جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کو جن اساتذہ اور شخصیات نے روشن کیا ان میں ایک اہم نام عبدالغفار مدھولی کا آتا ہے۔ان کی پیدائش ۱۹۰۵ میں قصبہ مدھول(ناندیڑ) میں ہوئی ۔وہ جامعہ کے مدرسہ ابتدائی میں استاد تھے،بعد میں انھوں نے ثانوی، اعلیٰ ثانوی، اور کالج میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیں اور اس کے علاوہ جو اہم کام ہے وہ یہ کہ استادوں کے مدرسہ کی بنیادیں مضبوط کیں۔ انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کی جن میں ”جامعہ کی کہانی” نہایت اہم ہےجسے جامعہ کے ہر طالب علم کو پڑھنا چاہیے۔
جامعہ اسکول کے دار الاقامہ
اجمل منزل:حکیم اجمل خاں سے منسوب یہ ہاسٹل ہے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اولین چانسلر تھے۔ ان کی پیدائش ۱۱ فروری ۱۸۶۸ کو دہلی میں ہوئی۔جامعہ کے بنیاد گزاروں میں ان کا نام آتا ہے۔حکیم اجمل خاں کے مشورے سے ہی جامعہ کو علی گڑھ سے دہلی کے قرول باغ اور پھر اوکھلا میں منتقل کیا گیا۔ آپ کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں حکومت نے کئی خطابات آپ کو دیے جیسے حاذق الملک، قیصر ہند اور مسیح الملک وغیرہ۔آپ کا انتقال ۱۹۲۷ کو رامپور میں ہوا اور تدفین خواجہ  سید حسن رسول کے قریب پہاڑگنج میں ہوئی ۔
حالی منزل:خواجہ الطاف حسین حالی اردو کے نامور شاعر و نقاد گزرے ہیں۔ ان کی پیدائش ۱۸۳۷ میں پانی پت ہر یانہ میں ہوئی۔ حالی علی گڑھ تحریک کے علمبردار اور سر سید کے خاص تھے۔سر سید نے جس اردو نثر کو وقار و عظمت عطا کی حالی نے اسے آگے بڑھایا اور مرصع قلم سے انھیں چمکایا۔مقدمہ شعروشاعری ان کی سب سے اہم کتاب ہے ۔ ان کا انتقال ایک جنوری ۱۹۱۵ میں پانی پت میں ہوا۔
اقبال منزل:علامہ اقبال کی پیداءش ۹ نومبر ۱۸۷۷ کو سیالکوٹ میں ہوئی۔ شاعر، مصنف، قانون داں اور سیاست داں جیسے کثیر الجہات اوصاف کے مالک تھے ۔ بنیادی طور پر وہ نظم کے عظیم شاعر تھے ۔ انھوں نے اپنے کلام میں ہندو مسلم اتحاد پر بھی زور دیا۔ ترانہ ہندی، ہمالہ، نیاشوالہ، ترانہ ملی اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا وغیرہ تحریر کر وطن عزیز سے محبت کا کھل کر اظہار کیا۔ اس کے علاوہ حب الوطنی اور ہندوستاں سے محبت کا بھی بار بار درس دیا۔ ان کا انتقال ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ میں لاہور میں ہوا۔
محمود منزل:یہ ہاسٹل شیخ الہند مولانا محمودالحسن کے نام سے منسوب ہے جن کا ذکر جامعہ کے گیٹ کے ضمن میں آچکا ہے کہ مولانا نے ہی جامعہ کی بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھی تھی۔ واضح ہو کہ آپ مفسر قرآں،محدث اور عظیم مجاہد آزادی اور جنگ آزادی کے علمبردار تھے۔
اسلم منزل:مولانا اسلم جیراجپوری ایک ممتاز عالم دین تھے ان کی پیدءش ۲۷ جنوری ۱۸۸۲ میں جیراجپور ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی ۔جامعہ کا قیام جب عمل میں آیا تو انھوں نے کھلے دل سے اس کاا استقبال کیا ۔ اس وقت علی گڑھ میں عربی و فارسی کے استاد تھےاور تقریباً چھ برسوں تک وہاں تدریسی خدمات انجام دیے پھر بعد میں مولانا محمد علی جوہر کے کہنے پر جامعہ تشریف لائے اور اسلامی تاریخ، قرآن و حدیث کے استاد مقرر ہوئے اور تا حیات اس ادارے سے وابستہ رہے۔
سعد منزل
مولانا سعد الدین انصاری جامعہ کے اسکول میں حدیث، اسلامیات اور عربی کے استاد تھے۔ جامعہ کے لوگ انھیں مولانا سعد کہا کر تے تھے اس لیے وہ صرف مولانا سعد کے نام سے مشہور ہوگئے۔
awazurdu
جامعہ کی عمارتیں
دبستان حضرت نظام الدین اولیاء:حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی پیدائش 9/اکتوبر 1238ء کو بدایوں میں ہوئی۔ وہ ایک سلسلہ چشتیہ کے معروف و مشہور صوفی بزرگ تھے جن کا سلسلۂ نسب امام حسین تک جاتا ہے۔ فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز کی عمارت اسی صوفی بزرگ کے نام سے منسوب ہے۔ خواجہ بلا ملک و مذہب تمام ہندوستانیوں بلکہ برصغیر کے لائق احترام ہستی ہیں۔ آپ کے القابات نظام الاوالیاء محبوب الٰہی، سلطان المشائخ، سلطان الاولیا وغیرہ ہیں۔
محب الحسن ہاؤس:پروفیسر محب الحسن کا نام ایک بڑے عالم اور تاریخ داں کے طورپر لیا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش 1908ء کوبلاس پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی گئے اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے واسطے لندن یونیورسٹی تشریف لے گئے۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں درس تدریس کے کام انجام دیے۔ 1963ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ تاریخ و ثقافت میں صدر شعبہ کے عہدے پر بھی رہے۔ یہ سابق نائب شیخ الجامعہ پروفیسر مشیرالحسن کے والد ماجد تھے۔ ان کا انتقال 21/اپریل 1999 میں ہوا۔
ایم۔ایم۔ اے جے اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز
مولانا محمد علی جوہر: تحریک آزادی کے عظیم رہنما، بے باک صحافی اور بانی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پیدائش 10/دسمبر 1878ء میں رام پور میں ہوئی۔ جدو جہد آزادی میں سرگرم رہنے کی وجہ سے مولانا کی زندگی کافی مصائب و پریشانی میں گزری۔ تحریک عدم تعاون کے پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے۔ اس کے علاوہ تحریک خلافت کے بانی اور ترک موالات کی تحریک میں گاندھی جی کے شانہ بشانہ شریک رہے۔ گول میز کانفرنس کے سلسلہ میں انگلستان گئے اور آزادی وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے بیمار ہوگئے اور لندن میں ہی انتقال فرمایا۔ البتہ ان کی تدفین بیت المقدس میں ہوئی۔
کے اے حمید ہاؤس
خواجہ عبدالحمید ایک سائنس داں تھے۔ وہ سپلادوا ساز کمپنی کے بانی تھے جسے انھوں نے 1935ء میں قائم کی۔ ابھی ان کے بیٹے یوسف حمید اس کمپنی کے چیرمین ہیں۔ یہ عمارت انھیں کے نام سے منسوب ہے۔ واضح ہو کہ اس عمارت میں فیکلٹی آف شوسل سائنس کے علاوہ انجمن جامعہ اساتذہ کادفتر بھی ہے۔ ان کا انتقال 23/جون 1972ء کو ہوا۔
نوم چومسکی کمپلیکس:نوم چومسکی کا شمار ایک امریکی ماہر لسانیات، فلسفی، مورخ اور مصنف کے طور پر ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش 7/ستمبر 1928ء میں ہوئی۔ نوم چومسکی کو لسانیات میں جینیریٹو گرامر کے اصول اور بیسویں صدی کے لسانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ چومسکی کی شہرت امریکی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید سے ہوئی۔ وہ سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔
ایم ایف حسین آرٹ گلیلری:مشہور ہندوستانی مصور مقبول فدا حسین کی پیدائش 17/1915ء کو پنڈھرپور مہاراشٹرا میں ہوئی۔ ہندوستان کے پکاسو کے نام سے مشہور فدا حسین 1922ء میں رنگوں کو اپنا دوست بنا لیا اور ممبئی آکر باقائدہ آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ انھیں مختلف انعامات و اعزازات سے نوازا گیا ہے، جن میں پدم شری اورپدم بھوشن وغیرہ اہم ہیں۔ وفات 9/جون 2011ء کو لندن میں ہوئی۔
دیار میر تقی میر
میر تقی میر کاشمار اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش 1722 میں ہوئی۔ اردو شاعری میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔ انھیں خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ غالب جو خود ایک عظیم شاعر ہیں ان کے متعلق لکھتے ہیں
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
انتقال 20/ستمبر 1810ء میں لکھنؤ میں ہوا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین میوزیم:جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین اس یونیورسٹی کے قیام میں اہم رول رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نام سے جامعہ میں کئی عمارتیں ہیں مثلاً ذاکر حسین لائبریری، ذاکر حسین میموریل اسکول وغیرہ۔ اس طرح ان کے نام پر ایک میوزیم بھی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین میوزیم کا قیام 1973ء میں ہوا۔ اسے سفید اور خوبصورت پتھروں سے بنایا گیاہے اور یہیں ان کا اور ان کی بیگم شاہجہاں بیگم کا مقبرہ بھی ہے۔ اس میوزیم میں ذاکر صاحب کی نادر و نایاب چیزوں کے ساتھ ساتھ بھارت رتن ایوارڈ سمیت مختلف چیزیں ہیں۔
منصور علی خاں اسپورٹس کمپلیکس
نواب منصور علی خاں اسپورٹس کمپلیکس جسے ہم بھوپال گراؤنڈ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ اسے سابق ہندوستانی کرکٹر منصور علی خاں کی والدہ ماجدہ نے جامعہ کو عطیہ کیا تھا۔ یہاں کرکٹ کے علاوہ ہاکی، باسکٹ بال، ٹیبل ٹینس کے علاوہ فٹبال کے لیے بھی الگ جگہیں ہیں۔
اے جے قدوائی ماس کمیونیکیشن ریسرچ سنٹر:جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ماس کمیونی کیشن ہندوستان ہی نہیں بلکہ ایشیاء کا ایک اہم ادارہ ہے۔ جسے سابق شیخ الجامعہ جناب انور جمال قدوائی نے 1982ء میں قائم کیا۔ یہاں کمیونی کیشن ریسرچ سنٹر جدید میڈیا آرٹ اور ٹیکنالوجی وغیرہ میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن جیسے کورسیز ہوتے ہیں۔
ایف ٹی کے (سینٹر فار انفارمیشن ٹکنالوجی):یہ سنٹر فخرالدین طاہر بھائی خوراکی والا کے نام پر تعمیر کیا گیا ہے اور یہ انفارمیشن ٹکنالوجی کا مرکز ہے۔ یہیں سے پورے جامعہ میں انٹرنیٹ کی فراہمی ہوتی ہے۔
 
دارالاقامہ (طلبا)
 
امبیڈکر ہاسٹل
بھیم راؤ امبیڈکر کی پیدائش 14/اپریل 1891ء میں ہوئی۔ وہ ایک مشہور قانون داں، فلسفی، سیاسی رہنما، تاریخ داں، ماہر اقتصادیات، انسان دوست، مصلح اور آزاد بھارت کے پہلے وزیر قانون تھے۔ امبیڈکر جی ہندوستانی آئین کے اہم مصنف ہیں انھوں نے ہی دستور ہند کو باضابطہ کتابی صورت مرتب کیا۔ انھیں بابا صاحب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
عبیداللہ سندھی:مولانا عبیداللہ سندھی کی پیدائش 10/مارچ 1872ء میں سیالکوٹ کے پاس ایک گاؤ ”چیانوالی“ میں ہوئی۔ آپ کے آبا و اجداد سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ اسلام قبول کرنے کے بعد دیوبند آگئے اور دارالعلوم میں تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے ان کو جامعہ آنے کی درخواست کی کہ وہ آئیں اور جامعہ میں قیام کریں نیز اساتذہ و طلبا کو اپنے علم سے بہرہ ور کریں لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ لیکن انھوں نے جامعہ میں بیت الحکمت قائم کیا جائے جہاں ایسی تعلیم دی جائے کہ ملک مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے باہر نکل سکے اور ذاکر حسین نے جامعہ کے سلور جبلی کے موقع پر اس کے لیے پچیس ہزار کی رقم فراہم کی اور اپیل بھی کی۔ ان کی کئی تصانیف ہیں جن میں خطبات و مقالات، قرآن شعور انقلاب وغیرہ اہم ہیں۔
ایم۔ اے خواجہ:عبدالمجید خواجہ کا شمار ایک معروضہ وکیل، ماہر تعلیم، مصلح اور مجاہد آزادی میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش 1885ء میں علی گڑھ میں ہوئی۔ آپ ایک آزاد خیال مسلمان اور گاندھی جی کے عدم تشدد کے خلاف پابند تھے۔ تقسیم ہند کی شدید مخالفت کی اور پوری زندگی ہندو مسلم یکجہتی کو فروغ دینے میں صرف کردی۔ آپ دو مرتبہ جامعہ کے شیخ الجامعہ رہ چکے۔ پہلی مرتبہ 1923ء تا 1925ء جب کہ دوسری مرتبہ 1936ء تا 1962ء۔ ان کا انتقال 2/دسمبر 1962ء میں ہوا۔
فضل الرحمن خاں ہاسٹل:فضل الرحمن کی پہچان تعمیراتی انجینئرنگ کے آئن اسٹائن کے طور پر ہوتی ہے۔ ان کی پیدائش 3/اپریل 1929 کو برطانوی راج ڈھاکہ میں ہوئی۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسی تکنیک سے عوام کو متعارف کروایا جس کی وجہ سے ٹوئن ٹاور جیسی بلند و بالا عمارتیں آسانی سے تعمیر ہوسکے۔ سعودی عربیہ کے شہر جدہ میں 27/مارچ 1982ء کو ان کا انتقال ہوا۔
دارالاقامہ (طالبات)
ایوان خالدہ ادیب خانم:خالدہ ادیب خانم کی پیدائش 11/جون 1884ء میں استنبول ترکی میں ہوئی۔ وہ ترکی کی مشہور و معروف ادیبہ، شاعرہ، ناول نگار، صحافی اور سماجی و سیاسی کارکن تھیں۔ خالدہ ادیب خانم شام میں قیام کے دوران وزیر کی حیثیت سے یتیم خانہ قائم کی جہاں انھوں نے مذہبی تعلیم وتبلیغ کا بندوبست کیا اور ارمن و کرد بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ مصطفی کمال پاشا کے عہد میں آپ ترکی کی وزیر تعلیم بھی رہی۔ ان کا انتقال 9/جنوری 1964ء کو ہوا اور ترکی کے شہر استنبول میں تدفین ہوئیں۔
بیگم حضرت محل:بیگم حضرت محل کو ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم خاتون اور مجاہد آزادی کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش 1820ء میں فیض آباد میں ہوائی تھی۔ وہ واجد علی شاہ کی دوسری بیوی تھی اور جب انگریزوں نے واجد علی شاہ کو جلاوطنی کی سز ا دیتے ہوئے کلکتہ بھیج دیا تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھال لی اور انگریزوں کی مخالفت میں سامنے آئیں۔ وہ انگریزوں کے خلاف میدان جنگ میں شریک ہوکر اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتی تھیں۔ بعد میں وہ نیپال چلی گئیں اور آخر سانس تک اودھ کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں لگی رہیں۔ ان کا انتقال 7/اپریل 1879ء کو نیپال میں ہی ہوئی۔
گریڈا فلپس بورن:یہ خاتون جرمنی کی رہنے والی تھیں اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی دوستوں میں سے تھیں۔ انھوں جامعہ اور طلباء جامعہ کی کافی مدد کی۔
بیگم انیس:بیگم انیس قدوائی کا شمار عظیم مجاہد آزادی میں ہوتا ہے۔ وہ ایک مصنفہ، سماجی کارکن اور سیاست داں تھیں۔ ان کی پیدائش 1906ء میں اترپردیش کے بارہ بنکی میں ہوئی۔ وہ دو مرتبہ راجیہ سبھا سے ممبر پارلیامنٹ منتخب ہوئیں۔ ان کی سب سے اہم تحریک ان خواتین کو ریلیف پہنچانے کی تھی جو تقسیم ہند کا زخم جھیل رہی تھیں۔ ان کی ادبی خدمات کے عوض حکومت ہند کی طرف سے ساہتیہ کلا پریشد ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔
ارونا آصف علی:ارونا آصف علی کا شمار بھی مجاہد آزادی میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش 16/جولائی 1909ء کالکا میں ہوئی۔ ان کا پیدائشی نام ارونا گانگولی تھا۔ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران انھیں ممبئی کے گوالیار میدان میں کانگریس کا جھنڈا پھیرانے کے لیے ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ ارونا آصف کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور انھیں بھارت رتن، پدم بھوشن و جواہر لعل نہرو ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔ وفات 29 جولائی 1906 کو دہلی میں ہوئی۔
بی اماں:بی اماں (عبادی بانو بیگم) علی برادران بھی مولانا محمد علی جوہر اورمولانا شوکت علی کی والدہ ماجدہ تھیں۔ تحریک خلافت کی فعال و سرگرم رکن اور جدو جہدآزادی کی مشہور خاتون رہنما تھیں۔ گاندھی جی نے انھیں ”بہادر عورت“ کا خطاب دیا تھا۔ جب محمد علی جوہر اور شوکت علی جیل گئے تو بی اماں نے ان کی جگہ خود لے لی اور پورے ہندوستان کا دورہ کر کے عدم تعاون اور خلافت کا پرچم لے کر انگریز حکومت کے ذریعہ لائے گئے کالے قانون ”رولٹ ایکٹ“ کی مخالفت کر رہی تھیں۔ ان کی وفات 12/نومبر 1924ء کودہلی میں ہوئی۔
لائبریری کے آس پاس کی عمارتیں
ابن سینا بلاک: ابن سینا کو بو علی سینا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 980 میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک ممتاز طبیب اور فلسفی تھے ۔ فارس کے رہنے والے تھے اور مختلف علوم وفنون  کی جامع شخصیت تھی۔ ہارون رشید کے عہد میں ان کا شمار ایک اہم مفکر ین اور ادیب کے طور پر ہوتا تھا۔ ان کی دو اہم کتابیں بہت اہم ہیں ایک القانون فی الطب اور دوسری کتاب الشفا۔ ان کی وفات 21جون 1037 صوبہ ہمدان ایران میں ہوا۔
البیرونی بلاک :ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی ،پیدائش 5 ستمبر 973 میں خوارزم کے علاقہ بیرون میں ہوئی ، وہ ایک عظیم محقق ،سائنس داں، فلسفی، جغرافیہ داں، ریاضی داں، ماہر فلکیات ،ماہر لسانیات، ماہر دوا سازی اور ماہر ہندسات ہیں۔ وہ کئی زبانوں کے ماہر بھی تھے جیسے فارسی، قدیم یونانی، عبرانی، تورانی، سنسکرت اور عربی وغیرہ۔ یہ بلاک انہی نے نام سے منسوب ہے جہاں پریم چند آرکائیو لائبریری ہے۔ واضح ہو کہ پریم چند پر کام کرنے والوں کے لیے یہ آرکائیو نہایت ہی اہم ہے جہاں پریم چند سے متعلق بہت سی اہم چیزیں موجود ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر حسین سنٹرل لائبریری: یہ لائبریری جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مرکزی لائبریری ہے جو ڈاکٹر ذاکر حسین کے نام سے مشہور ہے۔ ان کی پیدائش 1897 میں حیدر آباد دکن میں ہوئی ۔ ان کا شمار جامعہ کے بانیان  اور محسنین میں ہوتا ہے ۔ وہ جامعہ لے چانسلر اور شیخ الجامعہ کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔ دورانِ تعلم آزادی کی تحریکوں میں بھر پور حصہ لیا اور تحریک خلافت و ترک موالات کے سلسلے میں قید و بند کی سختیاں بر داشت کیں  وہ آزاد بھارت کے پہلے مسلم صدر تھے۔ ان کا انتقال 3 مئی 1969 کو دہلی میں ہوا اور تدفین جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئی۔
awazurdu
 
جامعہ کے آڈیٹوریم
انصاری آڈیٹوریم : تحریک شیخ الہند اور بانیانِ جامعہ میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر مختار انصاری کا بھی ہے وہ ایک نامور سیاست داں کے ساتھ ساتھ ماہر طبیب بھی تھے ۔ وہ 1928 سے 1936 تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جب مالی مشکلات کا اضافہ ہوا تو دوسرے تمام رفا کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے بھی دل کھول کر مالی مدد کی اور اس مشکل ترین حالات سے ادارے کو نکالا اور آخر تک جامعہ کی سرپرستی فرمائی۔
صفدر ہاشمی اوپن ائیر تھیٹر:نکڑ ناٹک کی بات اتے ہی سب سے پہلے زبان پر صفدر ہاشمی کا نام آتا ہے۔ انھوں نے  ہندوستان میں باضابطہ نکڑ ناٹک کی تحریک چلائی اور ان سے متاثر ہو کر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں نکڑ ناٹک پیش کیے جانے لگے۔صفدر 1978 سے 1989 تک تقریباً تقریباً 23 نکڑ ناٹک لکھے اور پیش کیے۔ یکم جنوری 1989 میں صاحب آباد میں نکڑ ناٹک ہلا بول پیش کرتے ہوئے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور دو جنوری کو نکڑ ناٹک کا ایک اہم نام ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
حبیب تنویر:حبیب تنویر کا نام محتاجِ تعارف نہیں ، آپ جدید عہد کے ایسے ڈراما نگار ہیں جنھوں نے اسے از سر نو زندہ کرنے اور عملی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔حبیب تنویر کا شمار ان ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہندوستانی تھیٹر کی کردار سازی کا کام پورے دلجوئی اور انہماک سے کیا ساتھ انجام دیا۔ ان کا مشہور ڈراما’اگرہ بازار’ سب سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں پیش کیا گیاجس کے ہدایے کار خود حبیب تنویر تھے۔ اس طرح جامعہ اور حبیب تنویر کا رشتہ کافی پرانا ہے۔ اس اوپن ایئر تھیٹر سے میری واقفیت اس وقت ہوئی جب دسمبر 2011 میں میرے محترم اور بڑے بھائی ڈاکٹر عدنان بسماللہ کی ہدایت میں منشی پریم چند کا افسانہ ‘کفن’ کو ڈرامے کی شکل میں پیش کیاگیا۔
جامعہ کی شاہراہیں
سعادت حسن منٹو لین:سعادت حسن منٹو کا شمار اردو کے عظیم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے جن کی کہانیاں اور خاکے اردو ادب میں نہایت ہی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ خیابان اجمل یعنی وائس چانسلر آفس کے سامنے والی سڑک انھیں کے نام سے منسوب ہے جو ایک عظیم فن کار کے لیے واقع سچی خراج عقیدت ہے۔
شاہراہ ارجن سنگھ:یہ شاہراہ سابق وزیر تعلیم اور اہم سیاسی لیڈر جناب ارجن سنگھ کے نام پر ہے۔ ارجن سنگھ ایک لائق و فائق اورمدبرانہ صلاحیت کے مالک تھے انھوں نے ملک میں پہلی اردو یونیورسٹی قائم کی۔ ارجن سنگھ ماضی میں ریاستی گورنر اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
جامعہ کے باغات
باغ فاطمہ زہرا:فاطمہ بنت محمد بن عبداللہ، جنھیں دنیا فاطمہ زہرا کے نام سے جانتی ہے۔ پیغمبر اسلام محمد ﷺ اور خدیجہ بنت خویلد کی سب سے پیاری بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ کی شخصیت نہاتی پاکیزہ اور برگزیدہ ہے۔ آپ کی شادی علی بن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حضرت حسن و حسین کے علاوہ دو صاحب زادیاں زینب اور کلثم رضی اللہ عنہم اجمعین پیدا ہوئین۔ آپ کی وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چنا ماہ بعد 632ھ میں ہوئی۔
باغ نانک
یہ باغ سکھ مذہب کے بانی گرونانک جی کی طرف منسوب ہے۔ ان کی پیدائش ننکانہ صاحب، لاہور، پنجاب جو کہ اب پاکستان میں ہے 15/اپریل 1469ء میں ہوئی۔ گرونانک دس سکھ گروؤں میں سے پہلے گرو تھے اور ہندوستانی برگزیدہ بزرگوں میں سے ایک ہیں جو انسانوں کو اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ محبت سے زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی یوم پیدائش گرونانک گرپورب کے طورپر پوری دنیا میں اکتوبر نومبر میں منایا جاتا ہے۔
گلشن خسرو:امیر خسرو فارسی اور اردو کے مشہور ومعروف صوفی شاعر اورماہر موسیقی تھے، جنھیں دنیا طوطی ہند کے نام سے جانتی ہے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر بھی امیر خسرو کی طرف ہی منسوب ہے۔ اردو کے ابتدائی مجددین میں ان کا نام نمایاں ہے۔ امیر خسرو محبوب الٰہی خواجہ حضرت نظام الدین اولیا کے بڑے چہیتے اور قریبی مرید تھے اور خود خسرو کو بھی اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ امیر خسرو کو موسیقی سے کافی دلچسپی تھی۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار انھیں کی ایجاد ہے۔ اس کے علاوہ فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی ان کی ہی ایجاد ہے۔
گلستان غالب:نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسداللہ خاں غالب بہار نظام جنگ اردو کے عظیم شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اردو شاعری میں ان کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باب مولانا ابوالکلام آزاد کے اندر داخل ہوتے ہی سامنے شعبہ پالیٹکل سائنس اور معاشیات کی عمارت اور اس کے سامنے کاپارک اس عظیم شاعر کے نام سے منسوب ہے۔
گلستان گاندھی:موہن داس کرم چند گاندھی، ہندوستان کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین رہنما تھے۔ انھوں نے ستیہ گرہ اورعدم تشدد کو اپنا ہتھیار بنایا۔ پوری دنیا میں احترام سے انھیں مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مستقبل اور اس کی بہتری کے لیے گاندھی جی نے جو خدمات انجام دیں اور جامعہ کے وقار و بلندی کے لیے جو کارنامے انجام دیے وہ نہایت ہی اہم ہیں۔ جامعہ کو وہ اولاد کی طرح مانتے تھے۔ وہ ہمیشہ جامعہ کی خوش حالی کے لیے فکر مند رہے اور جب بھی کسی بڑی شخصیت یا مجلس میں گئے تو جامعہ کا تذکرہ ضرور کیا اور اس کے فروغ کے لیے اپنے اخبار میں چندے کی اپلیں کرتے رہے۔ گاندھی کے بیٹے دیوداس گاندھی جامعہ میں استاد تھے اور پوتا رسک گاندھی یہیں طالب علم تھے۔ غرض کہ گاندھی جی آخری عمر یعنی موت تک جذباتی طور پر جامعہ سے منسلک رہے۔
باغ خواجہ غلام السیدین
خواجہ غلام السیدین کی پیدائش 16/اکتوبر 1904 کوپانی پت میں ہوئی۔ وہ خواجہ الطاف حسین حالی کے پرنواسے تھے۔ ان کے والد خواجہ غلام الثقلین اردو زبان و ادب کے ممتاز عالم تھے۔ خواجہ غلام السیدین انگلستان سے تعلیم حاصل کر نے کے بعد مسلم یونیورسٹی میں بحیثیت ریڈر اصول تعلیم یعنی ٹیچرس ٹریننگ کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے اس کے بعد حکومت ہند کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ 1966 ء میں پدم بھوشن کے اعزاز سے انھیں نوازا گیا۔ ایک مرتبہ کولمبیا یونیورسٹی نے مختلف ماہرین تعلیم کو دنیا بھر سے مدعو کیا جن میں ڈاکٹر غلام السیدین بھی شامل تھے۔
باغ عصمت چغتائی:عصمت چغتائی اردو کی ایک مشہور فکشن نگار تھیں۔ انھوں نے ناول، افسانے اور خاکے وغیرہ لکھے۔ ان کی پیدائش 21/اگست 1915 میں اترپردیش کے شہر بدایوں میں ہوئی۔ جب کہ ان کی پرورش جودھپور میں ہوئی جہاں والد ماجد مرزا قسیم بیگ چغتائی ملازم تھے۔ انھیں 1984ء میں غالب ایوارڈ اور 1975ء میں فلم ”گرم ہوا“ کے لیے فلم فیئر بہترین کہانی ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔
باغ محمود درویش:محمود دریوش فلسطین کے ایک مشہور شاعر تھے جنھوں نے اپنی شاعری میں فلسطینی مسائل کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ باغ انھیں کے نام سے منسوب ہے۔ دراصل محمود درویش فلسطین کا قومی شاعر ہے۔ اس لیے وہ مشرقی وسطی میں بہت مشہور تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر بیان کیا ہے اور اپنی قوم کی شناخت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے، جن میں اردو بھی ہے۔ انھیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔
گلستان خوراکی والا:یہ گلستان بھی سابق  چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ جناب فخر الدین طاہر بھائی خوراکی والا کی یاد میں بنایا گیا ہے۔ واضح ہو کہ جناب خوراکی والا صوبہ گجرات کے ایک بڑے تاجر تھے اور جامعہ کے بڑے محسن اور سرپرستوں میں ان کا شمار ہو تاہے۔ یہ گلستان جامعہ اسکول کے باب مولانا محمود حسن کے عقب میں واقع ہے۔
جامعہ میں موجود مختلف بینچیز کے نام
1۔راجندر سنگھ بیدی1915۔ 1984ساہتہ اکادمی ایوارڈ
2۔ آنند نرائن ملا ، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
3۔امتیابھ گھوش، پیدائش 1956 ساہتہ اکادمی ایوارڈ
4۔رشید احمد صدیقی،1894۔1977 ساہتہ اکادمی ایوارڈ
5۔سشی دیش پانڈے، پیدائش 1938 ساہتہ اکادمی ایوارڈ
6۔جگر مراد آبادی،(علی سکندر) ساہتہ اکادمی ایوارڈ
7۔ راجہ راو، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
8۔مخدوم محی الدین،1908۔1969 ساہتہ اکادمی ایوارڈ
9۔ آر کے نارائن،
10۔ بھیشم ساہنی، ساہتہ اکادمی ایوار
11۔ ارون الان سیلی، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
12۔ سمپورن سنگھ کالرا(گلزار)، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
13۔علی جاوید زیدی،1916۔2004، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
14۔ راگھو ویر سہائے،1929۔1990، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
15۔ الکا سراوگی، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
16۔ کے گی سیدین، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
17۔ انیتا دیسائی، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
18۔ فراق گورکھ پوری، 1896۔1982، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
19۔ شمس الرحمٰن فاروقی، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
20۔ غلام ربانی تاباں ، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
21۔ رسکین بانڈ، پیدائش 1934، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
22۔ کے آر سر ی نواسا لینگر،1908۔1999، ساہتہ اکادمی ایوارڈ
23۔ ہری ونش رائے بچن،1907۔2003، ساہتہ اکادمی ایوارڈ