ایبٹ آباد سے ممبئی تک: منوج کمار کی وطن پرستی کا فلمی سفر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 06-04-2025
ایبٹ آباد سے ممبئی تک: منوج کمار کی وطن پرستی کا فلمی سفر
ایبٹ آباد سے ممبئی تک: منوج کمار کی وطن پرستی کا فلمی سفر

 

احمد علی : نئی دہلی 

 منوج کما ر ۔۔۔ یہ نام ذہن میں آتا ہے تو  زبان پر خود بخود وطن پرستی کے وہ گیت آجاتے ہیں جنہوں نے ممبئی کی فلمی دنیا میں انہیں بھارت کمار کی پہچان دی تھی ۔ فلمی دنیا میں وطن پرستی اور حب الوطنی  کے جوش کو جنون کی شکل دینے والے کا نام تھا منوج کمار ۔ آج منوج کمار دنیا سے رخصت ہوگئے،ان کے فلمی سفر کو فلموں کی تعداد یا اعدادو شمار کے بجائے ان کی قوم پرستی کے جذبے اکے لیے یاد کیا جائے گا بلکہ انہیں سلام بھی جائے گا ۔ خراب صحت کے سبب وہ ایک طویل عرصے سے فلمی دنیا سے دور تھے لیکن اس کے باوجود فلمی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

آپ کو بتا دیں کہ منوج کمار کا تعلق سرحد پار سے تھا ،یعنی کہ ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی ۔  1947 کی تقسیم سے پہلے ایبٹ آباد کا ماحول پُرسکون اور قدرتی  کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ یہیں 24 جولائی 1937 کو ہری کرشن گوسوامی نے آنکھ کھولی۔ کسے خبر تھی کہ ایبٹ آباد کی ان گلیوں میں بچپن گزارنے والا یہ بچہ، ایک دن فلمی دنیا کا درخشندہ ستارہ منوج کمار بنے گا؟ اس کے ننھیال کا تعلق ایبٹ آباد سے اور ددھیال کا مشہور قصبہ جنڈیالہ شیر خان (ضلع شیخوپورہ) سے تھا—وہی خطہ جہاں صوفی شاعر وارث شاہ نے ’’ہیر‘‘ جیسا شاہکار تخلیق کیا۔

منوج کے والد اردو شاعر تھے، سو ادب اور زبان کی شیرینی اس کے لہو میں شامل ہو چکی تھی۔ لاہور، جنڈیالہ اور ایبٹ آباد کی مہکتی یادیں اس کے بچپن کا حصہ تھیں۔ مگر پھر تاریخ کا ایک نیا موڑ آیا۔ ہندوستان کی تقسیم۔ امن کے سپنوں کو فسادات کی آگ نے جلا دیا۔ منوج کے والد نے دل پر پتھر رکھ کر جنڈیالہ شیر خان چھوڑا اور اہل خانہ سمیت دہلی میں ریفیوجی کیمپ میں پناہ لی۔ زندگی نے ایک نئی کروٹ لی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد منوج نے فلمی دنیا کے خواب آنکھوں میں بسائے اور 9 اکتوبر 1956 کو، صرف 19 برس کی عمر میں دہلی سے بمبئی کی جانب رخ کیا۔ یہاں سے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا—نہ صرف بطور اداکار بلکہ ایک محب وطن کہانی کار کے طور پر بھی۔

ابتدا میں اسے فلم "فیشن" (1957) میں ایک بوڑھے کا کردار ملا، جب کہ وہ خود ابھی جوانی کی دہلیز پر تھا۔ پھر وقت کے ساتھ فلمیں آتی گئیں—سہارا، چاند، ہنی مون، کانچ کی گڑیا—اور رفتہ رفتہ اس کی اداکاری کو پہچان ملنے لگی۔ "وہ کون تھی؟" (1964) نے تو گویا شہرت کے دروازے ہی کھول دیے۔ مگر اصل پہچان "شہید" سے ملی، جس میں اس نے بھگت سنگھ کا کردار ادا کر کے سب کے دل جیت لیے۔

جب منوج کمار، بھارت کمار بنے

1967 میں منوج کمار نے نہ صرف اداکاری کی بلکہ ہدایت کاری میں بھی قدم رکھا۔ اس کی پہلی فلم "اپکار" تھی، جو 11 اگست 1967 کو یومِ آزادی سے صرف چند دن پہلے ریلیز ہوئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب منوج کمار صرف ایک اداکار نہ رہا، بلکہ قوم پرستی کا چہرہ بن گیا۔

"اپکار" نے نہ صرف باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے بلکہ حب الوطنی کے سنیما میں ایک نئی راہ کھولی۔ فلم میں کسان، سپاہی، بھائی، بیٹے اور وطن پرست ہر پہلو کو دکھایا گیا۔ منوج کمار کے کرداروں نے وطن سے محبت، قربانی، اور دیہی ہندوستان کی سادگی کو اس قدر خوبصورتی سے پیش کیا کہ انہیں ’’بھارت کمار‘‘ کا لقب ملا۔

اس فلم میں آشا پاریکھ، پریم چوپڑا، پران، کامنی کوشل اور دیگر فنکاروں نے بھی شاندار اداکاری کی۔ گیت "میرے دیش کی دھرتی سونا اُگلے" آج بھی قومی جذبات کو زندہ کرتا ہے۔

فلمی محبت اور وطن پرستی کا امتزاج

1960 کی دہائی میں جب سنیما سماجی تبدیلیوں کا آئینہ بن رہا تھا، منوج کمار نے سوشلسٹ نظریات، کسانوں کی جدوجہد، اور آزادی کی تحریک کو بڑے پردے پر اتنی دل سے پیش کیا کہ لوگ صرف فلم نہیں دیکھتے تھے، محسوس کرتے تھے۔"پورب اور پچھم"، "شور", "روٹی کپڑا اور مکان" اور "کرانتی" جیسی فلمیں اس کی محب وطن فلمی شناخت کو مزید مستحکم کرتی چلی گئیں۔ "کرانتی" میں اس نے دلیپ کمار جیسے لیجنڈ کو دوبارہ پردے پر لاکر تاریخ رقم کی۔

آخری باب… مگر یادیں زندہ ہیں

منوج کمار نے اپنے بیٹے کنال گوسوامی کو فلم ’’جے ہند‘‘ میں متعارف کروایا، مگر فلم کامیاب نہ ہو سکی۔ رفتہ رفتہ فلمی دنیا سے ان کا فاصلہ بڑھتا گیا، مگر ان کی فلمیں آج بھی سینما میں حب الوطنی کا استعارہ سمجھی جاتی ہیں۔انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، فلم فیئر، اور پدم شری جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ آج جب منوج کمار ماضی کی یادوں میں کھوئے بیٹھے ہوتے ہیں تو لاہور، ایبٹ آباد اور جنڈیالہ شیر خان کی گلیاں اُن کے دل کو کھینچتی ہیں۔