محفوظ عالم: پٹنہ
عیدالاضحی جسے عام طور پر بقرعید یا قربانی کے تہوار سے لوگ جانتے ہیں ایک عالمی تہوار ہے۔ یہ وہ عظیم تہوار ہے جو ایک ساتھ جہاں قربانی کے جذبہ کو یاد دلاتا ہے وہیں اللہ کے حکم پر اپنی خواہشات کو قربان کرنے کا سبق بھی دیتا ہے۔ عیدالاضحی کے اس عظیم تہوار میں کسی نہ کسی شکل میں تمام مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ خاص طور سے جانوروں کی خرید و فروخت میں اربوں رو پیوں کا کاروبار ہوتا ہے جس میں برادران وطن کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے دانشوروں اور عالم دین نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے مذہبی رہنماؤں نے کہا کی قربانی کے اس عظیم تہوار میں حکومت کے گائڈ لائن کا پورا خیال رکھا جائے ساتھ ہی ممنوعہ جانور کی قربانی ہرگز نہ کی جائے۔ علماء کا کہنا ہے کہ اسلام امن و شانتی کا مذہب ہے۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ مسلمان امن و شانتی کا مظاہرہ کریں اور قربانی کرتے وقت صاف صفائی کا پورا اہتمام کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس موقع پر برادران وطن کے ساتھ خوشیاں بانٹیں اور بھائی چارہ کو مزید مضبوط کرنے کے تعلق سے کام کیا جائے۔
عید گاہ اور مسجد کے باہر نہیں پڑھی جائے نماز
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے معروف اسلامک اسکالر اور تاریخی مدرسہ، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے سابق پرنسپل مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نے کہا کہ اسلام میں کسی کو تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔ اسلئے عیدالاضحی کی نماز عید گاہ میں پڑھنے کو ترجیح دیا جائے۔ مسجد اور عید گاہ کے باہر ہرگز نماز ادا نہیں کی جائے۔ باہر سڑک پر نماز پڑھنے سے لوگوں کو بلا وجہ تکلیف ہوتی ہے اور کسی کو دقت اور پریشانی میں ڈالنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ عیدالاضحی ایک عالمی اور اسلامی تہوار ہے۔ اس موقع پر قربانی کی جاتی ہے۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت ہے۔ قربانی کوئی رسم نہیں ہے بلکہ وہ ایک عبادت ہے۔ اسلئے قربانی کرتے وقت اس کے آداب اور شرائط کا لحاظ رکھنا بیحد ضروری ہے۔ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ بہتر کوئی دوسرا عمل نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کے نزدیک قربانی کے دن قربانی سے زیادہ پسندیدہ کوئی دوسرا عمل نہیں ہے۔
مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ عیدالاضحی کی نماز کے لیے جب اپنے گھروں سے جائیں تو پورے اطمینان و سکون کے ساتھ جائیں۔ ایک راستہ سے جائیں اور دوسرے راستہ سے واپس لوٹیں۔ انہوں نے کہا کہ عید گاہ میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیا جائے اور سڑکوں پر خواہ مخواہ نماز پڑھنے سے نہ صرف پرہیز کیا جائے بلکہ ہرگز عید گاہ اور مساجد کے باہر نماز نہ پڑھی جائے۔
صاف صفائی کا رکھے خیال
معروف اسلامک اسکالر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ قربانی کے دن صاف صفائی کا پورا اہتمام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر لوگ بد احتیاطی کرتے ہیں جو کسی بھی حال میں درست نہیں ہے۔ قربانی کے جانوری کا خون اور اس کے فضلات نالا میں بہا دیتے ہیں جس کے وجہ سے نالا جام ہو جاتا ہے۔ یہ بیحد غلط بات ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کے اسلام امن و شانتی کا مذہب ہے اور وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ کسی کو تکلیف دیا جائے۔ مولانا ابوالکلام قاسمی کے مطابق مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قربانی کے جانور کو کھلی جگہ پر نہیں رکھے اور نہ ہی کھلی جگہ پر جانور کو ذبح کیا جائے۔ قربانی کے دن اس کا اہتمام کریں کہ جانوروں کو ذبح کرتے وقت اس کا خون اور گندگی کو زمین میں دفن کر دیں۔
برادران وطن کے ساتھ بانٹیں خوشیاں
مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ قربانی کے موقع پر یہ بھی ضروری ہے کہ لوگ امن و شانتی کا مظاہرہ کرے۔ یہ خوشی کا دن ہوتا ہے اور قربانی جیسے عظیم تہوار کے موقع پر خوشی اور پیار و محبت کو برادران وطن کے ساتھ بانٹے اور تقسیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کو ہمارے اکابر نے سینچا ہے اور پیار و محبت کے ماحول کو آگے بڑھایا ہے۔ اسلئے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پیار و محبت اور گنگا جمنی تہذیب کو اچھے انداز کے ساتھ لوگوں کے درمیان پیش کیا جائے، تاکہ لوگ اسلام اور مسلمان کو سمجھے کہ ان کا تہوار امن و شانتی کا تہوار ہے۔ اپنے کردار سے یہ پیغام ضرور لوگوں کو دینا چاہئے کہ برادران وطن کو بھی اس تہوار میں خوشیاں نظر آئے اور انہیں احساس ہو کہ مسلمان جب اللہ کی عبادت کرتے ہیں یا دین اسلام کے کسی بھی رکن کو ادا کرتے ہیں تو اس میں محبت و اطمینان کا جذبہ دکھائی دیتا ہے وہ اس میں بد احتیاطی نہیں کرتے ہیں۔
حکومت کے گائڈ لائن کا رکھیں خیال
مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ اس موقع پر حکومت کی گائڈ لائن کا پورا خیال رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا کوم بلکل نہیں کرے جس کے سبب کسی کو کوئی دقت اور پریشانی پیش آئے۔ امن و سکون کے ساتھ عیدالاضحی کے تہوار کو منائیں اور خوشی کا مظاہرہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ملک میں نہایت ہی خوشی کے ساتھ ہمارے اکابر نے اپنی زندگی گزاری ہے۔ وہ محبت کے جذبہ کو پروان چڑھاتے رہے ہیں اور اپنی تہواروں میں تمام مذاہب کے لوگوں کو شریک کرتے رہے ہیں۔ اس جذبہ کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور ان کے طرح ہی اپنے تہوار کو منانے اور عبادت کے ارکان کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
قربانی کے دن سیلفی سے بچیں
اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ عیدالاضحی کے نماز کے بعد جیسے ہی جانور کی قربانی شروع ہوتی ہے نوجوانوں کا طبقہ جوش و خروش میں آکر اپنے اپنے موبائل سے ویڈیوں اور تصاویر لینا شروع کر دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ ویڈیوں اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہو جاتی ہے جس کے سبب کئی مقامات پر ناخوشگوار معاملہ پیش آ جاتا ہے۔ مذہبی علما کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانور کی فوٹو اور ویڈیوں لینا ٹھیک نہیں ہے اور خاص طور سے اس وقت جب ذبیحہ کا عمل جاری ہو، اس وقت اگر کوئی شخص ویڈیوں بناتا ہے وہ نہایت ہی غلط بات ہے۔ مولانا ابوالکلام قاسمی کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوری کو ذبح کرتے وقت نہیں کوئی تصویر لی جائے اور نہ ویڈیوں بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا لوگ خاص طور سے خیال رکھیں کہ اس کو سوشل میڈیا پر ہرگز شیر نہیں کریں۔ نوجوانوں کو اس پر سنجیدگی سے عمل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ضروری طور پر لوگ اس کا ویڈیوں بناتے ہیں اور وائرل کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ماحول کو خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ نوجوانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قربانی دکھاوے کے لیے نہیں کی جاتی ہے بلکہ یہ ایک عبادت ہے اور اس عبادت کو عبادت کے طور پر سلیقے سے اسلامی شرائط کے مطابق ادا کی جائے۔
عیدالاضحی میں ہوتا ہے بڑا کاروبار
ادارہ شرعیہ بہار کے صدر مفتی حسن رضا نوری کا کہنا ہے کہ لوگ ظاہر طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی میں جانوروں پر ظلم کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل یہ ایک عالمی تہوار ہے جس میں اربوں رو پیوں کا کاروبار ہو جاتا ہے۔ اس کاروبار میں ہمارے ہندو بھائی بھی شرکت کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے ہندو تاجروں کو بقرعید کا بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ وہ اپنے جانوروں کو اس موقع پر اچھی قیمت میں فروخت کرتے ہیں۔ اسلئے یہ کہنا کہ جانوروں پر ظلم ہوتا ہے، نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ بہت بڑا رحم ہے اور عیدالاضحی کا تہوار منافع بخش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے مطابق قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ ایک حصہ خود کے لیے، ایک حصہ دوست و احباب کے لیے اور ایک حصہ غریبوں کے لیے۔ ایسے میں بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس عظیم تہوار میں سماج کا سبھی طبقہ شریک ہوتا ہے اور اونچ نیچ کی دیوار ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کے جانوروں کے چمڑے کی آمدنی بھی غریبوں پر خرچ کی جاتی ہے۔
برادران وطن کا رکھیں خیال
مفتی حسن رضا نوری کا کہنا ہے کہ اسلام صاف صفائی کو پسند کرتا ہے۔ اسلئے بقرعید کے موقع پر صاف صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے تاکہ ہمارے برادران وطن کو کسی طرح کی کوئی دقت و پریشانی لاحق نہیں ہو۔ انہوں نے کہا کہ غلاظت کو ایسی جگہ پر پھینکیں جہاں کسی کو دقت نہیں ہو، بہتر تو یہ ہے کہ اس کو زمین میں دفن کر دیا جائے۔ مسلمانوں کو اپنے قول و فعل سے صحیح مسلمان ہونے کا پیغام دینا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل تہوار کا موقع کافی اہم ہوتا ہے جس کے ذریعہ لوگوں کو امن و شانتی اور ساز گار ماحول کا پیغام دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے عبادت کے ارکان کو پورا کرتے وقت امن و شانتی کا پیغام دینا چاہئے اور برادران وطن کو کوئی دشواری نہیں ہو اس کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
اس تہوار میں سب کو ہوتا ہے فائدہ
مفتی حسن رضا نوری کا کہنا ہے کہ بقرعید ایک نمایا تہوار ہے جس میں سب کو فائدہ ہوتا ہے۔ عالمی تہوار ہونے کے سبب تجارت میں بھی اس کا بڑا رول ہے۔ لوگ پورے سال اپنے جانور کی پرورش کرتے ہیں تاکہ عیدالاضحی کے موقع پر اس کی آمدنی سے وہ بہتر زندگی گزار سکے۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں میں یہ روایت کافی پورانی ہے جب ہندو بھائی اپنے جانوروں کو مسلمانوں کے قربانی کے تہوار کے لیے تیار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کس طرح کے جانوری کی قربانی ہوتی ہے اور اس جانوری کی عمر کتنی ہونی چاہئے یہ سب کچھ انہیں معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی یونہی نہیں مثال دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کے تہوار میں سب شریک ہوتے ہیں اور بقرعید تو ایک ایسا تہوار ہے جس میں ایک بڑا کاروبار 10 دنوں کے اندر ہو جاتا ہے۔ آخری دن تو بقرہ بازار میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے۔ اس بازار میں عام طور پر سبھی مذاہب کے تاجر ہوتے ہیں جو اپنے بقرہ کو فروخت کر پورے سال کا خرچ نکال لیتے ہیں۔ ایسے میں بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بقرعید سب کے لیے ایک منافع بخش تہوار ہے۔ یہ بھائی چارہ اور امن و شانتی کا تہوار ہے۔
ممنوعہ جانور سے پرہیز
مفتی حسن رضا نوری کا کہنا ہے کہ اسلام کے مطابق جس ملک میں بھی مسلمان رہتے ہیں انہیں اس ملک کے قانون کی پاسداری اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہوتی ہے وہ کسی حال میں اس ملک کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اسلئے جو جانور ممنوع ہے اس کی طرف دیکھنا غیر مناسب ہے، بلکہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کی طرف دھیان نہیں دیں اور جس جانور کی اجازت ہے اسی جانور کی قربانی کی جائے۔ مفتی حسن رضا نوری کا کہنا ہے کہ دراصل یہی اسلامی طریقہ بھی ہے۔ اگر ممنوعہ جانور کی قربانی کوئی کرتا ہے تو اسلام کے اعتبار سے بھی اور دنیاوی قانون کے اعتبار سے بھی وہ غلط ہے۔