منصور الدین فریدی : نئی دہلی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار کی حقدار ہے یا نہیں ،اس کا فیصلہ جمعہ کی صبح سپریم کورٹ سنا دے گی ۔سب کی نظریں سپریم کورٹ کی جانب مرکوز ہیں ،ا س معاملے میں چیف جسٹس چندر چوڑ کی 7 ججوں کی بنچ نے پچھلی سماعت کے دوران فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ سماعت ساڑھے دس بجے شروع ہوگی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سی جے آئی اے ایم یو کو اقلیتی ادارے کا درجہ دینے کے حق میں ہے یا اس کے خلاف ۔دراصل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (سی جے آئی) ڈی وائی چندر چوڑ 10 نومبر 2024 کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے پاس بطور چیف جسٹس پانچ دن میں 5 اہم معاملات میں اپنا فیصلے سنانے تھے۔جمعرات تک انہوں نے نجی جائداد اور مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ سمیت چار معاملات پر اپنا فیصلہ سنا دیا تھا اب جمعہ کو اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر ان کا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے طور پر آخری بفیصلہ ہوگا ۔ ایسے میں سب کی نظریں ان فیصلوں پر ہوں گی۔
آپ کو بتا دیں کہ اقلیتی کردار کیس کی سماعت اس سا یکم فروری کو آٹھ دن کی بحث کے بعد مکمل ہوئی تھی۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے سماعت کی تھی جن میں سی جے آئی، ڈی وائی چندرچوڑ، سی جے آئی، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چند شرما شامل تھے۔ اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون، اے ایم یو الومنائی اسوسی ایشنس کی جانب سے ایڈووکیٹ کپل سبل اور سلمان خورشید اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑ رہے تھے۔
واضح رہے سپریم کورٹ نے اے ایم یو کو اقلیتی کردار سے متعلق جاری سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ اقلیتی ادارے کو قومی اہمیت کا ادارہ ہونے میں کوئی حرج نہیں، قابل ذکر ہے کہ مرکز نے عدالت میں اپنی ایک تحریری دلیل میں کہا تھا کہ اے ایم یو ایک قومی ادارہ ہے، اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جانا چاہئے اب چاہیے اس یونیورسٹی کو کسی اقلیت نے قائم کیا ہو یا نہیں۔
قصہ کیا ہے پہلے اس کو سمجھیں ۔۔۔۔۔
اس تنازعہ کا آغاز 1965 میں ہوا تھا جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار اس وقت کے وزیرتعلیم عبدالکریم چھاگلہ کی پہل پر ختم کیا گیا تھا ۔
اقلیتی کردار ختم ہونے کے بعد اے ایم یو برادری نے اس کے خلاف ایک تحریک منظم کی جو پورے ملک میں 1980تک چلی۔اس تحریک کے نتیجے میں دسمبر1981 میں مرکزی حکومت نے ایک آرڈی نینس کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ1981میں مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال کرتے ہوئے آرڈی نینس میں جو تبدیلی کی گئی تھی اس میں واضح طورپر یہ کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ”ہندوستانی مسلمانوں“ نے کیا تھا۔ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے کہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی ترقی کے ارادے سے 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹیل (ایم اے او)کالج قایم کیا تھا۔اے ایم یو آرڈی نینس 1920کے پاس ہونے کے بعد اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدل دیا گیا۔
مگر اقلیتی کردار کے تنازعہ نے ایک بار پھر نیا موڑ لیا جب 2005میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کودوبارہ ختم کردیا۔دراصل 2005میں مسلم یونیورسٹی نے اپنے میڈیکل کورسز میں مسلم طلباء کے لیے پچاس فیصد سیٹیں ریزرو کی تھیں۔ اس ریزرویشن کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر نریش اگروال بنام حکومت ہند(2005)میں چیلنج کیا گیا، جس نے مسلم یونیورسٹی کی ریزرویشن پالیسی کو رد کردیا۔
سال 2006 میں مرکزی حکومت اور یونیورسٹی نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 24 اپریل 2006 کو ایک ڈویژن بنچ جسٹس کے جی۔ بالاکرشنن اور ڈی کے جین نے اے ایم یو کی ریزرویشن پالیسی پر روک لگا دی۔ پالیسی کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے لیے لارجر بنچ کو بھیجا گیا ۔
اس معاملے میں 2016میں اس وقت ایک موڑ آیا جب2014میں این ڈی اے حکومت نے2016 میں اس فیصلے کے خلاف یوپی اے حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل واپس لے لی، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے متعلق دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ جاری رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رہے کہ 12 فروری 2019 کو، چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس ایل ناگیشورا راؤ اور سنجیو کھنہ پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے ایس عزیز باشا کے فیصلے کو سات ججوں کی بنچ کے ذریعے نظر ثانی کے لیے بھیج دیا تھا۔
جبکہ سال 12/اکتوبر2023چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے سات ججوں کی بنچ تشکیل دی۔جس میں ان کے ساتھ ایس کے کول ، سنجیو کھنہ، بی آر گوائی، سوریہ کانت، جے بی پاردی والا اور منوج مشرا سامل تھے ۔
سماعت9/جنوری 2024کو شروع ہوئی۔ یکم فروری 2024کو سپریم کورٹ نے آٹھ دن کی سماعت کے بعدمسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔
سات ججوں کی دستوری بینچ اس بات پر غور کیا تھا کہ کیا مسلم یونیورسٹی دفعہ 30کے تحت اقلیتی ادارے کے طور تسلیم کئے جانے کااہل ہے یا نہیں۔
آپ کو بتا دیں کہ دستور کی دفعہ30کہتی ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قایم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کے حق دار ہیں۔
بات اگر اے ایم یو کی تاریخ کی کریں تو سر سید احمد خان نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 8 جنوری 1877 میں قائم کیاتھا،جبکہ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے لیکن اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلایا جانے والا ادارہ ہے اور اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں